معاشی تباہی کیوں؟


 سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگ مفاجات
مشرق کے خداوند سفید ان فرنگی
مغرب کے خداوند درخشندہ فلزات
یورپ میں بہت روشنی علم و ہنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمہ حیواں ہے یہ ظلمات
رعنائی تعمیر میں، رونق میں، صفا میں
گرجوں سے کہیں بڑھ کے ہیں بنکوں کی عمارات
ظاہر میں تجارت ہے، حقیقت میں جوا ہے
سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگ مفاجات
یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو دیتے ہیں، تعلیم مساوات

اقبال کی طویل نظم ”لینن خدا کے حضور میں“ اقبال کی اس شاعری کا حصہ ہے جو ہمارے ہاں ممنوعہ شمار ہوتی ہے نقاد ان ادب میں یہ غیر مقبول ہے اور اہم بات یہ ہے کہ اقبال کی نظموں پر مشتمل شائع شدہ کتب میں

اس نظم کو زیر بحث لانے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی ہمارے مکتب اور میڈیا کے خداوند بھی اس سے خوف کھاتے ہیں بال جبریل کی جو تین طویل نظمیں ہیں۔ یہ نظم ان میں سے ایک ہے ایک زمانے میں ”بال جبریل“ اردو ادب کے نصاب میں شامل تھی مگر یہ نظم اس کا حصہ نہ تھی۔ اب یہ سوال تو بنتا ہے کہ مصور پاکستان حکیم الامت علامہ اقبال کے انقلابی فکر کی حامل اس نظم سے ادبیات اور سیاست کے ارباب بست و کشاد انداز تغافل کیوں اپنائے ہوئے ہیں؟

اس کا سیدھا سادہ جواب یہ ہے کہ ہماری اشرافیہ اور حکمران طبقہ معاشی انصاف کے اسلامی تصور کی قبولیت سے خائف ہے۔ ادبیات کے بزرجمہر (نوشیرواں کا دانا وزیراعظم یہ لفظ مجازاً عقل مند اور دانا کے لیے بولا جاتا ہے ) کبھی سرمایہ داریت کے استحصال کے تذکرے کرتے ہوئے لینن ہی کی اشتراکیت سے متاثر تھے۔ اشتراکیت کا افغانستان میں ڈوبی روسی اشتراکیت چھوڑ کر امریکی سرمایہ داریت کی گود میں جا بیٹھے ہیں، بے خدا اشتراکیت سے سرمایہ داریت کے استحصالی چنگل میں اسی لیے گئے کہ انہیں خدائی تہذیب سے چڑ ہے۔

انہیں اسلام کا معاشی تصور جو حرص و ہوس اور جبر و استبداد سے نجات دلاتا ہے وہ کیسے قبول ہو سکتا ہے؟ دہریت سے فرنگی مدنیت کی طرف ان کا سفر لا دینیت کی غارت گری کے لیے تھا دہریت کی طرح مغربیت نے بھی خدا کو معاملات سے عملاً بے دخل کر دیا ہے۔ اب نظم کے اشعار پر نظر ڈالیے اور ان کے معانی و مفاہیم پر غور کریں۔

•مشرق کے محکوم اپنے فرنگی آقاؤں کی خدمت بجا لانے میں مصروف ہیں تو اہل مغرب زرپرستی اور چمکنے والی دھاتوں کی پرستش میں منہمک ہیں۔

•یورپ میں علم و ہنر کی روشنی بہت زیادہ ہے سچ یہ ہے کہ وہاں تاریکی کا دور دورہ ہے اور کوئی ایسا آب حیات کا چشمہ نہیں جس سے انسان حقیقی زندگی حاصل کر سکے۔

•یورپ میں فن تعمیر رونق اور صفائی میں بینکوں کی عمارتیں گر جوں سے زیادہ خوبصورت ہیں

مغرب بظاہر تجارت کرتا نظر آتا ہے لیکن عملاً وہ جوا ہے جس سے ایک آدھ شخص کو فائدہ ہوتا ہے جب کہ لاکھوں اچانک معاشی طور پر تباہ ہو جاتے ہیں

• ان کا علم و حکمت، سوچ و بچار اور حکمرانی میں دو سروں کا لہو پی کر مساوات کی تعلیم ہے
مغرب کی ترقی اور اسکی معاشرتی فتوحات کا نتیجہ اقبال کے الفاظ میں یہ ہے
بے کاری و عریانی و مے خواری و افلاس کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کی فتوحات

یعنی بے روزگاری اور مفلسی نے مغرب کے زیر نگیں ممالک میں غربت کا راج قائم کر رکھا ہے۔ عریانی اور شراب نوشی جیسی لعنت کی فراوانی مغربی مدنیت کی وہ خدمات ہیں جو اس نے خلق خدا کے لیے انجام دیں

اقبال نے اشتراکیت کے ”لا“ سے یہ امید باندھی تھی کہ وہ الا اللہ کی طرف آئے گا اور مغرب کے استحصالی معاشی نظام کو شکست دے گا مگر اقبال کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔

روس بھی رد انقلاب کی تباہی سے دوچار ہو کر سرمایہ داریت کی چاکری کر رہا ہے۔ ہمارے حکمران بھی اسی کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہیں۔ وہ خدائی فرمان پر غور کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ایسے میں وہ معاشی انصاف کیسے مہیا کر سکتے ہیں

جان کینز جیسے ماہر اقتصادیات بیسویں صدی کی تیسری سہ ماہی کو ان کا دور کہا جاتا ہے اور ملٹن فریڈمین جو نوبل انعام یافتہ ہیں یہ اور ان جیسے دوسرے بڑے ماہرین پچھلی کئی دہائیوں سے سود اور سودی بنکاری نظام کو معاشی ترقی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ ایک ماہر معیشت سٹیو کین کا کہنا ہے ”آؤ بنکوں کو دیوالیہ کرو“ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا بھر کا سرمایہ 43 ہزار ملٹی نیشنل کمپنیوں کے پاس ہے جن کا کنٹرول 500 بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں اور ان کا بیس بڑے بنکوں کے پاس ہے جو عوام کی بچت اور ان سے حاصل شدہ دولت ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کو دے کر دنیا کی معیشت پر ”آکٹوپس“ بن کر بیٹھے ہوئے ہیں۔

اسی مصنوعی دولت سے معیشت، سیاست اور معاشرت کو اپنے قبضے میں لے رکھا ہے۔ جنگیں، اخلاق باختگی، فحاشی اور عریانی کا تسلط بھی اسی کے ذریعے قائم کر رکھا ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سود کے بل بوتے پر پاکستان اور اس جیسے ترقی پذیر ممالک کی معیشت کو کنٹرول کیے ہوئے ہیں سودی قرضوں کا عادی بنا کر ملکی اثاثے گروی رکھے جاتے ہیں پاکستان اسلامی جمہوریہ ہے سودی کینسر سے نجات کے لیے تین دہائیوں سے عدالتی فیصلوں اور آئین کی دفعہ 38 ایف جس میں سود کو جتنا جلد ممکن ہو ختم کرنے کا کہا گیا ہے اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے 1948 میں اسٹیٹ بینک کے افتتاح کے موقع پر اپنے خطاب میں کہا تھا

”مغرب کے معاشی نظام نے انسانیت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے ماہرین معیشت سود سے پاک بینکنگ اور معیشت کے لئے کام کریں جس کی میں خود نگرانی کروں گا“

قائد اعظم کو زندگی نے اس کی اجازت نہ دی مگر ہمارے حکمران اس کے لیے کوششیں کرنے کے بجائے سودی نظام کا تحفظ کرتے رہے جس کی واضح مثال 1991 سے 2022 تک تمام عدالتی فیصلوں کو مسترد کرنا ہے۔ پہلا عدالتی فیصلہ آیا تو پاکستان کا قرض سوا کھرب تھا جو اب 50 کھرب سے تجاوز کر چکا ہے۔ بجٹ کا 50 فیصد سے زائد سودی ادائیوں میں جاتا ہے۔ سود کو قرآن مجید نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے جنگ قرار دیا ہے اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کر کے معیشت کی بحالی کے خواب دیکھنا دیوانگی ہے سفیدان فرنگ اور ان کے نظام کی محکومی نے پاکستان کو دیوالیہ ہونے تک پہنچا دیا ہے اس کے باوجود علامہ اقبال اور قائد اعظم کے نام لیوا اس استحصالی نظام کے محافظ اور معاون بنے ہوئے ہیں۔ فی اللعجب!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments