بدعنوانی کا عفریت


کہا جانے لگا ہے کہ بدعنوانی ایک باقاعدہ متوازی معیشت کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ البتہ یہ متوازی معیشت ملک کی عمومی معیشت کی ترقی کو آگے بڑھنے سے روکتی ہے۔ کرنسی کو جامد کرتی ہے۔ ملک سے سرمائے کی منتقلی کو فروغ دیتی ہے۔ ہوس زر کے لیے مہمیز ثابت ہوتی ہے۔ بہت کم لوگوں کو امیر یا امیر سے امیر تر بناتی ہے لیکن عام لوگوں کی جیبیں خالی کرتی چلی جاتی ہے۔

بدعنوانی کوئی نیا مظہر نہیں ہے تاہم دولت جب کرنسی کی شکل میں ڈھلی تو یہ مظہر بیشتر ہو گیا پھر عام اور عام سے عام تر۔ دنیا کے وہ سارے ملک بھی جو گرچہ تعداد میں کم ہیں لیکن مہذب و متمدن کہلاتے ہیں ماضی میں اس وبا کا شکار ہوئے بنا نہیں رہ سکے تھے۔ آج بھی ایسے ملکوں میں بہت اونچی سطح پر بہت بڑی بدعنوانی کے معاملات کچھ کم نہیں لیکن نظام سرمایہ داری نے اس نوع کی ہائی ٹیک بدعنوانی کو ڈھانپنے کی غرض سے بہت سے طرائق وضع کیے ہوئے ہیں۔

ان طریقوں پر عمل درآمد کی خاطر ماہرین اور بینکاروں کی فوج ہمہ وقت مصروف عمل رہتی ہے۔ ساتھ ہی ان ملکوں میں لوگوں کو خوشحال ہونے کا چکمہ دیا گیا ہے۔ وہاں لوگ گھر، گاڑی، صحت، تعلیم سب سہولتیں بہت معمولی اقساط پر مبنی قرض پر خرید سکتے ہیں اور عمر بھر یہ قرض ادا کرنے کی خاطر کولہو کے بیل کی طرح کام کرتے رہتے ہیں۔ بس اتنی بچت ہوتی ہے کہ سال میں کہیں تفریح کرنے چلے جائیں اور اچھا کھا پی لیں۔ ایک سروے کے مطابق امریکہ میں ستر فیصد سے زائد ایسے لوگ ہیں جنہیں اگر فوری طور پر پانچ سو ڈالر درکار ہوں تو ان کے پاس نہیں ہوتے۔ بینکاروں نے ان کو اس جھنجھٹ سے نجات دلانے کا گمان دینے کی خاطر ایک طریقہ وضع کیا ہوا ہے یعنی کریڈٹ کارڈ۔

اس کے برعکس وہ ملک جہاں نہ جمہوریت پنپ سکی نہ ہی قانون کی عملداری راسخ ہو سکی وہاں ہر سطح پر ہر طرح کی بدعنوانی ایک عموم کی شکل اختیار کیے ہوئے ہے۔ پھلوں کو رنگنے اور میٹھا بنائے جانے کی خاطر انجکشن لگانے سے لے کر، اغذیہ میں ملاوٹ، نقلی اور جعلی ادویات بیچنے تک۔ نیچے سے اوپر تک رشوت ستانی کی شکل میں بدعنوانی کھلے عام ہوتی ہے۔ اعلٰی سرکاری افسران کو رشوت پہنچائے جانے کا کام نیچے سے شروع ہو کر درمیانے درجے کے اہلکاروں کی ذمہ داری ہے۔

پھر اوپر کی سطوح پر بینکوں سے ایسے قرض جو یا تو ادا ہی نہ کیے جائیں یا چند اقساط کی ادائیگی کے بعد معاف کرا لیے جائیں۔ مالیاتی بدعنوانی کرنے کی خاطر کک بیکس، کمیشن اور نجانے کیا کیا اصطلاحات وضع کی جا چکی ہیں۔ رشوت کو ایسے ایسے بے ضرر نام دیے گئے ہیں کہ اعمال لکھنے والے فرشتے بھی چکرا جائیں، لکھیں تو کیا لکھیں۔

تو کیا بدعنوانی اور خاص طور پر مالیاتی بدعنوانی، ویسے تو ہر طرح کی بدعنوانی کی تان دولت جمع کرنے پر ہی جا کے ٹوٹتی ہے، اپنے طور پر ایک بے وجہ نتیجہ ہے یا اس کی کچھ وجوہ بھی ہیں؟ کیا بدعنوانی کو یکسر ختم کیا جا سکتا ہے؟ کیا بدعنوانی نہ کرنے والے مقتدر ہو کر بدعنوان ہو جانے سے باز رہ سکتے ہیں؟ کیا تمام مسائل کا منبع بدعنوانی ہے یا بدعنوانی کا اپنا بھی کوئی منبع ہے؟ ایسے اور ایسے بہت سارے دیگر سوالات ہیں جو ان افراد کو پریشان کرتے ہیں جن کا بدعنوانی کرنے پر یا تو ہاتھ نہیں پڑتا یا جن کے ہاتھ اس بدعنوانی کا کم یا بہت کم حصہ آتا ہے۔ جو بدعنوان نہیں وہ یا فرشتے ہیں یا پھر قانع انسان۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہ لیا جائے کہ بدعنوانی معاشرے کا جزو لاینفک ہے جسے اپنا لینا چاہیے۔ مگر ٹھہریے دیکھتے ہیں۔

ہم ایک ڈاکٹر، ایک وکیل اور ایک تاجر کی مثال لیتے ہیں اور آنکتے ہیں آیا اوپر کیے گئے ہمارے سوالات درست ہیں یا ہم بڑ ہانک رہے ہیں۔ پہلے ہم ایک امیر ڈاکٹر کی مثال لیتے ہیں۔ ڈاکٹر ایک بڑے کلینک میں بیٹھتا ہے اور کلینک کے مالک کو اپنی آمدنی کا کچھ حصہ دیتا ہے۔ ڈاکٹر کے پاس اگر مریض کم آئیں گے تو وہ مالک کو کم حصہ دے سکے گا چنانچہ ہسپتال یا بڑے کلینک کا مالک اسے دفتر خالی کرنے کو کہے گا۔ ڈاکٹر اپنی ”گاہکی“ بڑھانے کے لیے تمام وہ حربے اختیار کرے گا جو وہ بخوبی جانتا ہے کہ اسے اختیار نہیں کرنے چاہئیں۔

مثال کے طور پر جس جگہ وہ سرکاری تنخواہ پر کام کرتا ہے وہاں کے مریضوں پر کم سے کم توجہ دے گا۔ ایسے لوگ اس کے حواری ہوں گے جو مریضوں کو یہ مشورہ دیں کہ ڈاکٹر صاحب کو پرائیویٹ جا کر دکھاؤ۔ ہسپتالوں اور میڈیکل سٹوروں پر بھی ایسے ٹاؤٹ چھوڑے ہوں گے جو لوگوں کو اس سے رجوع کرنے کی ترغیب دیں گے۔ یوں اس کے گاہک زیادہ ہوں گے تو جس عمارت میں وہ کام کرتا ہے اس کے مالک کو زیادہ آمدنی ہوگی۔ اگر ڈاکٹر ایسا ہے جس کے کام میں جراحی بھی شامل ہے جیسے کان ناک گلے کا، ماہر چشم، امراض نسواں وغیرہ تو وہ مریضوں کے ضروری اور غیر ضروری آپریشن کے لیے اسی پرائیویٹ ہسپتال کو چنے گا۔

کیونکہ یہاں وہ فیس زیادہ لے سکے گا پھر ہسپتال کا مالک اپنا حصہ ملنے پر اس کا نام اپنی تشہیری مہم میں نمایاں طور پر دے گا۔ چھوٹے ڈاکٹروں سے لے کر بڑے ڈاکٹروں تک کے مریضوں معاف کیجیے گاہکوں سے پیسے بنانے کے اپنے اپنے طریقے ہیں جن میں مریضوں کو بار بار بلا کر فیس لینے، جراحی پر رضامند کرنے، مہنگی ادویات اور ڈرپس استعمال کرنے پر قائل کرنے کے اعمال شامل ہیں۔ جو ان سب سے مبرا ہے وہ اپنے پچاس ہزار ماہانہ پر قانع ہے یا پریشان۔

وکیل، کہنے کو تو وکیل مارے مارے پھرتے ہیں لیکن ان میں سے بیشتر درخواست کے ساتھ پہیے لگانے میں ماہر ہوتے ہیں۔ ہم مثال بڑے وکیل کی ہی لیں گے۔ جھوٹ کو سچ ثابت کرنا بڑی وکالت ہے اور سچ کو سچ منوانا چھوٹی۔ وکیل صاحب کی بعض اوقات عدلیہ سے بھی سانٹھ گانٹھ ہوتی ہے۔ ایسے نامی وکیل ہیں جو خم ٹھونک کر کہتے ہیں کہ قتل کر آؤ ہم بری کروا لیں گے۔ ٹیکس بچانے، کسٹم سے چھڑوانے والے وکیل ہیں جو آپ کی نیم قانونی اور غیر قانونی طریقوں سے کمائی گئی دولت کو قانونی ثابت کر دیں گے۔ کہنے کو تو یہ وکلاء بالکل بدعنوان نہیں لیکن بدعنوانی کرنے والوں کی دولت حکومت کے جبڑوں سے چھڑا کر دینے کا معاوضہ ٹھیک ٹھاک لیتے ہیں۔

تاجر بھلا کیسے بدعنوانی کر سکتا ہے، یہی کہیں گے ناں آپ۔ ناقص مال کو معیاری کہہ کر بیچنا۔ بہت کم قیمت پر خریدے گئے مال کو بہت مہنگا بیچنا، اپنے ملازمین کو بہت کم مشاہرہ دینا اور مقررہ وقت سے زیادہ دیر تک ان سے کام لینا۔ ٹیکس بچانا۔ ذرا بڑے تاجروں تک چلے جائیں۔ ایکسپورٹ میں انڈر انوائسنگ کرنا اور امپورٹ میں اوور انوائسنگ کرنا۔ بہت ناقص مال بھیج کر معیاری مال کا ری بیٹ لینا۔ غرض ایسے ایسے طریقے ہیں کہ ہینگ پھٹکڑی لگے سو لگے لیکن رنگ چوکھے سے چوکھا آتا ہے۔

کسٹم، انکم ٹیکس، آڈٹ کے محکموں کے افسروں اور اہلکاروں کی جیبیں تو بھرتی ہیں لیکن اصل فائدہ تاجر کو ہی ہوتا ہے۔ میں ایک دفعہ ایک کاروباری شخص کے پاس بیٹھا تھا۔ کسٹم کے ایک افسر کا بیٹا آیا اس نے تاجر سے کہا، ”انکل لندن کا ون وے ٹکٹ چاہیے“ تاجر نے اہلکار کو کہا کہ اسے آنے جانے کا ٹکٹ لا دے۔ میرے حیران ہونے پر وہ مسکرایا اور ذرا آگے ہو کر کہا۔ فکر نہ کرو میں دس ٹکٹوں کے پیسے بنوا لوں گا۔

ان چند بھدی مثالوں سے ایک بات یہ ثابت ہوئی ہے کہ بدعنوانی کا منبع لالچ اپنی جگہ لیکن اس نظام میں مضمر ہے جو سب کو بدعنوانی کرنے کی جانب مائل کرتا ہے اور بدعنوانی کرنے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔

کیا معاشرے کی مجموعی ہیئت تبدیل کیے بنا بدعنوانی کا خاتمہ کیا جانا ممکن ہے؟ اس سوال کا جواب منفی میں ہے۔ وہ لوگ جو بدعنوانی ختم کرنے کے دعاوی کرتے ہیں اگر وہ اسی نظام کے ہوتے ہوئے برسراقتدار آ جائیں تو زود یا بدیر اسی نظام کا حصہ بن کر ارادی یا غیر ارادی طور پر بدعنوانی میں ملوث ہو جائیں گے۔

بدعنوانی کو یکسر ختم نہیں کیا جا سکتا کیونکہ لالچ انسان کی سرشت میں شامل ہے۔ ان معاشروں میں جہاں بدعنوانی کرنے پر موت کی سزا دی جاتی ہے وہاں بھی بدعنوانی کرنے والے بہرطور موجود ہوتے ہیں۔ اس طرح کمائی گئی دولت کو اگر وہ کہیں لے جا نہیں سکتے تو بوریوں میں بھر کے گھر میں رکھتے ہیں، چین میں ایسی کئی مثالیں سامنے آ چکی ہیں۔ بدعنوان افراد میں تاحتٰی مقتدر کمیونسٹ پارٹی کے اعلٰی عہدوں پر متعین لوگ بھی شامل تھے۔

قوانین کو مستحکم کر کے اور لوگوں کی آمدنیوں میں اضافہ کر کے بدعنوانی کو کم ضرور کیا جا سکتا ہے۔ اشیاء کی قیمتوں پر حکومتی کنٹرول ہو۔ منافع کی شرح مقرر ہونی چاہیے۔ معیار کی سختی سے جانچ پڑتال ہو۔ ایسے تمام سرکاری چیکرز کے ساتھ زندگی کے مختلف شعبوں سے لیے گئے لوگ شامل کیے جانے چاہئیں جو ایک دوسرے کے اعمال کو بھانپتے رہیں۔ شفافیت کو رواج دیا جائے۔ حکومتی اعمال کی تکمیل کی خاطر ون ونڈو آپریشن ہونے چاہئیں۔ سب کچھ سب کے سامنے ہو۔ یوں بدعنوانی کرنے کی ہمت کرنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ میں جس ملک میں رہتا رہا ہوں یعنی روس میں وہاں عام سرکاری کاموں کے لیے کسی کو شاید ہی بدعنوانی سے واسطہ پڑتا ہو البتہ ان کاموں کے لیے جن میں قانونی سقوم ہوں بدعنوانی کرنے اور کرانے والے راستے نکال ہی لیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments