ٹیک اوور کرلو یا جان چھوڑ دو


پنجاب کے متعلق پہلے مشہور تھا کہ یہاں کے لوگ نرم مزاج، مہمان نواز اور حملہ آوروں کا مقابلہ کرنے والے نہیں بلکہ ان کو ویلکم کرنے والے ہیں۔ آپ شیخ سلیم کی تاریخ پنجاب پڑھ لیں، کنہیا لال کی تاریخ لاہور یا ششی تھرور کی تاریخ برصغیر پڑھ لیں۔ آپ کو لاہور اور پنجاب کے لوگ حملہ آوروں کو خوش آمدید کہتے اور ان کی جیبیں بھرتے نظر آئیں گے۔ پنجاب کو افغان حملہ آوروں نے بھی لوٹا اور انگریزوں نے بھی لوٹا۔

اب پنجاب نے اپنی تاریخ میں پہلی بار خود پر حملہ کرنے والوں کے خلاف مزاحمت شروع کردی ہے۔ پنجاب پر اس وقت غائبانہ اور درپردہ رہ کر حملے ہو رہے ہیں جو ماضی میں کبھی نہیں ہوئے لیکن آج پنجابی ڈٹ کے اور سینہ ٹھونک کے میدان میں آ کر جوابی حملے کر رہے ہیں۔ یہاں افسوس کی بات یہ ہے کہ پنجابیوں پر حملے پنجابی جج اور پنجابی جرنیل کر رہے ہیں اس لیے پنجابی بھی باہر نکل کر جوابی وار کر رہے ہیں۔ پہلے ہمیشہ سندھی، بلوچی اور پختون پنجابی ججوں اور جرنیلوں کو گالیاں دیتے تھے اور اپنا دشمن قرار دیتے تھے آج پنجابی ہی ان پنجابی ججوں اور جرنیلوں کو اپنا دشمن قرار دے رہے ہیں۔

ایک طرف الاعلان کہا جاتا ہے کہ ملک میں کبھی مارشل لاء نہیں لگے، فوج مداخلت نہیں کرے گی اور جمہوریت سرچشمہ ہے۔ دوسری طرف غیر علانیہ مارشل لاء بھی جاری رکھا ہوا ہے، درپردہ مداخلت بھی اپنے عروج پر ہے لیکن مداخلت حکومت کے حق میں نہیں خلاف مداخلت ہو رہی ہے۔ اور جمہوریت کے پاؤں کاٹ دیے گئے ہیں۔

عمران خان پاکستان کی تاریخ کے خوش قسمت ترین سیاستدان ہیں۔ وزیر اعظم بنے تو فوج اور عدالت نے ایک ہی وقت میں ان کو کندھوں پر اٹھائے رکھا۔ عمران خان سیاسی مخالفین کو کبھی گھروں سے اٹھاتے رہے، کبھی جیلوں سے اٹھاتے رہے اور کبھی سڑکوں سے اٹھاتے رہے۔ نہ فوج نے اس کی مخالفت کی اور نہ عدالت نے نوٹس لیا، عمران خان نے پونے چار سال ڈنڈے کے زور پر حکومت کی۔ مزے کی بات ہے کہ یہ ڈنڈا بھی فوج نے فراہم کیا۔ جس کے دم پر عمران خان اور ان کی کابینہ کے لوگ دن رات لوٹ مار کرتے رہے۔ مخالفین کو چور، ڈاکو، غدار قرار دیتے رہے اور ساتھ ساتھ ایک پیج کا چرچا کرتے رہے۔

لیکن جیسے ہی عمران خان سے کرسی چھن گئی۔ وہ عمران خان سپہ سالار کو میر جعفر قرار دینے لگ گئے اور عدالتوں کو ان کی حکومت گرانے والوں کا سہولت قرار دینے لگ گئے جبکہ الیکشن کمیشن کو نواز شریف کا غلام قرار دینا شروع کر دیا۔ ساتھ ہی اپنے فالورز کو سڑکوں پر بھی لے آئے جو دن رات جرنیلوں کو غدار اور ججوں کو شریفوں کا غلام کے نعرے لگاتے رہے۔ پھر جب پنجابی ججوں اور جرنیلوں نے دیکھا کہ پنجاب کے لوگ ہی ہمارے خلاف ہو رہے تو فوراً ان کو وہ حلف نامہ یاد آ گیا جو انہوں نے عمران خان کے وزیراعظم بنتے ہی لیا تھا کہ ہر حال میں عمران خان اور ان کی جماعت کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا۔

نیوٹرل کا دعوی کرنے والے جرنیل اور سیاسی معاملات پارلیمنٹ میں ہی حل کرنے کی رٹ لگانے والے ججوں نے بظاہر اپنا جھکاؤ عمران خان کی طرف شروع کر دیا۔ پھر آہستہ آہستہ عمران خان کا پلڑا بھاری ہونا شروع ہو گیا اور ان کے مخالفین خود کو کمزور اور لاچار محسوس کرنا شروع ہو گئے۔ نیب کی جانب سے مریم نواز کو کورٹ لکھپت جیل سے باپ کی سامنے گرفتار کیا جاتا ہے لیکن جسٹس اطہر من اللہ سمیت سب جج خاموش رہتے ہیں جیسے شہباز شریف وزیر اعظم بنتے ہیں اور اینٹی کرپشن شیریں مزاری کو گرفتار کرتی ہے تو جسٹس اطہر من اللہ کا ایمان جاگ جاتا ہے۔

عمران خان وزیر اعظم تھا تو کسی ادارے نے ان کے غیر قانونی اور غیر آئینی اقدامات پر ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا، الٹا عمران خان نے نیب میں اپنے خلاف جاری ہیلی کاپٹر کیس سرد خانے ڈلوا دیا، مالم جبہ، بلین ٹری اور بی آر ٹی کیسز تک سے عدالت سے حکم امتناع لے لیے جبکہ خود کو پارلیمنٹ حملہ کیس میں بری کرا لیا اور اپنی بہن علیمہ خان کو دبئی، امریکہ پراپرٹی کیس میں بھی ریلیف دلوا دیا۔ جبکہ کسی ادارے میں اتنی جرات نہ ہوئی کہ ان کے وزراء پر ہاتھ ڈال سکیں۔

آج شہباز شریف وزیر اعظم ہیں فوج ان کے ساتھ نہیں اور عدالت نے ازخود نوٹس لے کر ان کو پہلے دن ہی ٹکٹکی پر چڑھا دیا۔ عدالت کو اعتراض یہ تھا کہ شہباز شریف وزیراعظم ہو کر بھی اداروں کے سربراہان کو تبدیل کیوں کر رہے ہیں۔ پونے چار سال یہی عدالت نیند کی گولیاں کھا کر سوئی رہے جبکہ عمران خان اپنی مرضی کے سربراہ لگاتے رہے اور جو افسر ان کے کہنے پر شریفوں پر کیس نہیں بناتا تھا اس افسر کو گھر جانے پر مجبور کر دیتے تھے۔ بشیر میمن اس کی بڑی مثال ہے۔ لیکن کسی جج کو یہ سب ہوتا نظر نہیں آیا۔

نواز شریف کا کیس ویسے ہوا میں لٹکا ہے اور مریم نواز کا کیس پچھلے ایک سال سے ختم نہیں ہو رہا۔ یہ شہباز شریف کی بے بسی کی چھوٹی سے جھلک ہے۔ آج ہر پاکستانی سمجھ چکا ہے کہ جج اور جرنیل عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں اور حکومت کو نیچا دیکھا رہے ہیں۔ اگر فوج خود کو سیاست سے دور نہیں رکھ سکتی تو ٹیک اوور کر لے یا قوم کی جان چھوڑ دے۔ ورنہ پاکستان اگلے پانچ سال بعد افغانستان اور یوگنڈا سے بھی بدتر ملک بن چکا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments