کیا ہم ایک ہیں؟


اقسام ازل نے اپنا نصیبہ بھی کیا بنایا ہے کہ بقول میر

جن بلاؤں کو میر سنتے تھے
ان کو اس روزگار میں دیکھا

سوشل میڈیا پر کچھ عجیب مناظر دیکھے۔ بھگاؤ سندھ بچاؤ، کے نعروں کے شور میں اپنی دنیا آپ پیدا کر کے زندہ رہنے کا سامان پیدا کرنے والے پاکستانیوں میں سے ایک لسانی شناخت رکھنے والوں کو، تقریباً انہی کے طبقے سے تعلق رکھنے والے دوسری لسانی شناخت والوں نے جس طرح نشانے پہ رکھا ہوا تھا اسے دیکھ کر طبیعت بہت بوجھل ہوئی۔ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اس المیے کو کس کے ساتھ شیئر کیا جائے کہ راجہ محمد خان کی واٹس ایپ پر وڈیو کال آ گئی۔

جب سے یہ مفت کال کی سہولت میسر آئی ہے وہ بہت شاد ہیں اور اس کا استعمال بقدر شوق تو کیا اس سے بھی کچھ بڑھ کر کرتے ہیں۔ میرا اترا ہوا چہرہ دیکھا تو وجہ پو چھی۔ میں نے کہا حضرت ایک نئے لسانی نعرے کی ایجاد کے ساتھ متوسط طبقے کے روزی کے لیے سرگرداں پاکستانیوں پہ ظلم ہوتا دیکھ کر سوچ رہا ہوں کہ یہ مسکین تو وہ ہیں جن پہ شعر صادق آتا ہے کہ

شکم کی آگ لیے پھر رہی ہے شہر بہ شہر
سگ زمانہ ہیں، ہم کیا ہماری ہجرت کیا
یہ اس رویے کے تو حقدار نہیں۔

دوسری طرف ہم تو نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر ایک ہونے کا خواب دیکھنے والے اور اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں۔ کے دعویدار تھے، پھر یہ سب کیا ہو رہا ہے۔

بولے اگر آپ میں سچ سننے کی ہمت ہے تو کچھ عرض کروں۔ کہا ارشاد۔ بولے نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر والے بیانئے پہ تو حضرت علامہ اور مولانا حسین احمد مدنی کے درمیان ایک تحریری یدھ کا ریکارڈ ملتا ہے۔ اس بارے میں فریقین کے حامیوں کی رائے کو تو چھوڑیے حضرت علامہ کے صاحبزادے ڈاکٹر جاوید اقبال کی رائے یہ ہے کہ مولانا مدنی اس بارے میں درست نکتہ نظر رکھتے تھے۔ پھر بولے یہ الگ بات ہے کہ دوسری طرف انہی حضرت نے یہ فتوٰی دیا تھا کہ جو مسلمان گاندھی جی کی تقلید میں کھدر نہیں پہنے گا میں اس کا جنازہ نہیں پڑھاؤں گا۔

جہاں تک آئی۔ ایس۔ پی۔ آر کے پیارے پیارے گیتوں کے ذریعے حب الوطنی کو فروغ دینے کا تعلق ہے، میں تو ان کا بے حد قدر دان ہوں۔ بھولے بادشاہو، اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں یہ اچھی طرح خبر ہے کہ نہ تو ہم ایک پرچم پہ اکتفا کیے بیٹھے ہیں اور نہ ایک ہونے پر۔ ہم درجن بھر پرچم اور نسبتیں اپنی اپنی شناخت کی علامت بنائے ہوئے ہیں اور ان میں سے کس کو کس وقت کام میں لانا ہے، یہ ہنر بھی خوب جانتے ہیں۔ اب اگر فیض کے بقول،

یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے
کی خواہش کو کوئی حقیقت بنا کے پیش کرتا ہے تو اس کے لائک تو بنتے ہیں جی۔
انہوں نے اپنا بیان جاری رکھا۔
دراصل ملی اور قومی شاعری سے پاکستانیوں کو رغبت 1965 کے معرکے سے پیدا ہوئی۔ ویسے آپ اچھی طرح جانتے

ہیں کہ اس ایڈونچر کا حاصل اگر کچھ تھا تو یہی قومی نغمے۔ اگرچہ ان نغموں کا میں بھی فین ہوں کیونکہ ان میں قومی ایکتا کا پرچار اچھے انداز میں ہوا جس کے لیے ہمارے شاعروں، موسیقاروں اور گلوکاروں کو سلام۔ لیکن اس حقیقت کو کس طرح نظر انداز کیا جائے کہ اس معرکے کے نتیجے میں پاکستان اس طرح ڈی ریل ہوا کی منزل تو کیا جادہ منزل بھی کہیں کھو گیا۔ اس کے بعد آپ کے حالات میں جو بھی موڑ آئے انہوں نے خرابی میں کم یا زیادہ اضافہ تو کیا لیکن پھر پٹڑی پہیوں کے نیچے نہ آئی۔

اب آپ کا حال افتخار عارف کے الفاظ میں کچھ ایسا ہے۔
تم بھی افتخار عارف بارہویں کھلاڑی ہو
انتظار کرتے ہو ایک ایسے لمحے کا
ایک ایسی ساعت کا
جس میں حادثہ ہو جائے
جس میں سانحہ ہو جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments