جدیدیت، بعد از جدیدیت اور سوشل میڈیا


حسن عسکری نے پاکستانی معاشرے کو پیش نظر رکھتے ہوئے جدیدیت پر ایک مختصر مگر جامعہ کتاب بعنوان ’جدیدیت‘ تحریر کی۔ اس کی اشاعت 1997 ء میں ہوئی جبکہ دنیا کے دوسرے حصوں میں جدیدیت سے بعد از جدیدیت کے بحث جاری تھی۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ جدیدیت کے اثرات پاکستانی معاشرے میں دیر سے پہنچے بلکہ اس کے اثرات تو ترقی پسند مصنفین کے تحریرات کے ذریعے پہلے کے پھیل چکے تھے لیکن حسن عسکری نے جدیدیت کے فلسفیانہ گوشوں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی تھی۔ کرسٹوفر بٹلر اپنی کتاب A Short Introduction to Modernism میں اس عملی اور ادبی تحریک کا تعارف اس سے وابستہ ادیبوں اور فنکاروں سے کرواتے ہیں تاکہ قارئین بآسانی اس تحریک کو سمجھ سکیں۔

اردو ادب میں جدیدیت کے متاثر کام کی کمی نہیں ہے تاہم حسن عسکری صاحب پاکستانی معاشرے کو جدیدیت کے منفی اثرات سے محفوظ رکھنے کے خواہشمند تھے اس لئے اپنی کتاب میں انہوں نے کسی بھی ادبی صنف کو بطور مثال پیش نہیں کیا۔ اس تحریر میں ان کا منشا جدیدیت کے نظریاتی حصوں کو پیش کرتا تھا اس لئے ان کا ایسی مثالوں کو کتاب میں شامل نہ کرنا قابل فہم بھی ہے۔ اپنی دیگر تحریرات میں عسکری صاحب جدیدیت کی ادبی اصناف پر ضرور بحث کرتے ہیں۔ اس کے برعکس عصر حاضر میں سوشل میڈیا جدیدیت اور بعد از جدیدیت کی ترسیل کا ایک اہم ذریعہ بن گیا ہے۔

حسن عسکری کی تحریر کے تین دہائیوں بعد پاکستانی معاشرے میں جدیدیت اور بعد از جدیدیت کے بہت سے پہلو سرایت کر چکے ہیں جس میں نمایاں اخلاقی اقدار کی غیر حتمی بنیاد، جنس کے متعلق غیر روایتی سوچ او ر حقیقت کو تصویر کی صورت میں دیکھنے کی سعی ہیں۔ سوشل میڈیا کا تعلق اس آخری کڑی سے ہے جس میں حقیقت کو ایک تصویر کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔ اس خیال کا موجد ژاں بوڈرے ہے جس نے یہ نظریہ پیش کیا کہ جو کچھ بھی ہم اپنے حواس کے ذریعے سے معلوم کرتے ہیں دراصل وہ ہمارے ذہن میں تخلیق ہوئی شبیہ ہے جسے ہم حقیقت سمجھتے ہیں۔

سوشل میڈیا اس تصور کی ایک طرح سے توجیح ہے جس میں تصویر ہی ہماری شخصیت، اخلاق، سوچ، حیثیت اور حقیقت کی نمائندہ بن جاتی ہے۔ انسٹا گرام، واٹس ایپ، فیس بک پر لگائی گئی تصاویر اور وڈیوز شبیہ کی صورت میں ہمیں کوئی بھی تصور بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی تکنیک کا استعمال سوشل میڈیا مارکٹنگ اور سیاسی مہم چلانے کے لئے خصوصی طور پر کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی بھی سیاسی لیڈر کی نماز پڑھتے ہوئے ایک تصویر اس کو پسند کرنے والوں کے لئے اس کی پرہیز گاری کے ثبوت کے طور پر کافی ہے چناں کہ اس میں کوئی صداقت بھی ہے کہ نہیں۔ اسی طرح میڈیا پر صاحب اثر مرد اور خواتین کے انٹرٹینمنٹ مواد کی بجائے ان کی ظاہری شکل و صورت زیادہ اہم حیثیت رکھتی ہے۔ اس تصویری جاذبیت نے بذات خود ایک معیار کا مقام حاصل کر لیا ہے یعنی کہ اگر کچھ اچھا نظر آ رہا ہے تو اسے بہترین ہی تسلیم کیا جائے۔

اگرچہ پاکستان میں بہت سے قابل مصنفین نے بعد از جدیدیت پر ادبی سطح پر بلند پایہ تخلیقات کی ہیں لیکن میری دانست میں سوشل میڈیا پاکستان میں جدیدیت اور بعد از جدیدیت کے پھیلاؤ کے ساتھ ایسے مسائل کا سبب بنے گا جس سے مغرب میں دانشور فکری طور پر نبردآزما ہیں۔ ڈیٹا رپورٹل کے جنوری 2022 ء کے عداد و شمار کے مطابق پاکستان میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کی تعداد 70.71 ملین ہے جو کہ کل آبادی کا 31.5 فیصد حصہ ہیں۔

اسی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ پاکستان میں فیس بک استعمال کرنے والے افراد کی تعداد 43.55 ملین، یوٹیوب 71.70 ملین، انسٹا گرام 13.75 ملین، ٹک ٹاک 18.26 ملین اور ٹیوٹر 3.40 ملین ہے۔ انہی کو سامنے رکھتے ہوئے گوگل ایڈ ان تمام پلیٹ فارمز کی مدد سے 86 فیصد انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں تک رسائی حاصل کر چکا ہے۔ سوشل میڈیا کے صارفین کی اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جو اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ مستقبل میں اس کے اثرات کس حد تک وسیع ہوں گے۔ اس کی ایک مثال پاکستان کی موجودہ صورتحال پر بننے والے میمز ہیں جو کسی بھی سیاسی یا سماجی حریف کی شخصیت کو مسخ کرنے کے لئے کافی ہیں اور فیصلہ سازی میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔

یہ صورتحال فکر انگیز ہے کیونکہ یہ معاشرے کی ساخت کو ایسے تیزی سے تبدیل کر رہا ہے کہ ہمارے پاس سوچ و فکر کرنے کا وقت ہی ختم ہوتا جا رہا ہے۔ بہت سے لوگ سوشل میڈیا کو فکری شعور کے لئے بھی استعمال کر رہے ہیں لیکن ایک بڑی تعداد اسے انٹرٹینمنٹ کے طور پر ہی لیتی ہے۔ مزید اس سے منسلک معاشی فوائد نے لوگوں کی کثیر تعداد تک رسائی حاصل کرنے کا ایسا جنون طاری کر دیا ہے جس کی کوئی حد نہیں رہی۔ مغرب میں جدیدیت اور بعد از جدیدیت کے منفی پہلوؤں پر تنقید کے ساتھ ان کا مسلسل مطالعہ ہو رہا ہے۔

پاکستان میں سوشل میڈیا سے ہونے والے منفی اثرات سے نمٹنے کے لئے ادبی وسائل پر بھروسا کرنا کس قدر کامیاب ہو گا یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ تاہم اس کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ پاکستان میں سوشل میڈیا جدیدیت اور بعد از جدیدیت کی ترویج کا سب سے بڑا مرکز بن کر ابھرا ہے اور مستقبل میں زندگی سوشل میڈیا کی بنائی گئی مصنوعی زندگی کے تابع ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments