فحاشی اور اس کا سدباب


سلطان صلاح الدین ایوبی کے زمانے میں، جب صلیب کے پیروکاروں نے فوج اور نوجوان نسل میں فحاشی پھیلانے کے لئے نوجوان اور خوبصورت لڑکیوں کا سہارا لینا شروع کیا تو سلطان نے اپنے جاسوس کو فعال کرنے کے ساتھ ساتھ رات کو خود بھی بھیس بدل کر گشت کرنا شروع کر دیا اور چند دنوں کی سخت محنت کے بعد صلیبی جاسوسوں کو پکڑ کر اس کے دربار میں پیش کی گیا تو سلطان نے دربار میں موجود اپنے افسران سے خطاب کرتے ہوئے کہا ”ہر قوم کی طاقت اس کا اچھا یا برا کردار ہوا کرتا ہے، دشمن ہماری اصل طاقت کا اندازہ لگا چکا ہے۔

اب وہ سامنے کی جنگ کبھی نہیں کرے گا۔ اسی لیے دشمن اب ہمارے قومی کردار پر حملہ آور ہوا ہے، کیونکہ ضروری نہیں جنگ میدانوں میں ہو۔ جنگ سوچ اور رویوں کی بھی ہوتی ہے۔ جو قوم اس پر غالب آجاتی ہے وہ فتح یاب ہوتی ہے!“ ، تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کہ صلیبی جنگوں کے بعد یہود و نصاریٰ نے ہمیں ذہنی طور پر مفلوج کرنے کے لئے دن رات ایک کر دیا۔ 1839 ء میں کیمرے کی ایجاد کے ساتھ ہی انہوں نے ہمارے قوم کے دماغ کو مفلوج کرنے اور اپنے نصب العین سے ہٹانے کے لئے پلے کارڈز اور جنسی خاکوں کا سہارا لینے کے ساتھ ساتھ 1895 ء میں پورن انڈسٹری کی بنیاد رکھ دی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسانی غیر مستقل مزاج فطرت کو بے راہ روی اور شیطانیت پہ اکسانے کا یہ کاروبار عروج پکڑ نے لگا۔ پورن کی مختلف کیٹیگریز کے متعارف کروانے اور سیلیکون سیکس ڈالز کی انڈسٹری کو ترویج دینے کے بعد ، یہودیوں نے گھروں میں گھسنے کا پلان یوں بنایا ہے کہ مختلف ایپلیکیشنز کی مدد سے پوری دنیا ور خاص طور پر مسلم امہ نوجوان طبقے اور اقبال کے شاہینوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔

انٹر نیٹ پہ پاکستانی قوم کے خلاف یہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ ہمارے لوگ سب سے زیادہ پورن سائٹس دیکھتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے، غیر جانبدار سروے کمپنیوں کے مطابق جدید یورپی ممالک اور بھارت کے افراد ہم سے بہت آگے ہیں، مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں صرف پورن سرچ میں سب سے پہلے نمبر پر رکھا گیا ہے۔ یہ اعداد و شمار چاہے جھوٹے ہو یا سچے، لیکن ہم سب اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ سوشل میڈیا کے ذریعے ہماری قوم کے معصوم اور کچے اذہان کو نسوانی جسم کی نمائش کر کے ورغلایا جا رہا ہے تاکہ وہ مستقبل قریب میں اپنی قوم کے لئے مفید شہری بننے کی بجائے ایک بوجھ بن کر رہ جائیں۔

ہمارے معاشرے کے کچھ خود غرض اور انفرادی سوچ کے حامل افراد پیسے کے حصول کے لئے جسم کی نمائش کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ آپ سماجی رابطے کا کوئی بھی پیغام رساں کھولیں یا لائیو ویڈیو سٹریمنگ کی کوئی اپلیکیشن کھول لیں، آپ کو ہر جگہ مرد و خواتین کے ساتھ ساتھ نابالغ بچے اور لواطت پسند ہیجڑے اپنی دکانداری چمکاتے نظر آئیں گے

حال ہی میں پی ٹی سی ایل کے کرتا دھرتا افسران نے اعلان کیا کہ ملک میں فحاشی کے خاتمے کے لئے جدید ڈی این ایس سروس مہیا کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ خبر سن کر ذہن و دل میں اطمینان کی ایک لہر سی دوڑ گئی کہ کسی نے تو ہوش کے ناخن لئے۔ ڈی این ایس سروس دراصل ہر کمپیوٹر کو مہیا کی گئی خصوصی آئی پی (IP) پر کنٹرول کرنے اور اس کو کسی بھی فحش سائٹ سے روکنے کا ایک مکمل نظام ہے۔ DNS ایک مواد کو چھاننے والی سروس ہے جو کسی مخصوص نیٹ ورک پر مواد کو بلاک کرنے یا اجازت دینے کے لیے ڈومین نیم سسٹم (DNS) پر انحصار کرتی ہے۔

DNS صارفین اور کمپنیوں کو اینڈرائیڈ یا وندوز یا براؤزر کی قسم سے آزاد تمام آلات پر رسائی کے قوانین کو لاگو کرنے کی اہلیت بھی پیش کرتا ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ وطن عزیز پاکستان کے 90 فیصد نوجوانوں کو آپ کو سمارٹ فون کے بغیر نہیں دیکھیں گے اور ان میں سے کم از کم 70 فیصد ایسے ہیں جو لائیو ویڈیو کال کے لیے کوئی نہ کوئی ایپ استعمال کرتے ہوں گے، اس کے علاوہ میسنجرز کے ذریعے روزانہ سیکڑوں پورن کلپ کا تبادلہ ایک الگ معاملہ ہے۔

آپ میں سے اکثر اصحاب سوشل میڈیا کے اس فعل سے تو بخوبی واقف ہوں گے کہ سوشل میڈیا کی ہر کمپنی آپ کی دلچسپی کا نہ صرف ریکارڈ رکھتی ہے بلکہ اگر کبھی غلطی سے کسی نے بھی ممنوعہ اشتہار کھول لیا تو اس سے متعلق ہر قسم کے اشتہارات آپ کے موبائل پر بھیجنے کی ذمہ داری ٹوئٹر، فیس بک اور یوٹیوب کی ذمہ داری بن جاتی ہے اور اگر آپ موبائل کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں رکھتے تو بعد میں کسی ماہر دوست کی خدمات حاصل کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

یاد رہے کہ بھارت اور پاکستان کی اکثر نوجوان اور گھریلو خواتین منہ پر ماسک چڑھائے روزانہ کی بنیاد پر صرف پیسے کمانے کی خاطر، اپنے جسم کے جلوے بکھیرنے میں مصروف ہیں۔ ایسی لائیو ویڈیو سٹریمنگ پیش کرنے والی سیکڑوں کمپنیاں ہیں جو بلا تفریق رنگ و نسل معاشرے کے مفید اور کارآمد افراد کو ذہنی طور پر مفلوج کرنے میں مصروف ہیں۔ یاد رہے کہ ہمارے ملک میں سب سے بڑی کمی علم اور معلومات کی ہے۔ ہم نے ایک دوسرے کے دیکھا دیکھی میں انٹر نیٹ کی سہولت تو گھر میں لانے میں جلدی کی لیکن اس کے نقصانات کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب گھر کے بچے باغی، چڑ چڑے ہونے کے ساتھ ساتھ میدان عمل میں بھی ناکام ثابت ہوتے ہیں فحاشی کے موجودہ طوفان نے نہ صرف ہمارے خرمن کو آگ میں جھونکا ہے بلکہ اس عذاب کے ایجاد کرنے والوں کے آشیاں بھی جل رہے ہیں۔ ترقی یافتہ اقوام نے فحاشی کے اس طوفان کے سامنے بند باندھنے کے لئے تمام ممکنہ ہتھکنڈے استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ، انٹر نیٹ سہولت کو نہ صرف مہنگا کر دیا ہے بلکہ اپنی نوجوان نسل کو اس قبیح فعل سے دور رکھنے کے لئے ان کو تعمیری سرگرمیوں میں مصروف رکھتے ہیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ اب پوری دنیا ایک گلوبل ویلج بن چکی ہے اور یہودیوں نے آج سے کئی سال پہلے ایک مذہب کا جو مذموم خواب دیکھا تھا اس کی تکمیل کے حصول کے لئے وہ آئے روز نئے ہتھکنڈے آزما رہے ہیں۔ اپنے اس مقصد کے حصول کے لئے انہوں نے فحاشی اور فیشن کی آڑ لی ہے۔ اب جب کہ پوری دنیا انٹر نیٹ کے ذریعے ایک گاؤں کای شکل اختیار کر چکی ہے تو میری رائے کے مطابق ایسی کوئی سافٹ وئیر اور فلٹر نہیں ہے جو فحاشی کے اس امڈتے سیلاب کے سامنے بند باندھ سکے۔

صرف اخلاقی تربیت اور تعلیم ہی ہماری نوجوان نسل کو اس قبیح فعل سے دور رکھ سکتی ہے جس میں سب سے اہم کردار والدین، اساتذہ اور حکومت وقت کا ہے۔ اگر والدین اپنی اولاد پر کڑی نظر رکھیں اور انٹر نیٹ کے استعمال کا نہ صرف دورانیہ کم کر دیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ جب بچے انٹر نیٹ استعمال کر رہے ہوں تو والدین میں سے ایک فرد بطور نگران ان کے ساتھ رہے تو لا محالہ بچے ایسی فحش پورن سائٹس اور الئیو سٹریمنگ کی ایپس کا استعمال ترک کر نے پر مجبور ہو جائیں گے۔

اس کے علاوہ اگر بچوں کو زیادہ سے زیادہ تعمیری اور تعلیمی سرگرمیوں میں مصروف رکھا جائے اور روزانہ کے نظام الاوقات طے کرنے کے ساتھ ساتھ مذہبی عبادات کی طرف بچوں کا مائل کیا جائے تو ان کے ذہن پر مثبت اثر پڑے گا۔ انگریزی کہاوت ہے کہ خالی دماغ شیطان کی آماجگاہ ہوتا ہے تو والدین اور اساتذہ مل جل کر یہ بھر پور کوشش کریں کہ بچوں کی زیادہ سے زیادہ توجہ تعمیری اور دینی سرگرمیوں کی طرف مبذول کروائی جائے۔ اس کے علاوہ بچے کے ماحول اور اس کے دوستوں پر بھی کڑی نظر رکھی جائے کیونکہ کسی بھی نو نہال کی تعمیر یا تخریب میں اس کے دوستوں کا خاص عمل دخل ہوتا ہے۔

اس مقصد کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ والدین خود اپنے بچے کو وقت دیں تاکہ وہ گھر میں بھی خود کو اکیلا محسوس کرتے ہوئے اپنے دوستوں کے ساتھ غیر ضروری آن لائن گفتگو نہ کر سکے۔ یاد رہے کہ کسی بھی بچے کی نوجوانی کے صرف ابتدائی سال ہی خطرناک ہوتے ہیں لیکن جیسے ہی وہ بیچلر کلاس میں داخلہ لیتا ہے تو اس کی تمام عادات پختہ ہو چکی ہوتی ہیں۔ قصہ مختصر اب بھی وقت کہ ہم اپنی جغرافیائی سرحدوں کے ساتھ ساتھ نظریاتی سرحدوں کی بھر پور حفاظت کریں اور ایسا اس صورت میں ممکن ہے جب ہماری نسل کو پڑھایا جانے والا نصاب اور اساتذہ مذہبی طور پر مضبوط بننے کے ساتھ ساتھ حکومت وقت اور والدین ان کا بھر پور ساتھ دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments