شہاب نامہ، شہاب بیتی سے لوح ایام تک ( 2 )

شہاب الدین رحمت اللہ کی کتاب شہاب بیتی پڑھنے سے جہان حیرت کے نئے نئے در وا ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کتاب کو پڑھنے سے ایک تو ہمارے ہیروز کی حقیقت سامنے آتی جا رہی ہے۔ کل تلک جو پلکوں پر بیٹھنے کے حق دار تھے آج وہ تشکیک کے کٹہرے میں کھڑے ہیں۔ دوسرا اس کتاب سے موجودہ حالات اور عوام کی ذہنی جہات و نفسیات کی سمجھ بھی آتی جا رہی ہے کہ ہم اس وقت اس قدر پستی و تنزلی میں کیوں گرے ہوئے ہیں۔ کتاب آدھی پڑھی گئی ہے اور تاریخی واقعات کا ڈھیر لگا پڑا ہے جن کا انتخاب مشکل تر ہوتا جا رہا ہے کہ کس کو چھوڑا جائے اور کس کو بیان کیا جائے۔
شہاب الدین رحمت اللہ اپنی کتاب شہاب بیتی کے صفحہ نمبر ایک سو انہتر پر لکھتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہاں صرف خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے جس کے آخر میں میری رائے بھی شامل ہے۔ اصل متن دیکھنے کے لیے کتاب ملاحظہ فرمائیں :
ہندوستانیوں کو ہندوستان میں آئی سی ایس کا امتحان پاس کرنے کے بعد پروبیشنرز کورس کے لیے انگلینڈ جانا پڑتا تھا تا کہ وہاں افسران کی حتمی تعلیم و تربیت ہو سکے اور ان کو انگریز حاکمانہ ذہنیت سکھائی جا سکے۔ پروبیشنرز کورس مکمل کرنے کے بعد انڈیا واپسی پر ان کامیاب افسران کو تاج برطانیہ کے فرمانروا اور اس کے ورثا کے ساتھ سیکرٹری آف اسٹیٹ فار انڈیا کے توسط سے ایک معاہدہ کرنا ہوتا تھا جس میں ملازمت کا تحفظ، تنخواہ، پنشن، رخصت، قبل از وقت پنشن کی شرح اور دیگر ایسے قواعد و ضوابط تھے جو ملازمین کے حقوق کے تحفظ کو ضمانت فراہم کرتے تھے۔
تقسیم کے بعد انڈیا میں تو ان قواعد و ضوابط میں کوئی رد و بدل نہیں ہوا البتہ پاکستان میں ایوب خان کے حواریوں نے ایوب خان سے کہا کہ آپ جن افسروں کو ناپسند کرتے ہیں انہیں اسکریننگ کے ذریعے سبکدوش کر دیں اور ساتھ ہی ایک آرڈیننس پاس کر دیں جس سے ان جبری سبکدوش ہونے والے افسران سے اپیل کا حق بھی چھین لیا جائے۔ چنانچہ یہی ہوا اور ملک پر نا اہل افسر شاہی مسلط ہونا شروع ہو گئی۔
اہل افسران کے یوں بڑی تعداد میں نکالے جانے سے جو خلا پیدا ہوا اس کو پر کرنا ناممکن تھا سو من پسند افراد کو نوازا جانے لگا اور ناتجربہ کار و غیر تربیت یافتہ لوگوں کو ان اہم آسامیوں پر تعینات کیا جاتا رہا جس سے حالات قابو سے باہر ہوتے چلے گئے۔ نا اہل نمائندہ شاہی تو پہلے ہی مسلط تھی اوپر سے نا اہل افسر شاہی جب مسلط ہونا شروع ہوئی تو تنزلی اور پستی کی ایک ایسی رفتار شروع ہو گئی جس کے اثرات بد آج ہمیں واضح دکھائی دیتے ہیں۔
شہاب الدین رحمت اللہ صفحہ نمبر ایک سو بہتر پر لکھتے ہیں :
میں تمام امتحانات پاس کر کے انگلینڈ سے آئی سی ایس افسر بن کر ہندوستان لوٹا تو بمبئی (موجودہ ممبئی) سے امپیریل انڈین میل سے اپنے آبائی گھر روانہ ہوا جس کو آرہ نام کا ایک چھوٹا سا ریلوے اسٹیشن لگتا تھا۔ امپیریل انڈین میل آرہ نامی ایک چھوٹے سے اسٹیشن پر رکتی دیکھ کر میرے استقبال کے لیے آئے ہوئے عزیز و اقارب اور ان کے ساتھ موجود دیگر مقامی و انگریز لوگ بے حد حیران ہوئے۔ اسٹیشن ماسٹر آرہ نے آ کر مجھ سے دعا سلام کی اور افسر بن کر لوٹنے پر مبارکباد دی۔ آرہ نامی ریلوے اسٹیشن کے اسٹیشن ماسٹر نے کہا کہ امپیریل انڈین میل کا اس چھوٹے سے اسٹیشن پر آ کر رکنا اور اس میل کے لیے سگنل اپ ڈاؤن کرنا اس کی زندگی کی سب سے بڑی خوش نصیبی ہے اور شاید آئندہ زندگی بھر مجھے یہ اعزاز کبھی نہ حاصل ہو۔
امپیریل انڈین میل کو آپ آج کی افسر شاہی و نمائندہ شاہی کی وی وی آئی پی موومنٹ سمجھ لیں۔ آج ہمارے یہاں نمائندہ شاہی اور افسر شاہی کا جو پروٹوکول اور کر و فر دکھائی دیتا ہے یہ گورا صاحب کی دین ہے جو خود تو چلا گیا مگر اپنی ذہنی اولادیں ہمارے یہاں چھوڑ گیا جن کو سدھارنے کے لیے کبھی کسی نام نہاد فیلڈ مارشل، نام نہاد قائد عوام، امیر المومنین بننے کے خواہشمند، نام نہاد دختر پاکستان، روشن خیال پاکستان کے داعی، مفاہمت کے بادشاہ یا نیا پاکستان بنانے والوں نے کوئی کوشش نہیں کی۔ اگر کوششیں ہوئیں تو بس اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے یا اپنی تجوریاں بھرنے کے لیے۔
اگر ہم آج اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ہمیں اسی قسم کی ذہنیت سے واسطہ پڑتا ہے۔ ہمارے اردگرد یہی تو ہو رہا ہے۔ اپنے اپنے من پسند راہنماؤں (قطع نظر اس کے کہ وہ راہنما مذہبی ہے یا سیاسی) سے انتہا کی عقیدت رکھنا، ان کو تنقید یا غلطی سے مبرا سمجھنا، ان کی خاطر جھک جھک، بچھ بچھ جانا، ان کی ناقص کارکردگی پر تنقید کو ذاتی حملہ سمجھنا، ان کی بے جا تعریف و توصیف کرنا وغیرہ جیسے افعال جن کو خوشامد سے تعبیر کیا جاتا ہے یہ انگریز دور کے بوئے ہوئے بیج ہیں جن کو انگریز سرکار نے لوگوں کو ذہنی غلام بنانے اور بلا چوں و چراں کیے تمام احکامات چاہے وہ جائز ہوں یا ناجائز بجا لانے کے لیے بویا تھا۔
ہم نے جسمانی آزادی تو حاصل کر لی مگر کیا ہم جسمانی طور پر بھی واقعی آزاد ہیں۔ ؟ ہم نے شخصیات کے ہمالیہ کھڑے کر دیے، ان شخصیات کے پہاڑوں سے بھی بڑے بت تو تراش لیے مگر کیا ان بتوں نے ہماری کوئی مدد کی؟ ذہنی طور پر غلام لوگوں کے لیے کیا کوئی ایسا تربیتی پروگرام شروع کیا گیا جس سے ان میں خود اعتمادی پیدا ہو اور معاملات پر تنقیدی سوچ اختیار کر سکیں۔ ؟ کیا ہمارا نصاب اس قابل ہے کہ وہ ایک بچے میں خود اعتمادی اور تنقیدی سوچ کو پروان چڑھا سکے۔ ؟ کیا روز اول سے ہی اس ملک کے عوام کو سوچنے کا حق اور سمجھنے کی اہلیت دینے کے بارے کوئی عملی کام ہوا ہے۔ ؟ کیا حقائق اور حقوق سے عوام کو آگہی دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ ؟
صفحہ نمبر ایک سو اکہتر پر لکھتے ہیں :
ہندوستان میں انگریز آئی سی ایس افسران کا قال پڑ گیا، تناسب ہندوستان کے ”کالا صاحب“ آئی سی ایس افسران کا زیادہ ہو گیا تو سر فیروز خان نون بحیثیت ہائی کمشنر آکسفورڈ پہنچ گئے تاکہ آئی سی ایس افسر بننے کے لیے، وہاں زیر تعلیم انگریز نوجوانوں کے سامنے پروپیگنڈا کیا جا سکے۔ سر فیروز خان نون اپنے ساتھ آئی سی ایس کے موضوع پر ایک چھوٹی سی کتاب بھی لائے تھے جو انہوں نے وہاں کے انگریز سٹوڈنٹس سے کئی جگہوں پر خطاب کے بعد تقسیم کی۔
سر فیروز خان نون نے انگریز سٹوڈنٹس سے مختلف ملاقاتوں اور خطابات میں کہا کہ ہندوستان میں جو بھی اصلاحات ہوتی ہیں ان سے سول سروس کے افسران کے حقوق و اختیارات پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وزرا آتے اور جاتے رہتے ہیں مگر سول سروس کے افسران کے اختیارات و وقار ہمیشہ برقرار رہتا ہے۔ وزارتیں اگرچہ موجود ہیں مگر وہ سول سروس کے حقوق و اختیارات میں مداخلت کرنے کے قابل نہیں ہیں اس لیے انگریزوں کو بڑی تعداد میں آئی سی ایس کے امتحانات میں پہلے کی طرح بڑی تعداد میں شرکت کرنی چاہیے۔ ان نوجوان انگریزوں کا فرض ہے کہ وہ ہندوستان میں برطانوی راج کو تقویت دینے کے لیے آگے آئیں۔ اس سارے پراپیگنڈہ کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ انیس سو سینتیس میں بغیر کسی امتحان کے ساٹھ انگریز طلبہ آئی سی ایس میں لے لیے گئے جن کو ذمہ داریاں دے کر ہندوستان بھیج دیا گیا۔
کیا سر فیروز خان نون نے قیام پاکستان کے بعد اپنے اس اقدام کی توجیہہ پیش کی؟ کیا تاریخ لکھنے والوں نے کبھی سر فیروز خان نون کے اس ”کارنامے“ پر کبھی قلم کشائی یا لب کشائی کی؟ کیا سر فیروز خان نون جو انگریز کے اتنے وفادار تھے، پاکستان اور اس کے عوام کے ساتھ بھی اتنے ہی وفادار تھے۔ ؟ کیا سر فیروز خان نون کے ہم عصر اکابرین ان کی ان کارگزاریوں سے ناواقف تھے۔ ؟ اگر واقف تھے تو کیا ان سے کبھی کوئی باز پرس کی گئی؟ کیا تاریخ لکھنے والوں نے تاریخ لکھتے وقت اپنے مفادات سے ہٹ کر آنے والی نسلوں کو حقائق سے آگاہ کرنے کی کوشش کی؟
مختار مسعود اپنی کتاب لوح ایام میں لکھتے ہیں :
ذوالفقار علی بھٹو امریکہ کے دورے پر تھے، ہنری کسنجر سے ان کی ملاقات طے ہوئی تو ان کے دل میں یہ بات آئی کہ ہنری کسنجر کی بہترین ضیافت کی جائے۔ پاکستان خصوصی احکامات بھجوائے گئے کہ خصوصی طیارے پر تیتر اور بٹیر بھیجے جائیں تا کہ ہنری کسنجر کے بہترین اور پر تکلف کھانے کا بندوبست کیا جا سکے۔ تیتر اور بٹیر پہنچ گئے تو ان کو پکانے کی جو مہارت بھٹو صاحب کو درکار تھی وہ امریکہ میں کسی میں نہ دیکھتے تھے سو دوبارہ احکامات جاری کیے گئے اور پاکستان سے ان تیتر اور بٹیروں کو پکانے میں مہارت رکھنے والا باورچی امریکہ منگوا لیا گیا۔ مگر ہنری کسنجر ملاقات کے لیے آئے تو بنا کھانے کی طرف توجہ دیے یا تعریف کیے صرف اپنے کام سے کام رکھا، مطلب کی گفتگو کی اور روانہ ہو گئے۔
چند دن قبل سوشل میڈیا پر فرانسیسی صدر سے بھٹو کی ملاقات، فرانسیسی صدر کی جانب سے مفت جنریٹر فراہم کرنے کی پیشکش کو رد کرنے اور ایٹمی توانائی کے حصول میں مدد کے لیے فرانسیسی صدر سے مانگ، فرانسیسی صدر کا اگلے روز ایٹمی توانائی پر حیران کن مثبت رد عمل اور ملک پاکستان کے عوام کے لیے بھٹو کی قربانیوں پر مبنی ایک تحریر نظروں کے سامنے سے گزری تو مختار مسعود کا لکھا ہوا یہ واقعہ ذہن میں تازہ ہو گیا۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ اب بھی وقت ہے ماضی کے تمام مزار اکھاڑ پھینکے جائیں، اگر اکھاڑ نہیں سکتے تو ان کو بند ضرور کر دیا جائے، نئی تاریخ لکھی جائے جس میں صرف سچ شامل ہو تا کہ آنے والی نسلیں ہماری کارگزاریوں پر شک نہ کریں اور ہمارا اور ہماری نسلوں کا آنے والا کل آج سے بہتر ہو۔
- اللہ کی مرضی یا پھر انسانی نا اہلی کی بنا پر ذمہ داریوں سے فرار؟ - 26/08/2022
- وسیب ڈوب گیا - 24/08/2022
- شہاب نامہ، شہاب بیتی سے لوح ایام تک ( 2 ) - 29/07/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).