کینیڈا کے قدیم باشندے اور قدامت پسندی کا مرض


کینیڈا کے شہر کیلگری میں آج کل کہنے کو تو موسم گرما ہے۔ مگر پاکستان کے اعتبار سے موسم بہار ہی ہے کیونکہ درجہ حرارت شاذ ہی 20۔ 25 ڈگری سے اوپر جاتا ہے۔ ایسے موسم کا ایک خوبصورت دن کیلگری کی پبلک لائبریری میں گزارنے کے لیے آج صبح جب میں لوکل ٹرین میں داخل ہوا تووہ کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ جس کمپارٹمنٹ میں میں داخل ہوا اس میں میرے ساتھ ایک سفید فام دوشیزہ بھی داخل ہوئی۔ اس نے مجھے کھڑا دیکھ کر میرے لیے جگہ بنائی مگر اس دوران ایک عجیب مشکل سے دوچار ہو گئی۔

دروازے کے ساتھ کھڑا ایک بھوری رنگت کا بھاری بھرکم، منحنی اور پریشان سی داڑھی والا شخص اس سے مخاطب ہو کر کہنے لگا : ”تم بہت بدتمیز ہو۔ “ ۔ ”دوشیزہ نے حیران ہو کر پوچھا : کیوں؟ کیا ہوا؟ وہ شخص جو ناراض سا تھا مزید غصے میں آ گیا اور لڑکھڑاتی زبان میں کہنے لگا:“ یہ زمین ہماری ہے۔ تم ظالم ہو۔ تم ہم پر مسلط ہو۔ ہمارے باپ دادا بہت بہادر تھے۔ مگر تم نے چالاکی سے ان کو مات دی اور ہماری زمین پر مسلط ہو گئے۔

”میں سارا معاملہ سمجھ گیا، لڑکی کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور دونوں کے درمیان کھڑا ہو گیا۔ اب وہ شخص کسی کو سامنے نہ پا کر ایک اور گوری خاتون سے مخاطب ہو گیا اور کہنے لگا :“ یہ زمین ہماری ہے۔ تم ظالم ہو۔ تم ہم پر مسلط ہو۔ تم نے ہمارے لاکھوں بچے اور جوان مار دیے تھے۔ ”اس شخص کے ہاتھ میں بیئر کا ایک ڈبہ تھا جس کی چسکی وہ ٹھہر ٹھہر کر لے رہا تھا۔ سامنے وہیل چیئر پر اس کی نہایت فربہ بیوی بیٹھی تھی۔ جس کا جثہ وہیل چیئر بہت مشکل سے سمایا ہوا تھا۔

وہ بھی بیئر پی رہی تھی۔ داڑھی والا لڑکھڑاتی زبان میں لگا تار مغلظات بکے جا رہا تھا۔ اتنے میں ہم لائبریری سے ملحق سٹیشن پر پہنچ گئے۔ ٹرین سے اترتے ہوئے لڑکی نے میرا شکریہ ادا کیا تو از راہ تجسس میں نے اس پوچھ لیا کہ کیا وہ یہاں کے قدیم باشندوں سے واقف ہے۔ تو اس نے جواب دیا کہ یہ اس کا پی ایچ ڈی کا تھیسز ہے۔ اور اسی سلسلے میں لائبریری جاتی ہے۔ اگر میرے پاس وقت ہو تو وہ مجھے ان باشندوں کی کہانی سنا دے گی۔ اس طرح اس کے تھیسز کے ڈیفنس کی ریہرسل بھی ہو جائے گی۔ چونکہ میں بھی لائبریری ہی جا رہا تھا اور میرے پاس وقت بھی تھا۔ اس لیے میں نے اس کو لائبریری کے کیفے ٹیریا میں کافی کی دعوت دے ڈالی۔ اینا نے میری دعوت قبول کر لی۔ میرے سامنے براجمان ہو کر کافی کا مزہ لیتے ہوئے اینا یوں مخاطب ہوئی:

اینا : عجیب اتفاق ہے کہ ایک معمولی واقعے نے ہمیں آپس میں بات کرنے کا موقع فراہم کیا۔ یہ میرا بھی پسندیدہ موضوع ہے۔ مگر اس پر بات کرنے سے پہلے میں آپ کو کینیڈا کی تاریخ کے بارے میں کچھ بتانا چاہتی ہوں۔

نعیم اشرف : بصد شوق۔

اینا : کینیڈا کی معلوم تاریخ 10000 برس قبل مسیح تک جاتی ہے۔ جب زمانہ قبل از تاریخ میں کچھ لوگ روس کے علاقے سائبیریا سے آبنائے ”برنگ لینڈ“ عبور کر کے الاسکا جیسے برف زاروں میں داخل ہوئے اور پھر شمالی امریکہ میں اترے۔ الاسکا میں ”برنگ لینڈ“ پل کے آثار قدیمہ، قومی ورثے کے طور پر آج بھی موجود ہیں۔ ایک روایت کے مطابق اس وقت یہاں ایک پتھر کا پل موجود تھا۔ اولین کینیڈا آنے والے یہ لوگ ”انڈیجنس“ کہلاتے ہیں۔ اور موجودہ کینیڈا کے اصلی باشندے ہیں۔ عمومی طور پر ان لوگوں کے قد لمبے، رنگ بھورے، آنکھیں موٹی اور منگولوں جیسی، جسمانی ڈھا نچے، کھوپڑی اور جبڑے کی ہڈیاں عام لوگوں سے بڑی ہیں۔

ان کی آمد کے بعد قریب 9000 برس قبل مسیح میں یورپ سے کچھ بحری قزاق اور مچھیرے اس علاقے میں آئے۔ یہ پہلے یورپی تھے جو کینیڈا آئے۔ ان لوگوں نے نیو فاؤنڈ لینڈ کے جزیرے پر اولین بستیاں بسائیں۔ یہ لوگ یہاں کی مچھلی یورپ لے کر جاتے تھے۔ جو مہنگے داموں فروخت ہوتی تھی۔ انگلستان، سپین اور پرتگال کی دیکھا دیکھی فرانس کے مچھیرے بھی نیو فاؤنڈ لینڈ جا پہنچے۔ 1400 برس قبل مسیح میں انڈیجنس لوگوں نے شمالی امریکہ میں باقاعدہ تہذیب کا اعلان کیا۔

1497 ء میں اطالوی سیاح جان کیبو نے نیو فاؤنڈ لینڈ کو برطانیہ کا علاقہ قرار دیا۔ اس کی دیکھا دیکھی 1534 ء میں فرانس بھی کینیڈا پر چڑھ دوڑا مگر کوئی بستی بسانے میں ناکام رہا۔ مگر 1604 ء میں مزید فوجی طاقت کے استعمال سے کامیاب ہو گیا۔ اس کے متبادل 1617 ء تک کینیڈا میں برطانوی نو آبادیات شروع ہو چکی تھیں۔ اب برطانیہ اور فرانس کے درمیان ٹھن گئی۔ دونوں ممالک کینیڈا کی سر زمین پر اپنی اپنی فوجی طاقت مضبوط کرنے میں مصروف ہو گئے۔

حتیٰ کہ ان کے درمیان سات سالہ جنگ شروع ہو گئی جو فرانس کی شکست اور ”کیبوک ایکٹ“ پر منتج ہوئی۔ جس کے نتیجے میں کینیڈا باقاعدہ طور پر برطانیہ کی کالونی قرار پایا۔ اس کے بعد مختلف علاقے کینیڈا کا حصہ بنتے گئے۔ موجودہ کینیڈا، 10 صوبوں اور 3 علاقوں پر مشتمل ہے۔ تین کروڑ اسی لاکھ آبادی پر مشتمل کینیڈا ایک ترقی یافتہ ملک ہے۔

اب ہم قدیم باشندوں کی بات کرتے ہیں۔ انڈجنس (مقامی ) باشندے صرف کینیڈا ہی میں موجود نہیں بلکہ ایک اندازے کے مطابق دنیا کے 70 ممالک میں 360 ملین قدیم باشندے موجود ہیں۔ جہاں وہ اپنی قدیم سماجی، معاشی، معاشرتی اور سیاسی روایات کے تحت زندگی بسر کرتے ہیں جو وہاں کی قوموں سے بالکل میل نہیں کھاتیں، جہاں وہ رہتے ہیں۔ دنیا میں یہ بحر آرکٹک سے لے کر بحر الکاہل کے ساحلوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے آباء اجداد ان سرزمینوں پر موجود تھے جہاں پر باہر سے مختلف نسلوں اور تہذیبوں کی حامل قومیں آ کر آباد ہوئیں۔

بعد میں انھوں نے جنگ کر کے ان علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ مقامی باشندے تعلیم حاصل کرنا، نئی روشنی حاصل کرنے اور جدید طرز زندگی اپنانے اور خوشحال ہونے کو گناہ سمجھتے تھے۔ حتیٰ کہ وہ جدید ذرائع جنگ اور ہتھیار بھی نہیں اپنانا چاہتے تھے۔ اس لیے اپنی حفاظت کی جنگیں بھی ہارتے گئے۔ مذہبی لحاظ سے ان کے اپنے عقیدے جن میں دیوتاؤں کو خاصی اہمیت حاصل ہے۔ البتہ یورپی اقوام کی آمد کی وجہ سے عیسائیت بھی ان میں کسی قدر در آئی ہے۔ ’کینیڈا کے انڈی جینس‘ باشندے تین قسم کی نسلوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایب اوریجنل، اینوٹ اور میٹیس۔ ان کی اس وقت کینیڈا میں تعداد 16 لاکھ ہے۔

کئی سو سال پہلے کینیڈا کی موجودہ سرزمین پر آغاز میں یورپی حملہ آوروں نے مقامی قوموں کو فوجی طاقت کے ذریعے شمالی پہاڑوں میں دھکیل دیا تاکہ وہ لوگ کالونی بنانے میں آڑے نہ آئیں۔ مگر رفتہ رفتہ ان کو اپنا غلام بنا کر بستیاں اور سڑکیں بنانے پر لگا دیا۔ غلامی کا یہ طوق ان لوگوں کے گلے سے 1834 ء میں اترا۔

موجودہ کینیڈا میں ان لوگوں کو برابر انسانی حقوق اور مراعات حاصل ہیں۔ بلکہ کینیڈا کی حکومت نے ان لوگوں کے لیے خاص پیکج کا اعلان کر رکھا ہے۔ جس میں ایک معقول وظیفہ، مفت تعلیم، انشورنس پالیسی، طبی سہولیات کی مفت فراہمی، بچوں کے لیے وظیفہ اور ٹیکس میں چھوٹ جیسی مراعات شامل ہیں۔ کینیڈا کے آئین کے تحت بھی انڈیجینس باشندوں کے حقوق کو تحفظ دیا گیا ہے۔

نعیم اشرف: پھر تو ان کو حکومت کا شکر گزار ہونا چاہیے۔

اینا : شکرگزار ہونے کی بجائے یہ لوگ شکوے شکایت میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ لوگ محنت نہیں کرنا چاہتے اور اپنے آپ کو بدلنا نہیں چاہتے۔ اور جو خود بدلنا نہ چاہے اس کو خدا بھی نہیں بدل سکتا۔ قدامت پسندی کی انتہا ہے کہ یہ لوگ اپنے بچوں کو اسکولوں میں نہیں بھیجنا چاہتے۔ بلکہ اپنی قدیم روایات کے مطابق خود پڑھانا چاہتے ہیں۔ ، اپنے ماضی کی روایات سے چپک کر رہنا چاہتے ہیں۔ اور غیر لچک دار سوچ کی وجہ سے علم حاصل کر کے قومی دھارے میں شامل نہیں ہونا چاہتے اور یہ لوگ قومی دھارے میں شامل نہ ہو کر پیچھے جا رہے ہیں۔ بلکہ مختلف قسم کے نشے میں مبتلا ہو کر اپنی نسل کا خاتمہ کر رہے ہیں۔

اینا نے یہ کہانی سنا کر مجھ سے اجازت لی اور ریسرچ روم میں چلی گئی۔ مگر میں سوچتا رہ گیا کہ افراد ہوں، معاشرے، ممالک ہوں یا اقوام جب ان کے پاس مستقبل کا کوئی ایجنڈا نہ ہو تو وہ اپنے ماضی کے ساتھ وابستہ رہ کر اپنے آباء و اجداد کی عجیب و غریب داستانیں سناتے رہتے ہیں یا ماضی کا رونا روتے رہتے ہیں۔ اور اس طرح شعوری جمود کا شکار رہتے ہیں۔ شعوری جمود کا شکار ہو کر خوشحالی کا خواب ایک دیوانے کا خواب ہے۔ قدامت پسندی، تن آسانی اور جہالت وہ رویے ہیں جن کی حامل قومیں رفتہ رفتہ صفحہ ہستی سے مٹ کر نشان عبرت بن جاتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments