پیپلز پارٹی کا زوال، نواز لیگ کا عروج اور تحریک انصاف کا انجام


قیامت خیز گرمی میں لوڈ شیڈنگ قہر ڈھا رہی تھی۔ عوام نفسیاتی ہیجان میں مبتلا ہو چکی تھی۔ اسلام آباد میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کی پنجاب میں حاکمیت تھی۔ وفاقی حکمراں جماعت کے عہدیداران کی رہائش گاہیں عوامی غضب کی زد میں تھیں۔ نواز لیگ مقتدر قوتوں کے ساتھ مل کر ”دہرا کھیل“ رہی تھی ایک طرف وزیراعظم گیلانی کو سپریم کورٹ سے نا اہل کروایا تو دوسری جانب پاکستان کے سیاسی افق پر تیزی سے ابھرتی جماعت کے قائد عمران خان کی جانب سے لگنے والے ”فرینڈلی اپوزیشن“ کے طعنے برداشت کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کو حکومت کی مدت پوری کرنے کا موقع دیا جا رہا تھا۔ نواز شریف بہت گھاگ سیاستدان ثابت ہوئے تھے۔ زرداری حکومت کو نواز کا سہارا عوام میں تنہائی کا سبب بنا۔ کرپشن، بری گورننس، مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ پیپلز پارٹی کے لئے سیاسی مرض الموت ثابت ہوئیں۔

پنجاب کے عوام کا عمومی مزاج طاقت کو تسلیم کرنا ہے البتہ مخالف سے یہ بدلہ لے کر رہتے ہیں۔ اکثریتی صوبے کی خواندہ آبادی کو کوی راہنما یہ یقین دلا دے کہ وہ ان کا مسیحا ہے تو لوگ اندھا اعتبار کرتے ہیں۔ نواز لیگ کے مضبوط ووٹ بنک یعنی شہری تاجر اور دیہاتی کسانوں کے بیوی بچوں پر ابھی عمران خان کے موروثی سیاست کے خلاف بیانیہ کا اثر نہ ہوا تھا وہ باپ کی طرح نواز کے سپورٹر تھے۔ افراط زر نے بچو‍ں کی واحد آمدن یعنی جیب خرچ نصف اور لوڈ شیڈنگ نے نیند حرام کر رکھی تھی۔

سعودی بادشاہوں کے ساتھ شریف خاندان کی دوستی کا تاثر عام تھا۔ پنجابیوں کو یقین ہو چکا تھا کہ اگر کوی بجلی، تیل لا سکتا ہے تو وہ نواز شریف ہے۔ زرداری صاحب کی مٹھی سے پنجاب ریت کی طرح پھسلتا جا رہا تھا انہوں نے یہ بھانپ کر پنجاب کو مکمل نظر انداز کیا اور پوری قوت سندھی ووٹر کو خوش کرنے پر صرف کردی۔ عام انتخابات 2013 میں پنجابی عوام نے ووٹ کے ذریعے انتقام ”پی پی پی“ کا مکمل صفایا کر کے لیا۔ آج پنجاب کے حلقوں میں نفرت کا یہ عالم ہے کہ امیدوار الیکشن کا خرچہ دیے جانے کے باوجود پی پی پی ٹکٹ پر الیکشن نہیں لڑتے کہیں ”تیر“ کا دھبہ ان کی سیاست کا جنازہ نہ نکال دے وسطی و شمالی پنجاب میں پیپلز پارٹی ختم ہو چکی ہے۔

پنجاب میں اینٹی نواز اور پیپلز پارٹی ووٹر تحریک انصاف کو پیارا ہو گیا۔ مسلم لیگ نون پی ٹی آئی سے مقابلہ کے بعد دو تہائی اکثریت سے بر سر اقتدار آئی تو قسمت کی دیوی مہربان دکھائی دی عالمی منڈی میں تیل اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتیں کم ہو گئیں مجموعی عالمی مہنگائی میں گراوٹ اور امریکہ کے ساتھ تعلقات بہتر تھے۔ آئی ایم ایف کی شرائط پر ہونے والی مہنگائی عوام کے لئے قابل برداشت رہی اسحاق ڈار نے کرسی سنبھالتے ہی روپے کو مصنوعی سہارا دینے کے لئے ریزروز سے ڈالر نکالے اور منڈی میں جھونک دیے۔

عمران خان نے دھرنے اور احتجاج کر کے حکومت کو چھٹی کا دودھ یاد دلوا رکھا تھا۔ نواز شریف نے ایک زیرک سیاستدان کی طرح معاملہ کو سمجھا۔

حکومتی پرفارمنس کے ذریعے عوام کو اپنی جانب راغب رکھا۔ مہنگے بجلی گھر لگا کے سستی بجلی فراہم کرنا شروع کردی۔ لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا سیاسی وعدہ تو پورا ہو گیا البتہ قوم کو اس کی قیمت ہر گزرتے ماہ بجلی کے بھاری بلوں کی صورت میں چکانا پڑ رہی ہے۔ لوڈ شیڈنگ کے ستائی عوام کی نفسیاتی ضرورت پوری ہوئی تو نواز شریف کو یقین ہونے لگا اسٹیبلشمنٹ اب ان کو حکومت میں نہ آنے دے گی۔ اسحاق ڈار صاحب نے اثاثے گروی رکھے بھاری سود پر قرض لیا کچھ سی پیک سرمایہ کاری کام آئی اور ملک بھر میں ترقیاتی منصوبوں کا جال بچھا دیا۔ مجموعی قومی و انفرادی آمدن میں اضافہ ہو گیا۔ شریف خاندان نے ملکی خزانہ بادشاہوں کی طرح لٹایا۔ عمران خان کے دوسرے دھرنے کے بعد ممبران صوبائی و قومی اسمبلی شریف خاندان کے در سے بھاری ترقیاتی فنڈز کے بغیر کبھی واپس نہ لوٹے۔

نواز شریف عدالت سے نا اہل قرار پائے تو ان کے سمدھی اسحاق ڈار بھی کچھ عرصہ کے بعد عہدہ سے مستعفی ہو گئے۔ مفتاح اسماعیل وزیر خزانہ بنے تو الیکشن سال میں انہیں ڈار کا جگاڑ ستانے لگا۔ بہر طور عمدہ پرفارمنس کی بدولت اسٹیبلشمنٹ مشکل کا شکار ہو گئی۔ پی پی والوں کو اپنی جماعت چھوڑنے کے لئے اتنا مجبور نہ کرنا پڑا تھا۔ امیدوار اسٹیبلشمنٹ سے خود رابطہ کر کے مسلم لیگ کے ٹکٹ کے لئے معاملات طے کروانے کی منتیں کرتے تھے۔ عام انتخابات 2018 میں نون کے ٹکٹ کے لئے لوگ کروڑوں ہاتھ میں لئے پھر رہے تھے۔

نواز لیگی ووٹ بنک کے بچے جوان ہو کر عمران خان کے بیانیہ پر یقین کرنے لگے تھے۔ متوسط طبقہ کا تعلیم یافتہ باغی خون جب باپ کو نوکری کے لئے لیگی امیدواروں کی منتیں کرتے دیکھتا اور مریم و حمزہ کی شاہانہ زندگی سے اپنا تقابل کرتا تو عمران جیسے ”برانڈ“ کے ہوتے نواز لیگ کو ووٹ دینا اسے خاندانی غلامی لگتی۔ مریم نواز کو جماعت کی قیادت دے کر اندھا بانٹے ریوڑیاں مڑ مڑ اپنوں میں کا حقیقی مظاہرہ دکھایا جا چکا تھا۔

عمران خان نے نوجوانوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا بیوی بچے عمران کی طرف اور باپ تنہا نواز لیگ کا ہو کر رہ گیا۔ پرفارمنس اور شہباز شریف کی اچھی ایڈمنسٹریشن کی وجہ سے پھر بھی مسلم لیگ عوام میں مقبول تھی۔ محکمہ زراعت نے فیصلہ کیا اگر شریف خاندان کو حکومت دینا بھی پڑی تو دو تہائی اکثریت سے نہ دی جائے گی۔ شہباز شریف کو ”پلان بی“ کے تحت ایک صحافی کے ذریعے اچکن سلوانے کی نوید سنا دی گئی۔

عمران خان حکومت میں آتے ہی اسحاق ڈار کے بچھائے معاشی جال میں پھنس گئے آئی ایم ایف نے ڈالر مارکیٹ ریٹ پر بڑھانے کی شرط عائد کر دی۔ اسد عمر ڈٹے تو انہیں وزارت خزانہ سے ہاتھ دھونا پڑا۔ عوام کی مہنگائی سے چیخیں نکل گئیں رہی سہی کسر کرونا کے دوران لاک ڈاؤن، معاشی پہیہ جام، اور عالمی کساد بازاری نے پوری کردی تحریک انصاف کا حال پاکستان پیپلز پارٹی جیسا ہونا نوشتہ دیوار تھا کہ اچانک زرداری نواز رابطے بڑھے گلے شکوے دور ہوئے عدم اعتماد لاکر ”برادر صغیر“ کے وزیراعظم بننے کا خواب پورا کر دیا گیا۔

نواز شریف ایک دور اندیش سیاستدان کی طرح عمران خان کو معیشت کو درست سمت میں رواں کرنے کا پورا موقع دینا چاہتے تھے۔ ایسے وہ عوام کی نظروں میں خان کو غیر مقبول بھی کر دیتے اور اپنی حکومت کے دوسرے سال سے ریلیف دے کر طویل عرصہ کے لئے بیٹی کو پنجاب کی رانی بنا دیتے۔ دوسرے لفظوں میں عوام اور اسٹیبلشمنٹ کا سامنا مریم کی صورت می‍ں پاکستانی حسینہ واجد سے ہوتا۔

اللہ تعالیٰ جب کسی کا عروج زوال میں بدلتے ہیں تو عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے۔ انسان اپنا نقصان دیکھ کر بھی بربادی کے رستے پر چل دیتا ہے۔ نواز شریف انگلستان کی کھلی فضاؤں میں بے بس ہو گئے اللہ نے عمران کو ہیرو بنا دیا دو تہائی اکثریت ان کی منتظر دکھائی دیتی ہے۔

عمران خان کو جارحانہ انداز اپنا کر سردیاں شروع ہونے سے قبل یا آئندہ سال موسم گرما کے وسط تک حکومت کو سہارا دے کر شہباز شریف کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ سندھ کے غریب ہاریوں کے سامنے جاگیر دارو کے خلاف بھٹو طرز کی تقریریں کر کے اور صوبہ کے ”اسٹیبلشمنٹ مخالف ووٹر“ کو تحریک انصاف جوائن کروا کے آصف زرداری صاحب کی سپاس گزاری کی جا سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments