معصوم کلیاں



میں جب بھی کاریڈور سے گزرتی تو وہ ہمیشہ کی طرح کلاس کے باہر کھڑی دکھائی دیتی، مجھے دیکھ کر سر جھکانے کے بجائے ہنسنے لگتی کہتی رہتی، وہ اپنی باتیں کہتی رہتی اور میں سنتی رہتی۔

پوچھنے کا کوئی فائدہ ہی نہیں تھا کہ باہر کیوں کھڑی ہو، اس میٹرک کلاس کی لڑکی کو ٹیچر نے اونچی قمیض پہننے کی پاداش میں کلاس سے باہر نکالا ہو گا، اور عرشیہ تھی کہ معاملے کی سنگینی کو سمجھنے کے بجائے ایڈوینچر بناتی جا رہی تھی۔

میں تعصب سے دیکھتی ہوئی چلی جاتی میری کلاس میں ہمیشہ تمیز کے ساتھ بیٹھتی تھی۔
” بقول اس کے میم میں آپ کو ہرٹ نہیں کرنا چاہتی“ ۔
میرے ہر سوال کے جواب میں یہ ہی بات ہوتی تھی۔

وقت گزرتا گیا عرشیہ اور اس کے گروپ کی شرارتیں بڑھتی چلی گئیں یہاں تک کے اس کے پیرنٹس کو بلا لیا مگر وہ پڑھے لکھے ہونے کے باوجود عرشیہ کی غلطی ماننے کے لئے تیار نہیں تھے یہاں تک کہ اس کے بزنس مین باپ نے اسکول انتظامیہ کو لکھ کر دے دیا۔

” ہماری بیٹی یونیفارم پر چھوٹی قمیض پہن کر آئے تو ہم کو کوئی اعتراض نہیں، یونیفارم تو سہی ہوتا ہے“ ۔

ہم سب کیا کرتے افسوس سے سر ہلا کر رہ گئے۔

میٹرک کی کلاسیں ختم ہونے والی تھیں الوداعی پارٹی جو ہر سال دی جاتی تھی وہ بھی قریب آ گئی عرشیہ میرے پاس آئی۔

” میم آپ سے بات کرنی ہے“ ۔
کیسی بات میں نے اسے حیران ہو کر دیکھا۔
” میرا پورا گروپ نہیں آ رہا لیکن میرا دل چاہ رہا ہے میں آنا چاہتی ہوں“ ۔
میں چپ کر کے اس کی بات سن رہی تھی۔
” میں جلدی چلی جاؤں گی ویسے بھی ساری ٹیچرز مجھ سے ناراض ہیں“ ۔
اس نے عجیب سے انداز میں کہا تو میں نے ہنس کر کہا آ جاؤ کس نے روکا ہے۔
الوداعی پارٹی اپنے عروج پر تھی تبھی سیکیورٹی گارڈ کی طرف سے کال آئی۔
” میم آپ ایک منٹ کے لئے گیٹ پر آئیں گی“ ۔

تو میں حیران رہ گئی اپنی جگہ سے اٹھ کر گیٹ کی طرف گئی تو عرشیہ مجھے دکھائی دی جو بہت برے حال میں تھی۔

” کیا ہوا تمہیں کیا حال بنایا ہوا ہے“ ۔

میں نے جھپٹ کر اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے گیٹ کے اندر گھسیٹ لیا تبھی ایک گاڑی تیزی سے اسکریچ مارتی چلی گئی، میں نے اس کو گارڈ کی کوٹھڑی میں بٹھایا وہ تھر تھر کانپ رہی تھی۔

” کیا بات ہے عرشیہ مجھے بتاؤ“ ۔
میں نے اس کے باریک کپڑوں سے نگاہیں چراتے ہوئے کہا تو وہ مجھ سے لپٹ گئی۔
” میم زینی مجھے بچا لیں میں اکیلے نہیں جا سکتی“ ۔
وہ رو رہی تھی۔
” تمہارے امی ابو کہاں ہیں“ ۔
میں نے پریشان ہو کر پوچھا۔

” امی تو کلینک میں ہیں اور ڈیڈی دوستوں کے ہاں ہوں گے اور یہ جو لڑکے آپ نے جاتے ہوئے دیکھے ہیں وہ سب جانتے ہیں یہ وہاں بھی آ جائیں گے ان میں سے ایک میرا بوائے فرینڈ ہے راشد نام ہے اس کا ہماری کافی اچھی دوستی تھی لیکن آج مجھے معلوم ہوا میرے اپنے گروپ کی سازش تھی کہ انہوں نے اپنی عزت بچانے کے لئے میری عزت کا سودا کر دیا میم میں شرارتی ضرور ہوں مگر بھلے برے کا احساس ہے مجھے میں اپنے خاندان کی عزت مٹی میں نہیں ملا سکتی اور میری دوستوں نے اپنی بیہودہ وڈیوز لینے کی خاطر اپنے اکیلے گھر میں بلا لیا میں کس طرح جاں بچا کر بھاگی ہوں وہ میں ہی جانتی ہوں، جانے کو میں ماما کی کلینک چلی جاتی مگر وہ میرا مسئلہ سمجھ ہی نہیں پاتیں اور مجھے ہی قصوروار ٹھرا دیتیں اس لئے میں یہاں آ گئی مجھے یقین تھا کہ آپ مجھے بچا لیں گی“ ۔

اس کی بات مکمل ہوئی تو میری رکی ہوئی سانسیں بحال ہوئیں۔

میں نے گارڈ سے خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور اسے گاڑی میں بٹھا کر گھر لے آئی ابھی حسن بھی نہیں آئے تھے میں نے عرشیہ کو منہ ہاتھ دھونے کا کہا اور پھر اس کے ماں باپ کو کال کی۔

” آپ کی بیٹی کو آپ کی ضرورت ہے جتنی بھی مصروفیت ہو اسے ختم کر کے یہاں آ جائیں ورنہ شاید آپ کو پچھتانے کا بھی موقع نا ملے“ ۔

میں نے گھر ایڈریس بتا کر موبائل بند کر دیا، حسن بھی آ گئے تھے۔
” زینی یہ نازک معاملات ہوتے ہیں اگر انہوں نے تمہارے اوپر الزام لگا دیا تو کیا ہو گا۔

وہ بہت پریشان تھے ایک گھنٹہ ہی گزرا تھا کہ عرشیہ کے ماں باپ پہنچ گئے اس کی ماں بہت مشہور ڈاکٹر تھیں اور باپ بھی بہت نام والا تھا۔

” کیا ہو گیا عرشیہ کو“ ۔
انہوں نے پوچھا تو وہ ان سے لپٹ گئی۔
خود اس نے ساری بات سنائی۔

” ہم آپ کے بہت احسان مند رہیں گے آپ نے ہماری بیٹی کو بچا لیا، بس اب یہ صرف ایگزیم دینے آئے گی اسکول تو ختم ہی ہو چکا ہے۔

اس کے باپ نے کہا تو میں نے بے اختیار پوچھا۔
ایک سوال میرا عرشیہ کی ماں سے ہے تو وہ عرشیہ کا ہاتھ تھامے جاتے ہوئے رک گئیں۔

” کیا آپ کو کبھی بیٹی نظر نہیں آئی وہ کہاں جاتی ہے کیا کرتی ہے کیسے کپڑے پہنتی ہے کیسے دوست ہیں اور آج جو اس نے ڈریس پہن کر رکھا ہے کیا یہ کوئی لڑکی پہن سکتی ہے“ ۔

بلیک اسٹریپ کے اسکرٹ بلاؤز میں بغیر آستینوں کے وہ کومل سی کلی دکھائی دے رہی تھی تو ان کی نگاہیں جھک گئیں۔

” بس میری آپ سے یہ ہی درخواست ہے کہ آپ عرشیہ کا خیال رکھیں اسے ٹائم دیں یہ مال دولت کمانے کا فائدہ نہیں جب اولاد خوف کی زندگی گزارے“ ۔

وہ دونوں خاموشی سے میرے گھر سے چلے گئے۔
حسن نے مجھے کافی لمبا لیکچر دیا میں چپ چاپ سنتی رہی۔
مجھے خوشی تھی کہ میں نے ایک لڑکی کو رسوا ہونے سے بچا لیا۔

عرشیہ امتحان دینے آئی اس کا ڈھنگ کا یونیفارم تھا، آخری روز وہ میرے پاس آئی اس نے میرے ہاتھ تھام کر خاموشی سے بہت سارے آنسو بہا دیے۔

” میم اگر آپ نا ہوتی تو عرشیہ کے ماں باپ کو کبھی ہوش نا آتا کہ ان کی ایک بیٹی بھی ہے جس سے ان کی ضرورت ہے اب مجھے سب مل گیا ہے بابا نے ان لڑکوں کو گرفتار کروا دیا ہے، امی گھر جلدی آنے لگی ہیں اب مجھے کسی دوست کی بھی ضرورت نہیں ہے اور مجھے اب ڈر بھی نہیں لگتا اور کوئی یاد بھی نہیں آتا اس نے میرے ہاتھ چومے۔

” میم میری دعا ہے آپ ہمیشہ خوش رہیں اور ہم جیسی لڑکیوں پر طعنے کسنے کے بجائے ان کے مسائل سمجھ کر اپنے جیسا بنا دیں، میرا ایڈمیشن دوسرے کالج میں ہو رہا ہے آپ یقین رکھیں میں کبھی نہیں بھٹکوں گی، کیونکہ ہر جگہ آپ نہیں ہوں گی لیکن میں زندگی کو بہت اچھا گزاروں گی اور مجھے کوئی کبھی اپنے جیسی مل گئی تو اس کے لئے میں آپ جیسی بن جاؤں گی، چپ چاپ مدد کرنے والی بالکل ماں کی طرح“ ۔

وہ جاتے جاتے مڑی اور میرے سینے سے آ لگی، میرا دل اللہ کے حضور سجدہ ریز ہونے لگا جس نے مجھے یہ عزت بخشی کاش دوسرے بھی اپنی عزت بچانے کے کے ساتھ ساتھ دوسروں کی عزت کا بھی خیال رکھیں تو ہمارا معاشرہ آئے دن کی زیادتیوں پر سوال اٹھانے کے بجائے خوشگوار ہو جائے اور لڑکیاں بے خوف اپنی زندگی جی سکیں۔

بس اس سے زیادہ میں نے کچھ نہیں چاہا اور مجھے یقین ہے کہ جتنے برے لوگ ہیں اس سے کہیں زیادہ اچھے لوگ بھی دنیا میں موجود ہیں جو دوسروں کی عزتوں کی خاطر جان دے سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments