( 1 ) سید فخرالدین بلے اور شہزاد احمد کی نصف صدی پر محیط داستان رفاقت


(ولادت:۔ 16۔ اپریل 1932۔ امرتسر) (وفات:۔ یکم۔ اگست 2012۔ لاہور)
شہزاد احمد کے 10 ویں یوم وفات کے موقع پر خصوصی تحریر
داستان گو : ظفر معین بلے جعفری

جناب شہزادؔ احمد صاحب سے ہمارے والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کے گھریلو اور بے تکلفانہ مراسم تھے۔ رات گئے بھی وہ ہمارے ہاں تمام تر تقریبات میں نجی محافل میں شریک رہتے لیکن عارضہ قلب میں مبتلا ہونے کے بعد ان کی طبیعت ٹھکانے نہیں رہتی۔ اکثر تو ان کی حالت اس قدر بگڑ جاتی تھی کہ میں نے ان کو والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ سے مخاطب ہو کر یہ فرماتے ہوئے بھی سنا کہ بلے صاحب لگتا ہے اب کوچ کا وقت آ گیا ہے ایک تو تکلیف کی شدت میں کمی نہیں ہو رہی اور دوسرے سانس اکھڑ اکھڑ جا رہا ہے۔

آپ میں بہت حوصلہ ہے وی ون سے وی فائف تک مکمل طور ڈیمجڈ کا ای سی جی دیکھ کر بھی آپ کا وی سکس پر ہی اتنا دار و مدار رکھنا کہ سگریٹ نوشی تو کیا برج یا شطرنج کی بازیوں میں بھی کمی نہیں آئی اور آرام کرنے اور ایک دو گھنٹے سے زیادہ سونے کا تو آپ کی زندگی کی لغت میں تصور بھی نہیں ہے۔ قوت ارادی کی ایسی مثال مشکل سے ہی ملے گی، بلے صاحب آپ کو دیکھ کر تو دل کرتا ہے اچھل کر اپنی مصروفیات میں کود پڑوں۔ آپ کو دیکھ کر مجھے بہت حوصلہ ملتا ہے اور میں خود سے مخاطب ہوتا ہوں کہ شہزاد احمد اپنے تمام تر موخر منصوبوں کو پھر سے شروع کردو ”شہزاد احمد شہزاد صاحب اپنی اسی علالت کے دوران معروف ماہر امراض قلب ڈاکٹر کمال کے بھی زیر علاج رہے اور انہوں نے سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کی تقلید میں ادویات اور دیگر ہدایات سے کہیں زیادہ انحصار قوت ارادی پر کرنا شروع کر دیا۔

البتہ سگریٹ نوشی سے توبہ کرلی اور سونے اٹھنے اور آرام کرنے کے اوقات مقرر کر لیے۔ عارضہ قلب میں مبتلا ہونے سے قبل وہ ٹی ہاوٴس یا وزیر آغا ہاوٴس۔ یا والد گرامی کی اقامت گاہ پر رات گئے ادبی نشستوں یا محافل اور تقریبات میں موجود ضرور نظر آتے تھے لیکن بعد ازاں انہوں نے رات دس یا زیادہ سے زیادہ ساڑھے دس بجے کی حد مقرر کرلی تھی۔

1992۔ میں سید فخرالدین بلے صاحب کی قائم کردہ عالمی شہرت کی ادبی تنظیم ”قافلہ“ کے زیر اہتمام جناب شہزاد احمد صاحب کا ساٹھ سالہ جشن ولادت نہایت عالی شان طریقے سے منایا گیا۔ سید فخرالدین بلے صاحب کی رہائش گاہ پر ہر ماہ کو قافلہ کا پڑاوٴ ڈالا جاتا تھا۔ اس قافلہ پڑاوٴ کی دھوم پوری اردو دنیا میں مچی ہوئی تھی اور یہ لاہور میں ادبی و علمی روایت و رواج اور رجحان کا حصہ تھی۔ احمد ندیم قاسمی۔ ڈاکٹر وزیر آغا۔ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا۔

ڈاکٹر آغا سہیل۔ الطاف فاطمہ۔ ڈاکٹر خورشید رضوی۔ منور سعید۔ اشفاق احمد۔ بانو قدسیہ۔ جاوید احمد قریشی۔ مرتضی برلاس۔ ڈاکٹر اجمل نیازی۔ ڈاکٹر سلیم اختر۔ ڈاکٹر انور سدید۔ پرتو روہیلہ۔ عبدالعزیز خالد۔ صدیقہ بیگم۔ نورین طلعت عروبہ۔ نسرین قریشی۔ سیما پیروز۔ پیروز بخت قاضی۔ اسرار زیدی۔ اشفاق نقوی۔ اصغر ندیم سید۔ علامہ غلام شبیر بخاری۔ برہان فاروقی۔ سرفراز سید۔ جاوید طفیل۔ طفیل ہوشیار پوری۔ اسلم کولسری۔ منصور آفاق اور شہزاد احمد جیسی نابغہ روزگار شخصیات سینکڑوں کی تعداد میں باقاعدگی سے قافلہ پڑاوٴ میں شرکت کو ایک اعزاز سمجھتی تھیں۔

قافلہ کے ماہانہ پڑاوٴ کی گونج اخبار جہاں۔ اخبار خواتین۔ فیملی۔ جنگ۔ نوائے وقت۔ مشرق۔ امروز۔ پاکستان اور ڈان جیسے قومی جرائد و اخبارات اور ہفت روزہ آواز جرس کے شماروں میں سنائی دیا کرتی تھی۔ اسلم کولسری اکثر اس صوفے پر براجمان ہوتے تھے کہ جو دیوار پر آویزاں آنس معین کے پورٹریٹ کے فریم کے نیچے رکھا ہوتا تھا اور شہزاد احمد اکثر اسلم کولسری کے مد مقابل تشریف فرما ہوتے تھے ایک روز شہزاد احمد نے اسلم کولسری سے پوچھ ہی لیا کہ کیا بات ہے آپ نے تو اپنی نشست بھی مخصوص کر رکھی ہے۔

ان کی اس بات کے جواب میں اسلم کولسری نے فرمایا کہ آنس معین کے زیر سایہ بیٹھ کر یوں سمجھ لیجے کہ آنس معین کی فکر انگیز شاعری سے فیض پاتا ہوں اور بلے صاحب اور آپ سب کو دیکھنا اور سننا اور زیادہ اچھا لگتا ہے۔ یہ سن کر شہزاد احمد مسکرائے اور کہا کہ میں جس سیٹ پر بیٹھتا ہوں مجھے یہ نشست اس لیے پسند ہے کہ آنس معین کو شریک قافلہ پڑاوٴ سمجھتا ہوں اور مجھے لگتا ہے کہ آنس معین بھی داد دینے والوں میں شامل ہے۔ بلکہ کبھی کبھی تو جب آنس معین کی جانب داد طلب نظروں سے دیکھتا ہوں تو یقین کریں کہ آپ سب سے بڑھ کر آنس معین داد دیتے ہیں۔ جبکہ عام طور پر جب آنس معین کی شاعری کے تناظر میں اس پورٹریٹ کو دیکھتا ہوں تو لگتا یہی ہے کہ جیسے آنس معین کہہ رہا ہو کہ

حیرت سے جو یوں میری طرف دیکھ رہے ہو
لگتا ہے کبھی تم نے سمندر نہیں دیکھا
( آنس معین )

شہزاد احمد ہمارے بابا جانی سید فخرالدین بلے کی قائم کردہ ادبی تنظیم ”قافلہ“ کے حوالے سے فرمایا کرتے تھے کہ میں قافلے کے پڑاؤ کی روایت کو لاہور کی تاریخ ادب کا روشن باب سمجھتا ہوں، بے شک شہزاد احمد سے ہمارے والد گرامی کا قلبی۔ ذہنی اور فکری ہم آہنگی کا عجیب بلکہ مثالی تعلق تھا۔ شہزاد احمد خود کو علانیہ طور پر سید فخرالدین بلے کے کام اور کلام کا مداح کہا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ سید فخرالدین بلے سے فلسفے، نفسیات، علم الکلام، تاریخ، تصوف اور تنقیدی موضوعات پر گفتگو کر کے مزہ آ جاتا ہے۔

ان کا اپنا زاویہ ء نگاہ تھا۔ وہ دوسروں کی عینک سے حالات و واقعات کا مشاہدہ نہیں کرتے تھے۔ ان کی غزلیں اور نظمیں بھی ان کے گہرے مطالعے کی غمازی کرتی نظر آتی ہیں۔ شہزاد احمد سید فخرالدین بلے کے دنیا سے چلے جانے پر بے حد دکھی دکھائی دیے اور کہا کہ ان کے ساتھ میرے تعلقات نصف صدی کا قصہ نہیں، اس سے بھی آگے کی بات ہے۔ بلے بھئی بلے۔ ان کے گھر سجنے والی شعری اور ادبی محفلیں تاریخ لاہور کا ایک باب ہے۔ افسوس۔ اس زمین نے ایک اور آسمان کو اپنے اندر اتار لیا ہے۔ ایسی مرنجاں مرنج شخصیات کو مدتوں فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ ”

 

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments