پوسٹ مارٹم کیا ہے؟ ڈاکٹر عامر لیاقت کے کیس کے تناظر میں


ڈاکٹر عامر لیاقت اچانک فوت ہوئے۔ ان کی تدفین غازی عبداللہ شاہ غازی کے مزار کے احاطے میں کی گئی۔ لیکن اس سے پہلے جب ان کے پوسٹ مارٹم کرانے کی بات آئی تو ان کی سابقہ بیوی کے بقول ان کے بچوں نے پوسٹ مارٹم کرانے سے منع کیا ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر فاروق ستار نے میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر عامر لیاقت کی سابقہ بیوی کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے بھی بڑی بڑی شخصیات کے قتل کی انکوائریز کے باوجود کچھ نہیں ہوا جن میں لیاقت علی خان، ضیا ءالحق اور بی بی بے نظیر کے نام لئے گئے تو اگر پوسٹ مارٹم ہو بھی جائے تو ہونا، ہونا کچھ نہیں بہتر ہے کہ ان کو بغیر پوسٹ مارٹم کے دفنایا جائے۔ اب اس بات پر بات ہو سکتی ہے لیکن میرا موضوع پوسٹ مارٹم ہے تو میں اپنے موضوع کی طرف آتا ہوں۔

لیکن یہ بھی بتاتا چلوں کہ ڈاکٹر عامر لیاقت کے پوسٹ مارٹم کرانے کے لئے ایک شہری نے درخواست دی تھی جو متعلقہ مجسٹریٹ نے منظور کی تھی، جس کو کراچی ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا اور اس آرڈر کو معطل کیا گیا۔

لیکن گزشتہ ہفتے کراچی ہائی کورٹ میں ڈاکٹر عامر لیاقت کی بیوہ ہانیہ نے پوسٹ مارٹم کے لئے ڈویژن بینچ کو درخواست دی ہے جس کو نوٹس کرتے ہوئے بنچ کے سربراہ مسٹر جسٹس اقبال کلہوڑو نے ریمارکس دیے کہ پوسٹ مارٹم کرانا ضروری ہے۔ بی بی بے نظیر کا پوسٹ مارٹم نہ کر کے ہم اب تک پچھتا رہے ہیں۔

تو چلیں پہلے سمجھتے ہیں کہ پوسٹ مارٹم کیا ہے اور اس کے قوانین اور طریقہ کار کیسے طے کیے جاتے ہیں۔

لاطینی زبان میں لفظ mortem ”موت“ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اصطلاحی معنوں میں موت کی وجوہات جاننے کے لیے لاش کے مکمل طبی معائنے کو پوسٹ مارٹم کہتے ہیں۔ میڈیکل سائنس کی اصطلاح میں اس عمل کو Autopsy کہتے ہیں۔ لفظ آٹوپسی کا تعلق یونانی زبان سے ہے، جسے ”گواہ“ یا ”مشاہدہ ذات“ کے معنوں میں لیا گیا ہے۔ پوسٹ مارٹم کی تاریخ قدیم مصری اقوام سے جاکر ملتی ہے۔ قدیم مصری لاشوں اور مختلف اعضاء بدن کو حنوط کرنے میں کمال مہارت رکھتے تھے اور یہ مصری ہی تھے جنہوں نے انسانوں کے علاوہ دیگر حیوانات کے اعضاء کا بھی انتہائی عمیق مشاہدہ کیا تھا۔

آٹوپسی ماہر اور سرٹیفائیڈ پیتھالوجسٹ کے زیرنگرانی کی جاتی ہے۔ طبی تحقیق و تفتیش کے حوالے سے کیے جانے والے پوسٹ مارٹم کو کلینیکل/ پیتھالوجیکل آٹوپسی کہتے ہیں اور قتل کی تحقیقات اور قانونی معاملات کے حوالے سے کیے جانے والے پوسٹ مارٹم کو میڈیکولیگل آٹوپسی یا فارینسک پیتھالوجی کہا جاتا ہے، جبکہ انسانوں کے علاوہ دیگر حیوانات کے پوسٹ مارٹم کے لئے Necropsy کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔

پوسٹ مارٹم کے آغاز پر باڈی کا ظاہری معائنہ کیا جاتا اور تفصیلات نوٹ کی جاتی ہے اور دوسرے مرحلے میں باڈی پر سینے سے ناف تک انگریزی حرف ”Y“ کی شکل کا چیرہ لگا کر اندرونی اعضاء کو جسم سے الگ کر کے ان کا مکمل معائنہ کیا جاتا ہے اور سیمپل لیے جاتے ہیں، اس کے علاوہ دماغ کو کو پڑی سے باہر نکال کر اس کا بھی تفصیلی معائنہ کیا جاتا ہے، بعد ازاں تمام اعضاء کو ان کی جگہ پر واپس رکھ کر ٹانکے لگا دیے جاتے ہیں۔ اس دوران اگر کسی عضو یا ٹشو کو مزید تحقیق کے لیے محفوظ کرنے کی ضرورت پیش آئے تو یہ عضو یا ٹشو صرف اور صرف ورثاء کی اجازت سے محفوظ کیے جاتے ہیں۔

کیس کی نوعیت کے اعتبار سے مکمل آٹوپسی کے بجائے جسم کے کسی مخصوص حصے کی آٹوپسی بھی کی جا سکتی ہے۔ آٹوپسی کا طریقہ کار عالمی طبی معیار کے اصولوں کے مطابق طے کیا گیا ہے، اس میں انسانی بدن کی تکریم اور ورثاء کے جذبات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ مزید یہ بھی کہ آٹوپسی کے بعد اس امر کو بھی یقینی بنایا جاتا ہے کہ لاش کی ظاہری حالت میں کوئی فرق نہ آئے۔

قبر کشائی کے قوانین اور طریقہ کار :۔

کسی بھی مقتول کی موت کی وجہ معلوم کرنے اور تحقیقات کرانے کے لیے مجسٹریٹ کو درخواست زیر دفعہ 176 ضابطہ فوجداری دی جا سکتی ہے جس پر مجسٹریٹ انکوائری تشکیل دینے کا حکم دے سکتا ہے۔

جب کہ انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 176 ( 2 ) کے تحت درخواست گزار کی جانب سے قبر کشائی کیے جانے کی استدعا کی جا سکتی ہے۔

جس پر مجسٹریٹ درخواست منظور کر کے اپنی نگرانی پر قبر کشائی کرانے کے بعد لاش کا پوسٹ مارٹم کرنے کا حکم دے سکتا ہے تاکہ وجہ موت کا ٹھیک طرح پتہ چل سکے۔

اعلی ’عدلیہ نے اپنے فیصلہ PCrLJ 2003 page 2000 میں قرار دیا ہے کہ قبر کشائی کی درخواست زائد المیعاد ہو تب بھی مجسٹریٹ درخواست کو خارج نہیں کر سکتا۔

ایک اور مقدمہ YLR 2006 Page 1953 میں قرار دیا گیا ہے کہ اگر مقدمہ عدالت میں چل رہا ہو اور کوئی فریق قبر کشائی کی درخواست داخل دفتر کرتا ہے تو دوسرے فریق کو سنے بغیر درخواست منظور نہ کی جائے۔

اگر ایک بار پوسٹ مارٹم ہو جائے اور تدفین بھی ہو جائے تو دوبارہ قبر کشائی کرنے کے بعد دوبارہ پوسٹ مارٹم کیا جاسکتا ہے۔

اسی طرح MLD 1985 page 782 کے تحت قبر کشائی کی درخواست یا قتل کی تحقیقات کی درخواست داخل دفتر کرنے پر کوئی میعاد لاگو نہیں ہوتی یہ درخواست کبھی بھی دی جا سکتی ہے۔

قبر کشائی کی درخواست اور موت کی وجوہات کی تحقیقات کی درخواست کوئی بھی دے سکتا ہے حتی ’کہ اجنبی شخص بھی مجسٹریٹ کو درخواست دے کر قانون کو حرکت میں لا سکتا ہے۔

جب ایک بار مجسٹریٹ کرا دے تو گورنمنٹ یا پولیس دوبارہ انکوائری نہیں کرا سکتی اور نہ ہی قبر کشائی کرا سکتی ہے۔

ایک اور فیصلہ میں سپریم کورٹ نے PLD 1998 S۔ C page 388 میں قرار دیا کہ پولیس کی قید میں کوئی بھی شخص پولیس کی ذمہ داری میں ہوتا ہے اگر وہ قیدی کو جعلی مقابلہ میں مار دے اور اگر پولیس کے خلاف کارروائی نہ ہوئی تو یہی سمجھا جائے گا کہ ملک میں جنگل کا قانون نافذ ہے۔

لیکن ہمارے ہاں کبھی قانون سے لا علمی، کبھی اخلاقی، کبھی مذہبی، کبھی کسی سازش یا خارجی دخل اندازی یا پھر اپنوں کے انکار اور تکرار کی وجہ سے پوسٹ مارٹم کا یہ عمل نہ ہو پانے سے موت کے اصل حقائق منوں مٹی تلے دب جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments