انگلستان کا جمہوری سفر ( میگنا کارٹا سے شاندار انقلاب تک )۔


جزائر برطانیہ براعظم یورپ کے شمال مغربی سرحد کے پار بحر اوقیانوس ) اور اس کے ذیلی سمندروں ( بحیرہ شمال، رودباد انگلستان، بحیرہ سیلٹک اور بحیرہ آئرش ) کے پانیوں میں واقع دو بڑے اور بے شمار چھوٹے جزائر پر مشتمل براعظم یورپ کا خطہ ہے۔ سیاسی طور پر یہ خطہ آج کل دو ممالک میں منقسم ہے 1۔ برطانیہ عظمٰی اور 2۔ جمہوریہ آئرلینڈ۔

”برطانیہ عظمٰی“ چار علاقوں (انگلستان، ویلز، اسکاٹ لینڈ اور شمالی آئرلینڈ ) پر مشتمل ملک ہے۔ 1707 میں متحدہ مملکت ( United Kingdom ) کے قیام سے پہلے برطانیہ کو عمومی طور پر انگلستان کہا جاتا تھا۔ اور اس کیاس عرصے کی منفرد تاریخ ہے۔ انگلستان کی ایک انفرادیت جمہوری نظام کے قیام اور ترویج میں اس کی اولیت اور قدامت ہے۔ جس کی وجہ سے اس کو جمہوریت کی ”ماں“ کہا جاتا ہے

یوں تو جدید انسان یہاں آخری دور حجر سے آباد رہے ہیں تاہم اس کو انگلستان کا نام اینگلو سیکسن (جرمنک قبائل ) کے آنے سے پڑ گیا ہے جنہوں نے 5 ویں صدی میں رومن تسلط کے خاتمے کے بعد جزائر پر حملہ کر کے یہاں چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم کر لیں۔

9 ویں صدی میں ”نارتھ مین“ نامی قبائل کے ایک گروپ ڈینش  نے بیشتر اینگلو سیکسن انگلینڈ فتح کر لیا تاہم اس کی ایک ریاست ویسیاکس (Wessex) کی بادشاہت جس کا حکمران ”الفرڈ دی گریٹ“ ( 871 تا 899 ع ) تھا بچ گئی۔ الفرڈ نے دفاع کو مضبوط بنانے کے ساتھ علوم و فنون کی ترویج کی۔ ماہرین کے زیر نگرانی کئی اہم کتابوں کے ترجمے اینگلو سیکسن زبان میں کرائے

الفرڈ کے بعد اس کے جانشینوں نے بتدریج ”ڈینش“ سے اپنے علاقے بازیاب کرا کر ملک میں اینگلو سیکسن کنٹرول بحال کیا۔

1066 میں نارمنوں ( فرانس میں آباد شمالی قبائل کا ایک اور گروپ ) نے ”ولیم، ڈیوک آف نارمنڈی“ کی قیادت میں ”ہاسٹینگ (Hastings ) کی لڑائی میں اینگلو سیکسن کو شکست دے کر انگلینڈ کے مالک بن گئے۔

ولیم کا انگلستان کا بادشاہ بننے سے ویان تین نتیجے نکلے۔ 1۔ جاگیرداری کا خاتمہ۔ 2 انگلینڈ میں مرکزی حکومت کا آغاز اور 3 جمہوریت کی ابتداء اور بتدریج نشو و نماء۔

ولیم کے ایک جانشین ”ہنری دوم“ نے اپنے دور حکومت ( 1154 تا 1188 ) میں فرانس کے مغربی نصف کے علاوہ تمام انگلینڈ پر بھی غلبہ حاصل کر لیا۔ ہنری دوم کا شمار 12 ویں صدی کے مدبر حکمرانوں میں ہوتا ہے۔

جیوری اور کامن لاء۔ ہنری دوم کا سب سے اہم کارنامہ ”جیوری عدالتی نظام“ کا قیام ہے۔ جاگیرداروں کے عدالتوں کے مقابلے میں یہ جیوری عدالتیں زیادہ مبنی بر انصاف ہوتی تھیں۔

ان جیوری عدالتوں کے ذریعے کیے گئے قانونی فیصلے کی حیثیت بعد کے مقدمات میں نظائر کی ہو جاتی تھی۔ اسی طرح انگلینڈ بتدریج ایک یکساں نظام قانون کے تحت لایا گیا جس کو ”کامن لاء“ کہا گیا۔ کیونکہ یہ تمام ملک کے لیے عام اور یکساں تھا۔ رومن قانون کے برعکس یہ حکمران یا قانون ساز کی مرضی کے بجائے عرصے سے چلے آئے روایات اور اصولوں پر قائم کیا گیا تھا۔ انگلستان کا یہ عام قانون ( کامن لاء ) بہت سارے انگریزی بولنے ممالک بشمول متحدہ امریکہ کے قانونی نظاموں کی بنیاد بن گیا۔

”ہنری دوم کے بعد اس کا بیٹا ’رچرڈ شیر دل“ تخت پر بیٹھا۔ اس کے بعد دوسرا بیٹا ”جان“ بادشاہ بنا۔ یہ غیر مقبول تھا۔ اس نے فرانس کے ساتھ ایک مہنگی اور ناکام جنگ کا آغاز کر دیا۔ جس کے نتیجے میں وہ نہ صرف فرانس میں اپنے علاقے گنوا گیا بلکہ جنگ کے لیے نئے ٹیکس لگانے کی کوشش میں اپنے امراء کے ساتھ تناؤ کا باعث بھی بنا۔ 1215 میں ناراض امراء نے بغاوت کر کے بادشاہ کو بعض روایتی سیاسی حقوق عطا کرنے پر مجبور کیا۔ انہوں نے بادشاہ کے سامنے تحریری صورت میں جو مطالبات پیش کیے۔ وہ ”میگنا کارٹا“ ( Magna Carta ) کہلاتے ہیں۔

انفرادی حقوق اور آزادیوں کے لیے انگلستان کی روایتی احترام کے سلسلے میں میگنا کارٹا ”ایک اہم دستاویز ہے۔

اگرچہ یہ بادشاہ اور امراء کے درمیان معاہدہ تھا۔ تاہم یہ کچھ ایسے اہم اصول یا نکات بھی رکھتا تھا۔ جو تمام انگریز رعایا پر انگریز بادشاہ کے اختیار کو کم کرنے کا باعث بنے۔ ان میں ایک تصور یا نکتہ یہ پنہاں تھا کہ بادشاہوں کو مکمل طور پر اپنی مرضی سے حکمرانی کا حق نہیں۔ ان کو قانون کے مطابق حکومت کرنی ہوگی۔

” میگنا کارٹا“ کے 63 دفعات تھے۔ جن میں دو دفعات افراد کے بنیادی حقوق کے قیام سے متعلق تھے۔ دفعہ 12 میں کہا گیا تھا کہ ”ٹیکس لاگو کرنا بادشاہت کی عمومی مرضی سے ہو گا“ اس کا مطلب یہ تھا کہ ٹیکس لگانے سے پہلے بادشاہ نے عمومی مرضی معلوم کرنی ہوگی۔ دفعہ 39 میں کہا گیا تھا کہ ”کسی فرد کو قانونی اجازت کے بغیر گرفتار یا قید نہیں کیا جا سکے گا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ فرد کو“ جیوری عدالت ”سے رجوع کرنے اور قانونی تحفظ کا حق دیا گیا۔ یعنی اس سلسلے میں Due Process of Law کو فالو کرنا ہو گا۔ دوسرے الفاظ میں بادشاہ رعایا کے کسی فرد کو اپنی مرضی یا آمرانہ انداز میں سزا نہیں دے سکتا تھا۔

اگلی صدیوں میں ”میگنا کارٹا“ کے اصول کا دائرہ تمام انگریز عوام کی آزادیوں تک وسیع ہوتا گیا۔ مثلاً دفعہ 12 کی بعد میں یہ تشریح کی گئی کہ بادشاہ پارلیمنٹ کی اجازت کے بغیر کوئی ٹیکس نہیں لگا سکتا ہے۔ ( یہ اصول کہ ”نمائندگی کے بغیر کوئی ٹیکس نہیں“ 5 سو سال بعد امریکی انقلاب کا ایک بنیادی نعرہ بن گیا) ۔

ماڈل پارلیمنٹ ”نارمنوں“ سے پہلے اینگلو سیکسن بادشاہوں کے ہاں اہم معاملات میں امراء سے مشورے لینے کی روایت موجود تھی۔ جو مشیروں کی کونسل کی حیثیت رکھتے تھے۔ 1295 میں ”کنگ جان“ کے نواسے ”ایڈورڈ اول“ کو فرانس سے جنگ کے لیے پیسوں اور عمومی حمایت کی ضرورت تھی۔ اس ضمن میں اس نے مشورے کے لیے لارڈز کے ساتھ کم درجے کے ”نائیٹس ( نواب ) اور قصبات کے نمایاں شہریوں کو بھی بلایا۔“ ایڈورڈ ”کا کہنا تھا کہ“ وہ اقدام جو سب پر اثر انداز ہو اس کے لیے سب کی تائید ضروری ہے ”مورخین نے اس جھمگھٹے کو“ ماڈل پارلیمنٹ ”کا نام دیا ہے۔ کیونکہ اس نے بعد کے پارلیمینٹوں کے لیے معیار قائم کیا۔ اس“ ماڈل پارلیمنٹ ”نے ٹیکس کی تائید میں ووٹ دیے اور اصلاحات اور قانون سازی می“ ایڈورڈ اول ”سے تعاون کیا۔

1300 کے وسط سے نائٹیس ( نواب ) اور درمیانے طبقے کے افراد نے حکومتی معاملات میں موثر کردار حاصل کر لیا۔ انہوں نے اپنی اسمبلی ( ہاؤس آف کامنز) بنا لی جو پارلیمنٹ کا ایوان زیریں تھا۔ امراء اور بشپ  بالائی ایوان ( ہاؤس آف لارڈز ) میں الگ بیٹھتے تھے چونکہ انگریز عوام کی اکثریت کی پارلیمنٹ میں کوئی کردار نہ تھا اس لیے یہ حقیقی جمہوری ادارہ تو نہ تھا تاہم اس کی موجودگی نے بادشاہ کے اختیارات کو محدود کر دیا تھا اور کسی حد تک نمائندگی کا اصول قائم ہو گیا تھا۔

پارلیمنٹ کا مضبوط تر ہو جانا ۔ آنے والے وقتوں میں حکومتی اخراجات کی تصدیق کرنے کے حق نے پارلیمنٹ کو کافی موثر بنا دیا۔ خزانے پر گرفت سے ہاؤس آف کامنز بتدریج ”ہاؤس آف لارڈز کا ہم پلہ ہوتا گیا۔ پارلیمنٹ وقت کے ساتھ ساتھ حکومت میں بادشاہ کے ساتھ خود کو ایک ہم شریک ساتھی گردانے لگی۔ یہ ٹیکسوں پر ووٹنگ، قانون سازی اور بادشاہ کو پالیسیاں بنانے میں مشورے دینے کے مقام تک پہنچ گئی۔

پارلیمنٹ کا بادشاہ کے ساتھ ٹکراؤ

بادشاہ کے اختیارات کو محدود کرنے کی جدوجہد کئی صدیوں تک جاری رہی۔ 1600 کے عشروں میں براعظم یورپ کے دوسرے ممالک کے بادشاہ زمانہ وسطی کی نسبت امراء پر زیادہ کنٹرول رکھنے لگے تھے۔ یہ بادشاہ نہ صرف حکمرانی کا حق جتاتے تھے بلکہ ”مطلق اختیار“ رکھنے کے دعویدار تھے۔ ان کا دعوی تھا کہ بادشاہ کو اقتدار خدا کی طرف سے تفویض ہوتا ہے۔ یہ خدائی حق بادشاہت کا نظریہ کہلاتا تھا۔ اس کے حامیوں کا موقف تھا کہ بادشاہ خدا کی طرف سے منتخب ہوتا ہے اور وہ صرف خدا کو جوابدہ ہوتا ہے۔

الزبتھ ”( Elizabeth) جو انگلینڈ ٹیوڈر ( Tudor ) سلسلے ( خاندان ) کی آخری حکمران ( ملکہ ) یوں ہوئی کہ 1603 میں بے اولاد فوت ہو گئی۔ اس کی جگہ، ملکہ کے اسکاٹ لینڈ سے تعلق رکھنے والے رشتہ دار“ اسٹورٹ ”  سلسلہ کے بادشاہوں نے لے لی۔“ اسٹورٹ ”خدائی حق بادشاہت کے نظریہ کے علمبردار تھے۔ اسکاٹ لینڈ کا“ جیمز پنجم ”“ جیمز اول ”کے نام سے انگلینڈ کا پہلا اسٹورٹ بادشاہ بن گیا۔ اس کو انگریزی قوانین اور اداروں کا بہت کم علم تھا اس لیے عوامی حقوق کے سلسلے میں اس کا پارلیمنٹ سے ٹکراؤ ہو گیا۔ یہ ٹکراؤ تین مسئلوں کے باعث ہوا۔

1) ۔ پیورٹن ( Puritan) کہلائے جانے والے مذہبی مصلح انگلش چرچ کے عقائد اور رسومات کو سادہ اور خالص بنانے کے خواہاں تھے ان کا خیال تھا کہ انگلینڈ چرچ رومن کیھتولک چرچ سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد بھی اسی پیٹرن کا ہے۔ تبدیلی کے اس مسئلہ پر پیورٹن کا ”جیمز، جو چرچ کا سرکاری سربراہ تھا، کے ساتھ اختلافات پیدا ہو گئے۔

2) ۔ جیمز اول ”نے فیصلے شاہی عدالت سے فیصلے دینے شروع کیے اور کامن لاء پر استوار“ پارلیمانی عدالتوں کو نظر انداز کر دیا۔ جس سے لوگ بادشاہ کو جابر کہنے لگے۔

3) ، تیسرا اور سب سے اہم مسئلہ پیسوں کا تھا۔ جیمز کو الزبتھ کے دور میں لیا گیا قرض ورثے میں ملا تھا۔ اس کے علاوہ وہ پرشکوہ دربار اور جنگ کے لیے پیسہ چاہتا تھا۔ پارلیمنٹ سے انکار پر جیمز نے کو دوسرے طریقوں سے پیسہ حاصل کرنے کی کوشش شروع کی۔

پارلیمنٹ کا بادشاہ کو تخت سے اتارنا۔

1625 میں جیمز کے بعد اس کے بیٹے ”چارلس اول کا بادشاہ بننے سے حالات مزید خراب ہو گئے۔ 1628 جب اس نے پارلیمنٹ کے ذریعے پیسہ لینے کی کوشش کی تو پارلیمنٹ نے بادشاہ کے اختیارات کو مزید کم کرنے کے لیے اقدامات کیے ۔ بادشاہ کو حقوق کی دستاویز ( Petition of Rights ) منظور کرنے کی شرط رکھی گئی۔ یہ دستاویز آئینی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس میں کیے گئے مطالبات کچھ یوں تھے 1 ) پارلیمنٹ کی اجازت کے بغیر ٹیکسوں کا خاتمہ 2 ) شہریوں کی غیر قانونی قید پر پابندی 3 ) شہریوں کے گھروں میں فوجیوں کے قیام پر قدغن اور 4 ) دور امن میں فوجی حکومتوں کی ممانعت۔

بادشاہ ( چارلس ) فنڈ کے حصول کے لیے دستاویز پر دستخط کرنے پر راضی تو ہوا مگر بعد میں اپنے وعدوں سے پھیر گیا۔ 1629 میں اس نے پارلیمنٹ کو برخاست کر کے اس کا اجلاس بلانے سے انکار کر دیا تاہم 1640 میں جب اسکاٹ نے انگلینڈ پر حملہ کر دیا تو چارلس پارلیمنٹ کا اجلاس بلانے پر مجبور ہوا۔

اس موقع پر پارلیمنٹ نے اپنی خودمختاری جتانے کے لیے فنڈ پر بحث کرنے کے لیے یہ شرط رکھی کہ بادشاہ پہلے پارلیمنٹ کے حوالے سے اپنی غلطی تسلیم کرے۔ بادشاہ اس کے لیے راضی نہ ہوا اور اختلافات اتنے بڑھ گئے کہ شاہ پرستوں اور شاہ مخالفوں کے درمیان کئی سال ( 1642 ت 1647 ) تک خانہ جنگی ہوتی رہی جس میں بالآخر پیورٹن رہنما ”اولیور کرومویل“ ( Oliver Cromwell) کی قیادت میں شاہ مخالف جماعت کامیاب ہو کر حکومت پر قابض ہو گئی۔ چارلس کو عوام دشمن قرار دے کر 1649 میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

آئینی بادشاہت کا قیام۔ ۔ کرومویل نے جمہوریہ ( جس کو انگلینڈ کی دولت مشترکہ کہا گیا ) قائم کیا۔ اس نے کئی سال اپنی حکمرانی کے خلاف بغاوتوں کو فرو کرنے میں صرف کیے ۔ ان کے مخالفین میں بادشاہت کے حامی اور انتہا پسند ”پیورٹن“ شامل تھے۔ جبکہ پارلیمنٹ کا اس کے ساتھ تناؤ اس کے مذہبی، سماجی اور معاشی اصطلاحات میں تعاون نہ کرنے کے مسئلہ پر پیدا ہوا۔ 1633 میں کرومویل نے پارلیمنٹ کو تحلیل کر کے ”پروٹیکٹوریٹ ( Protectorate )“ کہلائی جانی والی حکومت قائم کردی خود کو ”چیف پروٹیکٹر“ قرار دیا جو ایک قسم کا فوجی آمر تھا۔ اس کی حکومت بتدریج آمرانہ ہونے سے بے حد غیر مقبول ہو گئی۔ 1658 میں کرومویل کی وفات ہو گئی۔

بادشاہت کی بحالی۔ کرومویل کے بعد اس کا بیٹا ”رچرڈ“ کمزور جانشین ثابت ہوا اور جلد 1659 میں مستعفی ہو گیا۔

1660 میں نئی پارلیمنٹ نے بادشاہت کو بحال کر دیا اور چارلس اول کے بیٹے ”چارلس سٹورٹ“ کو تخت پر بٹھایا۔ اس لیے اس دور کو بادشاہت کی بحالی ( Restoration ) کہا جاتا ہے تاہم پارلیمنٹ نے گزشتہ دہائیوں کے دوران اپنی جدوجہد سے حاصل کردہ اپنے اختیارات، جیسے ”پارلیمنٹ کے بغیر بادشاہ ٹیکس نہیں لگا سکتا“ وغیرہ نہ صرف برقرار رکھے۔ بلکہ بادشاہ کے اختیارات مزید کم کرنے اور اپنے حقوق بڑھانے کی کوشش جاری رکھی۔ 1679 میں پارلیمنٹ نے Habeas Corpus ترمیمی ایکٹ پاس کیا جس کے مطابق کسی کو گرفتار کرنے پر پولیس نے اس کو عدالت میں پیش کرنا ہو گا۔ فرد کو اپنے جرم یا الزام کے بارے آگاہ کرنا ہو گا اور اس کے بارے فیصلہ عدالت نے کرنا ہو گا۔

شاندار انقلاب چارلس دوم کے بعد 1685 میں ”جیمز دوم“ بادشاہ بنا۔ جو عقیدہ رومن کیتھولک تھا۔ اور الہی حق بادشاہت پر یقین رکھتا تھا۔ پروٹسٹنٹ کو خدشہ تھا کہ وہ ”کیھتولک ازم“ کو سرکاری مذہب بنانا چاہتا ہے۔ جو اکثریت کو منظور نہ تھا۔ اس خدشے کے پیش نظر پارلیمنٹ نے بادشاہ کی حمایت سے دستبردار ہو کر تخت پر اس کی پروٹسٹنٹ بیٹی ”میری“ ( Mary ) اور اس کے شوہر ”ولیم آف اورنج“ کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا۔

ولیم کا انگلینڈ پر حملہ کرنے سے جیمز دوم ”1689 میں فرانس بھاگ نکلا یوں ولیم اور میری“ انگلستان کے مشترکہ حکمران قرار دیے گئے۔ اس تبدیلی کو ”شاندار انقلاب کا نام دیا گیا۔ یہ انگلستان کی آئینی تاریخ میں ایک اہم موڑ تھا۔ پارلیمنٹ نے انگریز بادشاہ کے اختیار کو محدود کرنے اور تخت کی جانشینی پر تسلط کرنے کا اپنا حق قائم کر لیا۔ اس کے بعد سے انگلستان ایک“ آئینی بادشاہت ”بن گیا جس میں حکمران کے اختیارات ملک کے آئین اور قانون کے تابع ہوتے ہیں۔

حقوق کا بل ( Petition of Rights ) اسی سال 1689 میں ولیم اور میری ”نے پارلیمنٹ کی طرف سے لوگوں کے انفرادی حقوق اور آزادیوں سے متعلق بل منظور کر دیا۔ جس سے بادشاہ کے اختیارات کم اور پارلیمنٹ میں آزادی رائے کو تخفظ ملا۔ اس کے علاوہ بل نے بادشاہ کو“ قانون کی معطلی ”“ پارلیمنٹ کی اجازت کے بغیر ٹیکس لگانے ”یا“ حالت امن میں فوج کو متحرک کرنے ”پر قدغن لگا دی۔ عوام کو حکومتی اقدامات کے خلاف اپیل کا حق دیا گیا نیز ظالمانہ اور غیر معمولی سزاؤں کی ممانعت کی گئی۔

انگلستان پر اثرات

شاندار انقلاب اور حقوق کے بل نے ”قانون کی حکمرانی“ ، ”پارلیمانی طرز حکومت“ ، ”فرد کی آزادی“ اور ”آئینی بادشاہت“ کی ضمانت دی۔ اس سے 1215 میں ”میگنا کارٹا“ سے شروع ہونے والے جمہوری سفر اپنی تکمیل کی راہ پر رواں دواں ہو گیا

( اگلی صدیوں بالخصوص 19 ویں صدی میں 1832 کے ”ریفارم بل“ اور وکٹوریہ دور کے اصلاحات سے رائے دہندگان کا دائرہ وسیع ہوتا گیا۔ اور سیاسی طاقت کا مرکز مکمل طور ایوان زیریں ( ہاؤس آف کامنز) کی طرف منتقل ہوجاتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد خواتین کو ووٹ کا حق دینے سے انگلستان کی جمہوریت کی مزید ترقی ہو جاتی ہے )

انگلستان کی یہی قانونی آئینی اور سیاسی پیشرفتیں نشاۃ الثانیہ کے تصورات کے ساتھ مل کر 18 ویں صدی میں امریکہ اور فرانس کے جمہوری انقلابات کے محرک بنیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments