ماحولیاتی ایمرجنسی اور ترقی پذیر ممالک

آج کل دنیا کے قریب تمام براعظم ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہ اثرات دنیا کے مختلف ملکوں میں الگ الگ انداز میں ظہور پذیر ہور ہے ہیں۔ مثال کے طور پر جنوبی ایشیا میں شدید گرمی کی لہر کے بعد اب مون سون بارشوں کے بدلتے تیور تباہی مچا رہے ہیں۔ افریقہ کے کئی ممالک میں قحط سالی کی وجہ سے بھوک اور معاشی بدحالی کا راج ہے۔ یورپ اور شمالی امریکہ کے جنگلات میں لگنے والی آگ کے نتیجے میں حیاتیاتی تنوع کی بربادی کے منظر میڈیا پر چھائے ہوئے ہیں اور اسی اثنا میں یورپ کے لوگوں کو گرمی کی ایسی شدید لہر کا سامنا کرنا پڑا ہے جس کی مثال اس براعظم کی تاریخ میں نہیں ملتی
اقوم متحدہ کی سیکریٹری جنرل اونٹونیو گیوٹریس نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ موسمیاتی بحران پر دنیا کا سست ردعمل انسانیت کو ایک طرح سے اجتماعی خودکشی کی طرف لے جانے کے مترادف ہو گا۔ گزشتہ دنوں 40 ملکوں کے وزارتی اجلاس سے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی جنگلات میں لگنے والی آگ، سیلاب، قحط، شدید طوفانوں اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے دیگر خطرات سے دوچار ہے اور دنیا کی تمام اقوام اس بحران کی زد میں ہیں
برطانیہ کی سرکاری میٹ آفس کے مطابق گزشتہ دنوں یورپ میں پڑنے والی گرمی کی لہر کے دوران کئی مقامات پر تاریخ میں پہلی مرتبہ درجہ حرارت 40 سینٹی گریڈ سے تجاوز کر گیا۔ اسی طرح اس خطے کے 40 سے زیادہ مقامات پر زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت کے تمام رکارڈ ٹوٹ گئے
نیویارک ٹائمز میں چھپنے والے ایک آرٹیکل کے مطابق 19 جولائی کو فرانس، نیدرلینڈ، برطانیہ سمیت یورپ کے کئی مقامات پر بیسویں صدی میں اس تاریخ کے درجہ حرارت کے مقابلے میں بیس ڈگری زیادہ گرمی پڑی۔ ایک امریکی ادارے نووا کلائمیٹ کے مطابق گرمی کی اس لہر نے یورپ میں نئی موسمیاتی تاریخ رقم کی ہے
ویسے گرمیوں کے دوران کئی ایشیائی ممالک میں تو اتنا درجہ حرارت معمول کی بات ہے لیکن یورپ کے ان ٹھنڈے علاقوں کے لوگوں کے معمولات زندگی اس گرمی اور ہوا میں نمی کے تناسب میں تبدیلی کی وجہ سے شدید طور پر متاثر ہوئے کیونکہ کئی علاقوں میں ائر کنڈیشننگ کا استعمال بھی عام نہیں تھا۔ اس صورتحال سے یہ تاثر تقویت پکڑتا ہے کہ سائنسدانوں کی گلوبل وار منگ کے حوالے سے انتباہات کے باوجود یورپ کے لوگ اور حکومتیں بھی اس قدر گرمی کے لیے ذہنی طور تیار نہیں تھیں۔ دوسری طرف فرانس پرتگال اسپین اور یونان کے جنگلات میں لگنے والی آگ کی وجہ سے ہزاروں افراد نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ جبکہ بڑے پیمانے پر نباتات اور دیگر جنگلی حیات تباہی کا شکار ہوئی ہے
اسی طرح ماحولیاتی تبدیلیوں کا بحران افریقہ میں اناج کی شدید قلت کے بحران کو جنم دے رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق صومالیہ کی آدھی کے قریب آبادی قحط کے اثرات کو بھگت رہی ہے۔ جبکہ جنگلات کے خاتمے سے لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع کم ہور ہے ہیں۔ اقوم متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک کروڑ بچوں سمیت دو کروڑ کے قریب لوگ قحط سے کسی نہ کسی طرح متاثر ہوئے ہیں۔ پورے براعظم کی زراعت گرمی کی بڑھتی ہوئی شدت اور بارشوں میں کمی کی وجہ سے تنزلی کا شکار ہے۔ اسی طرح یہ حالات مویشیوں کے چارے کے خاتمے کا سبب بھی بن رہے ہیں جس سے لاکھوں کی تعداد میں جانور ختم ہو رہے ہیں۔ چرواہے اپنے مویشیوں کے لئے چارے کی تلاش میں ایک علاقے سے دوسرے علاقے کی طرف ہجرت کر رہے ہیں جس سے مقامی سطح پر تنازعات جنم لے رہے ہیں
اسی تناظر میں ہم اگر جنوبی ایشیا کی بات کریں تو ایک طرف تو گرمی کی شدید لہر نے ہمارے ملک سمیت پورے خطے کو متاثر کیا اور جون میں کافی دفعہ سندھ کے شہروں جیکب آباد، دادو وغیرہ کا شمار دنیا کی گرم ترین جگہوں میں ہوتا رہا۔ گرمی کی اس شدید لہر نے پورے خطے میں معمولات زندگی اور عام لوگوں کی معاشی سرگرمیوں کو متاثر کیا۔ اسی طرح بے ترتیب مون سون کی شدید بارشیں پورے جنوبی ایشیا میں تباہی کا باعث بن رہی ہیں۔
دوسری طرف ان بارشوں کی غیر معمولی شدت ہماری زراعت کو بھی شدید نقصان پہنچا رہی ہے۔ سندھ میں کھجور، کپاس اور دیگر فصلوں اور میوہ جات کی پیداوار متاثر ہو رہی ہے۔ اسی طرح اس سال ملک کے کئی شہروں میں یہ بارشیں اربن فلڈنگ جیسی صورتحال کا باعث بھی بن رہی ہیں
ماضی میں پاکستان میں میڈیا عام طور پر دیگر سیاسی اور سماجی مسائل کے مقابلے میں موسمیاتی تبدیلیوں کو کم اہمیت دیتا تھا لیکن اب ملک کو درپیش ماحولیاتی خطرات پر مین اسٹریم میڈیا میں بات ہونے لگی ہے۔ بلکہ اس مہینے کے دوران پاکستان کے ماحولیاتی مسائل کی بازگشت عالمی میڈیا میں بھی سنائی دی اور سی این این، واشنگٹن پوسٹ، نیویارک ٹائمز، دی انڈیپنڈنٹ سمیت عالمی میڈیا نے پاکستان میں شدید بارشوں کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے جوڑ کر کوریج دی۔
اس حوالے سے پاکستان کے معروف صحافی حامد میر صاحب کا امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں ایک آرٹیکل شایع ہوا ہے جس میں انہوں نے ماحولیاتی تبدیلیوں کو پاکستان کے لیے دہشتگردی سے بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے وفاقی وزیر شیری رحمان کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اس سال ملک میں ہونے والی بارشوں کی شدت ماضی کے مقابلے میں 87 فیصد زیادہ رہی ہے۔ اس کے علاوہ آرٹیکل میں ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پانی کی قلت، سیلاب، قحط، گلیشیئرز کے پگھلنے سمیت پاکستان کے ساحلی علاقوں کو لاحق خطرات کا ذکر بھی کیا گیا ہے
اسی تناظر میں ایک اور امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں بھی پاکستان کے ماحولیاتی مسائل کے حوالے سے ایک تفصیلی نیوز فیچر شایع ہوا ہے۔ جس کے مطابق 1998 سے 2018 تک پاکستانی معیشت کو موسمیاتی تبدیلیوں سے جڑی قدرتی آفات کی وجہ سے 4 بلین ڈالرز کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
دنیا کے کئی ترقی پذیر ممالک اسی قسم کی صورتحال کا سامنا کر ہے ہیں۔ ایک طرف ان کو اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کو بنیادی سہولیات فراہم کرنی ہیں اور اپنی اقتصادی مشکلات کا حل ڈھونڈنا ہے تو دوسری طرف ماحولیاتی بحران کے مقابلے کے لیے اپنی معاشی پالیسیوں اور انفرا اسٹرکچر میں فوری اور بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں کرنی ہیں۔ یہ صورتحال پالیسی سازی کے حوالے سے آج کے دور میں ترقی پذیر دنیا کا سب سے بڑا مخمصہ بنتی جا رہی ہے
- مادری زبانوں کا عالمی دن اور ریڈیو پاکستان - 24/02/2023
- حیاتیاتی تنوع کے حوالے سے عالمی کانفرنس: امیدیں اور خدشات - 07/12/2022
- ماحولیاتی بحران کے نئے سائنسی شواہد - 07/11/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).