تعلیمی اداروں میں زومبیوں کی پیداوار


یہ حاشر ابن ارشاد کے لیکچر کا عنوان تھا جس کا اہتمام ”دی بلیک ہول“ کی طرف سے کیا گیا تھا جو آج کے گھٹن زدہ پاکستان میں ایسے طلبا و طالبات کے لیے ایک طرح سے تازہ ہوا کا جھونکا ہے جو ذرا ہٹ کے سوچنے کا شغف رکھتے ہیں اور ان کے لیے بھی کسی نعمت سے کم ثابت نہیں ہو گا جو محض چسکا بازی یا وقت گزاری کی حد تک مستفید ہونا چاہتے ہوں۔ مخصوص فکری تسلط یا جنون یا فکری جمود سوچنے یا غور و فکر کے آزادانہ عمل کے درمیان ایک ایسی آہنی دیوار قائم کر دیتے ہیں جس کے پار دیکھنے لیے نجانے کب سے ہماری نسلیں ترس رہی ہیں مگر ان روایتی دیواروں کے پاسداران اتنے تگڑے ہو چکے ہیں کہ وہ کسی بھی کدال اٹھانے والے یا نئی فکر کو ترویج دینے والے پر نازیبا قسم کی الزام تراشیوں کے ذریعے سے یا مختلف قسم کے کفریہ ٹیگ لگا کر راستے سے ہی ہٹا دیتے ہیں۔

اسی تسلط والے رجحان یا فکر کی وجہ سے ہم اپنے ملک میں بات چیت کے کلچر کو فروغ دینے کی بجائے دھمکی، گھیراؤ جلاؤ یا سر تن سے جدا کرنے والے کلچر کو فروغ دے چکے ہیں جسے آج کی مہذب دنیا میں وحشیانہ کلچر سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ اکیسویں صدی میں عورتوں پر کوڑے برسانے والا تباہ حال افغانستان آج ہمارے سامنے ہے اور دوسری طرف مشال خان اور پریانتھا کمارا کی لاش کا سرمہ بنانے والے وطن عزیز کی صورت حال بھی آج ہماری آنکھوں کے سامنے ہے کہ کیسے ہم ڈالر کے سامنے بے بس ہو چکے ہیں اور معاشی حالات تو اس قدر ابتر ہو چکے ہیں جس کا کوئی اندازہ ہی نہیں ہے بالکل افضل چن کے ڈائیلاگ کی طرح ”مختاریا گل ودھ گئی اے حکومت دسدی نہیں پئ“ یعنی معاملہ بہت خراب ہو چکا ہے لیکن حکومت اندر کی بات بتانے سے گریزاں ہے۔

بنیادی وجہ بلاوجہ کے ”ٹچ“ ہیں جس کے سہارے بڑوں بڑوں کی دکاندار یاں چل رہی ہیں اور اچھے خاصے انسان کو زومبی میں تبدیل کر دیا گیا ہے جو جسمانی طور پر تو انسان دکھتے ہیں مگر ذہنی طور پر انسانوں کو نوچنے والے بن چکے ہیں جو بلا سوچے سمجھے مذہب و سیاست کے نام پر چند پیشواؤں کے ہاتھوں میں کھلونا بن کر دوسرے انسانوں کو بے دردی سے مارنے پیٹنے لگتے ہیں اور مذہب کے نام پر تو لاش تک جلا ڈالتے ہیں۔ یہ ایک طرح سے بے جان یا بے حس قسم کی لاشوں میں تبدیل ہو چکے ہیں جن کا دماغ مخصوص نعروں پر ری ایکٹ کرتا ہے باقی کی دنیا میں کیا ہو رہا ہے اس سے یہ بالکل لاتعلق ہو چکے یا کر دیے گئے ہیں۔

آج کی جدید دنیا میں ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں یا ہمارے ظرف کا دائرہ ان مذہبی و سیاسی پنڈتوں نے اتنا چھوٹا کر دیا ہے کہ ہم مختلف الخیالی کو جگہ دینا تو دور کی بات ہے برداشت ہی نہیں کرنا چاہتے اور اس فہم سے بیگانہ ہوچکے ہیں کہ مختلف تصورات جو ہم تک آج پہنچے ہیں وہ ترسیل کا ہی فیض ہے اور خیال کی ترسیل کے لئے ایک دوسرے کے خیالات کو سپیس دینا پڑتی ہے تب ہی ترسیل ممکن ہو پاتی ہے۔ ہمیں اس حقیقت کو سمجھنا ہو گا کہ جو تصورات ہمارے لئے مقدس ہیں ممکن ہے وہ دوسروں کے لئے مقدس نہ ہوں یا عمومی حیثیت رکھتے ہوں یا دوسروں کے مقدس تصورات کی ہماری نظر میں کوئی اہمیت نہ ہو لیکن برداشت اور رواداری کا انسانی تقاضا یہی ہے کہ ایک دوسرے کے خیالات کا احترام کرتے ہوئے ڈائیلاگ کو فروغ دیا جائے۔

دلیل کا جواب دلیل سے جچتا ہے نا کہ دھمکی، گالم گلوچ یا سر تن سے جدا کرنے والے ذہنی رجحان سے۔ اگر سر تن سے جدا والے پرتشدد رجحان پر دنیا کے دوسرے مذاہب والے بھی کمر کس کر میدان میں نکل پڑیں اور یہ اعلان کر دیں کہ کسی نے بھی ہمارے دیوی دیوتا یا نبی کے خلاف کوئی بات کی تو ہم اس کا سر تن سے جدا کر دیں گے۔ ذرا سوچیں کس کا سر کندھے پر بچے گا؟ میرے کچھ اسٹوڈنٹس جو ان دنوں بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں زیر تعلیم ہیں، نے گزشتہ دنوں مجھے یونیورسٹی میں آویزاں ایک پینا فلیکس کی تصویر واٹس ایپ کی جو کچھ دن آویزاں رہا بعد میں اتار لیا گیا۔

جس پر واضح طور پر درج تھا کہ ”گستاخ رسول کی ایک ہی سزا سر تن سے جدا“ ساتھ میں وائس چانسلر یونیورسٹی اور رجسٹرار کی تصاویر بھی آویزاں تھیں۔ حال ہی میں انڈیا میں ایک سیاست دان نے پیغمبر علیہ السلام کے بارے میں کچھ نازیبا الفاظ کہے تھے، غالباً اس کے ردعمل کے طور پر یہ فلیکس آویزاں کیا گیا تھا۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا عالم اسلام خصوصاً عرب ریاستوں کی کسی بھی یونیورسٹی میں اس قسم کا کوئی رد عمل دیکھنے میں آیا؟ یا گلف کی کسی ریاست کی دیواروں پر اس قسم کے نعروں کا اندراج کر دیا گیا ہو؟

یا سعودی عرب میں جو ہمارے مذہب کی جنم بھومی ہے وہاں کے کسی تعلیمی ادارے میں کوئی اس قسم کا ردعمل دیکھنے میں آیا ہو؟ اگر کسی کے علم میں ہو تو ضرور اصلاح فرمائیے گا۔ کیا ہم اس مقدس سرزمین کے رہنے والوں سے زیادہ بڑے مسلمان ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں؟ آج کی جدید دنیا اور خصوصاً عرب ممالک کو اس حقیقت کا ادراک ہے کہ مقدس شخصیات کے متعلق نازیبا خیالات کا اظہار کرنا بیمار ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے اور اس قسم کے ذہنی بیمار دنیا کے ہر حصے میں پائے جاتے ہیں ان سے ان شخصیات کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔

دوسری قابل غور بات یہ ہے کہ اگر یہی وائس چانسلر کسی مہذب دنیا کی یونیورسٹی کا حصہ ہوتے تو کیا وہاں بھی اس قسم کا فلیکس آویزاں کروا سکتے تھے؟ حیرانی کی بات یہ ہے کہ یہ اس حقیقت کو بڑے اچھے سے سمجھتے ہیں مگر شاید ”ٹچ“ کے اثر سے یہ بھی خود کو محفوظ نہیں رکھ سکتے۔ حاشر ابن ارشاد نے بالکل درست نشاندہی کی ہے کہ فکری تبدیلی کا آغاز ہمیں اپنے گھروں سے کرنا چاہیے۔ اپنے بچوں کو تمام مذاہب بطور ادب پڑھنے کی آزادی دینی چاہیے اور انہیں اس قسم کا ماحول دیا جائے جس میں وہ آزادی سے سوچنے کے قابل ہوں، سوال کریں اور خود سے جواب ڈھونڈیں۔

انہیں وہ سب کرنے کی اجازت دیں جسے وہ اپنی مرضی سے کرنا چاہتے ہوں، انہیں چابی والا کھلونا نہ سمجھیں بلکہ ایک فرد کا درجہ دے کر ان کی رائے کا احترام کرتے ہوئے انہیں وہ بننے دیں جو وہ خود سے بننا چاہتے ہوں۔ اسکول، کالج یا یونیورسٹی سے ہمیں کوئی زیادہ امیدیں وابستہ نہیں رکھنی چاہئیں کیونکہ یہ ”ٹیلنٹ ہنٹ یا ٹیلنٹ بوسٹنگ“ کی آماجگاہ بالکل نہیں ہیں بلکہ تخلیقی صلاحیتوں کو کچلنے کے کاروباری اڈے ہیں جس میں اب مہنگے ترین پرائیویٹ ادارے بھی شامل ہو چکے ہیں۔ اگر گھریلو سطح پر بچوں کی فکری رکاوٹوں کو دور کرنے کا موثر بندوبست ہو جائے تو اگلا پڑاؤ بچہ خود کھوجنے کے قابل ہوجاتا ہے، اس لیے بچے کی فکری بیساکھیوں کو ہٹانے یا ختم کرنے کے لئے سب سے پہلے اپنے گھر سے آغاز کرنا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments