سب رنگ کہانیاں (5) ۔ حسن رضا گوندل کے سچے عشق کی فسوں کاریاں


جمعہ کو جہلم سے گگن شاہد کی طرف سے پیغام ملا کہ اتوار کو ”سب رنگ کہانیاں“ کے سلسلے کی پانچویں کتاب کی بک کارنر پر تقریب رونمائی ہے آپ بھی تشریف لائیں۔ ایسی تقریبات میں شرکت میں باعث افتخار اس لئے سمجھتا ہوں کہ وہاں ادب شناس لوگوں سے ملاقات کے علاوہ نئی نئی کتابوں سے شناسائی بھی ہوتی ہے۔ تقریب میں شرکت کے لئے پہلے سے طے شدہ اپنے کچھ پروگرام تبدیل بھی کرنا پڑے۔ اتوار کو میں اور میرے چھوٹے بھائیوں جیسے دوست محمد شکیل چوہدری تین بجے بک کارنر پہنچے تو گگن شاہد نے بڑی خوش دلی سے ہمارا استقبال کیا۔

حسن رضا گوندل کو وہاں موجود پا کر ایک خوشگوار حیرت ہوئی کیونکہ ان کو میں اپنے حساب سے 9 جون کو برطانیہ واپس بھیج چکا تھا۔ استفسار پر انہوں نے بتایا کہ کتاب کی رونمائی کی تقریب کے لئے انہوں نے اپنی فلائٹ تبدیل کی ہے۔ سب رنگ کہانیاں کی یہ تقریب اس لحاظ سے بھی منفرد تھی کہ حسن پہلی دفعہ اس سلسلے کی کسی کتاب کی تقریب میں بنفس نفیس موجود تھے۔ ادب نواز اور کتابوں سے محبت کرنے والے اصحاب کی ایک بڑی تعداد کے علاوہ علاوہ حسن کے برادر خورد اویس رضا گوندل اور حامد رضا گوندل بھی محفل میں موجود تھے۔

کچھ دیر بعد امر شاہد بھی دوسرے دفتر سے وہیں آ گئے۔ حسن رضا نے اپنے سب رنگ سے عشق کی داستان کے کچھ اوراق پلٹے۔ شکیل عادل زادہ سے اپنی ملاقاتوں کے احوال کے ساتھ ساتھ سب رنگ کی کہانیاں کی تیاری کے مرحلے پر بھی بات کی۔ امر شاہد نے تفصیل سے کتاب کی تیاری کے تمام مراحل سے ہمیں آگاہ کیا جس میں کتاب کی کمپوزنگ، کتابت اور املا کی درستی، کاغذ کا انتخاب، سرورق کی تیاری، پروف ریڈنگ اور پرنٹنگ میں آنے والی مشکلات شامل تھیں۔

انہوں نے کاغذ پر درآمدی ڈیوٹی میں حالیہ اضافہ اور مارکیٹ میں کاغذ کی عدم دستیابی کی وجہ سے کتابوں کی چھپائی پر ہونے والے اضافی اخراجات کی وجہ سے قیمتوں میں اضافے پر بات کی۔ شکیل بھائی نے ریڈیو کے حوالے سے کتاب کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ باتوں میں وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا اور شام کے چھ بج گئے۔ ہم نے اجازت چاہی اور میرپور واپسی کا قصد کیا۔ آپ بک کارنر جائیں اور وہاں سے نئی کتابیں نہ لیں یہ تو ہو ہی نہیں سکتا۔ شکیل بھائی اور میں نے اپنی اپنی پسند کی کتب لیں اور واپس اپنے شہر روانہ ہوئے۔

اب کچھ بات ہو جائے سب رنگ کہانیاں کی پانچویں کتاب کی۔ کتاب کے ابتدائی صفحات میں حسب روایت شکیل عادل زادہ کا ”سب رنگ تماشا“ اور حسن رضا کا ”رنگ رنگ سب رنگ“ اپنی بہار دکھا رہا ہے۔ سب رنگ تماشا میں شکیل صاحب نے ڈائجسٹ کی دنیا سے قارئین کو آگاہ کرنے کے علاوہ ان سے اپنے دل کی باتیں بھی کی ہیں۔ ان کی ہر تحریر اپنے اندر ادب کی ایک چاشنی لیے ہوتی ہے۔ اردو ادب کے جس معیار کی بنیاد انہوں نے سب رنگ کے پہلے شمارے میں رکھی اس کو آخری شمارے تک اسی طرح برقرار رکھا۔

عالمی اور ملکی ادب سے کشید کردہ بہترین کہانیوں کا انتخاب ہی سب رنگ کا خاصہ تھا جس نے ہمارے سمیت ایک دنیا کو سب رنگ کا دیوانہ بنائے رکھا اور یہ دیوانگی اب تک بے قرار ہے۔ سب رنگ ڈائجسٹ سے زیادہ ایک ادبی پرچہ تھا۔ ”رنگ رنگ سب رنگ“ میں حسن نے بڑے مختصر لیکن جامع انداز میں اپنے جذبات کا اظہار کر کے دریا کو کوزے میں بند کر نے کی کوشش کی ہے۔

سب رنگ کہانیاں کی پانچویں کتاب میں بھی موپساں، ایچ۔ جی۔ ویلز، ہنری سلیسر، اوہنری، جیفرے آرچر، رابرٹ آرتھر اور ژاں پال سارتر جیسے شہرہ آفاق ادیبوں کی تخلیقات کے علاوہ پچیس سے زیادہ دوسرے مصنفین کی شہکار کہانیوں کے تراجم بھی شامل کیے گئے ہیں۔ ان کہانیوں کے ترجمہ نگاروں میں بھی شاہد احمد دہلوی، احمد صغیر صدیقی، اثر نعمانی، انور خواجہ، راجپوت اقبال احمد، مقبول جہاں گیر اور شکیب جلالی جیسے اردو ادب کے بہترین ادیب و شاعر شامل ہیں۔

میرے ناقص خیال کے مطابق بہترین ترجمہ وہ ہے جو آسان اور سلیس زبان میں اس طرح کیا جائے کہ کہانی کی نوعیت، کردار اور اس کے سبق میں بنیادی تبدیلی نہ ہو اور کہانی میں دیا گیا پیغام قاری کی سمجھ میں آ جائے اور یہی ترجمہ نگار کا کمال ہے۔ سب رنگ کہانیاں کے سلسلے کی دوسری کتاب پر لکھے اپنے تبصرے میں موپساں، ہنری سلاسر، او ہنری، جیفرے آرچر اور رابرٹ آرتھر پر میں تفصیل سے لکھ چکا ہوں۔

فرانسیسی افسانہ نگار ”موپساں“ کو بلا شبہ دنیا کا بہت بڑا افسانہ نگار مانا جاتا ہے جس کی کہانیاں ادب میں کلاسیک کا درجہ رکھتی ہیں۔ اس کی کہانیاں معاشرے کی بہت سی تلخ حقیقتوں کو آشکار کرتی ہیں۔ ”روٹی کے گناہ“ کے نام سے عائشہ قمر کی ترجمہ کردہ اس کی یہ کہانی بھی فرانسیسی معاشرے میں بھوک و افلاس میں مبتلا ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو محنت کر کے اپنے لیے روٹی کمانا چاہتا ہے لیکن اس کا بے درد معاشرہ ایسا کوئی موقع اسے فراہم نہیں کرتا۔ اس کہانی میں موپساں نے اس وقت کے فرانسیسی معاشرے کی صحیح عکاسی کی ہے۔

ہنری سلیسر ایک امریکی افسانہ نگار اور ڈرامہ نگار تھے جن کا انتقال 2002 ء میں ہوا تھا۔ وہ طنزیہ کہانیاں لکھنے اور اپنے افسانوں کے غیر متوقع اختتام کی وجہ سے زیادہ مشہور ہیں۔ انہوں نے سیکڑوں کہانیوں اور ڈراموں کے علاوہ چار ناول بھی لکھے۔ اس کتاب میں بھی ہنری سلیسر کی تین کہانیاں بند غم، آوارگی کی شب اور دریا دل شامل ہیں جن کے تراجم بالترتیب عطیہ نسرین، وسیلہ خاتون اور شعیب جمیل نے کیے ہیں۔ تینوں کہانیوں کا مرکزی خیال ایک دوسرے سے بالکل مختلف اور اختتام غیر متوقع ہیں لیکن مجھے وسیلہ خاتون کی ترجمہ کردہ ”آوارگی کی شب“ سب سے زیادہ پسند آئی جس میں ایک خاتون نے اپنی یاداشت کھو جانے والے شوہر کو دوبارہ پانے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے۔

انور خواجہ پاکستان ٹیلی ویژن کے نامور پروڈیوسر، افسانہ نگار اور ترجمہ نگار ہیں جو آج کل امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا میں آباد ہیں۔ ایبٹ آباد کے باسی ہونے کی وجہ جنگل کے پس نظر میں جنگلی حیات کی نفسیات پر کہانیاں ان کا پسندیدہ موضوع رہا ہے۔ ستر کی دہائی میں سب رنگ میں چھپنا ان کے بہترین کہانی کار اور ترجمہ نگار ہونے کی ایک سند ہے۔ ارکسن کالڈول کی کہانی کا ترجمہ انہوں نے ”بین السطور“ کے نام سے کیا ہے۔ یہ ایک ایسے جج کی کہانی ہے جسے ایک نفیس، وفادار اور محبت کرنے والی بیوی کی تلاش تھی۔ فرن نام کی ایک طوائف اس جج سے شادی کی خواہش مند تھی لیکن جج صاحب راضی نہیں تھے۔ آخر فرن میں جج کو یہ خوبیاں نظر آ گئیں جسے اس نے اپنی شریک حیات بنا لیا۔

شکیب جلالی ایک مایہ ناز عزل گو جواں مرگ شاعر اور ادیب تھے جنہوں نے مایوسی کے عالم میں بتیس سال کی عمر میں ٹرین کے نیچے آ کر خود کشی کر لی تھی۔ یوگو سلاوین ادب سے ایک بہترین کہانی کا ترجمہ انہوں نے ”ارذل“ کے نام سے کیا تھا۔ اس کہانی کو بعد از مرگ شکیب جلالی سب رنگ کے لئے شکیل عادل زادہ نے منتخب کیا۔ یہ میاں بیوی کے آپس کے تعلقات پر مبنی کہانی ہے جو ایک طرح سے ہمارے معاشرے کی بھی عکاسی کرتی ہے۔ میاں بیوی کے درمیان کھٹ پٹ چلتے رہنے سے ان کے درمیان تعلق مضبوط ہوتا ہے یہی اس کہانی کا لب لباب ہے۔

راجپوت اقبال احمد کی ترجمہ شدہ ونسٹن گراہم کی کہانی توثیق، کراچی کے مشہور شاعر اور ادیب احمد صغیر صدیقی کی ایچ۔ جی۔ ویلز کی کہانی کا ترجمہ گنج رائیگاں، جیفرے آرچر کی کہانی کا محمد ظفر کا ترجمہ محبت نامہ بھی بڑے خاصے کی چیز ہیں۔ عمر کے جس حصے میں اب میں ہوں اس میں گزری ہوئی پرانی باتیں زیادہ یاد آتی ہیں۔ اس کتاب کی جو بھی کہانی میں نے پڑھنی شروع کی فوراً اس کا خاکہ ذہن میں آتا چلا گیا۔

ممتاز کالم نگار حسن نثار کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں ”حسن رضا گوندل وہ مجنوں ہے جسے لیلی ملے نہ ملے، صحرا میں جنت کاشت کرتا رہے گا۔ یہ وہ خفیہ کہانی زادہ ہے جو قسط وار پہر بہ پہر طلوع ہو رہا ہے۔ جس کا آسمان شکیل عادل زادہ ہے جس نے اس معاشرے میں کہانی کو نیا جنم دیا۔ کہانی پرست ہمیشہ شکیل عادل زادہ اور حسن رضا گوندل کے ممنون رہیں گے کہ کبھی کبھی سائے جسموں سے بھی لمبے ہو جاتے ہیں۔ “

ناول نگاری اور سفرناموں کی دنیا کا ایک بڑا نام سلمی اعوان صاحبہ ہیں جو سب رنگ کہانیاں کی پانچویں کتاب کے بارے میں لکھتی ہیں۔ ”سب رنگ کہانیوں کی صورت میں اشاعت نے دیرینہ محبت کی اس شمع کو پھر سے روشن کر دیا ہے جو عشاق کے دلوں میں فروزاں ہے۔ حسن رضا گوندل نے اپنے اس اثاثے کی جس محبت، محنت اور لگن سے ترتیب و تدوین کی ہے دنیائے ادب کے قارئین ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔“

بک کارنر جہلم کے روح رواں گگن شاہد اور امر شاہد کی بات کیے بغیر سب رنگ کہانیاں کی بات مکمل نہیں ہوتی۔ یوں تو سب رنگ کہانیاں کے سارے سرورق بہت خوبصورت انتخاب ہیں لیکن اس کتاب کا خوبصورت نیلے اور پیلے رنگ کے امتزاج اور سب رنگ کے شماروں کی بہار میں بنا سرورق یقینا

امر کے زرخیز ذہن نے سوچا ہو گا۔ سب رنگ کہانیاں کے سلسلے کی ایک سے بڑھ کر ایک مسلسل پانچ کامیاب کتابیں چھاپنے پر امر شاہد اور گگن شاہد دونوں بھائی مبارکباد کے مستحق ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments