سیاسی گتھم گتھا میں یونیورسٹیوں کا حشر نشر


اپنی قوم کے شوق تو ہمیشہ نوابوں ہی والے ہوئے وہ الگ بات ہے کہ نواب بڑھتے جا رہے ہیں اور ریاستیں ہیں سکڑنے کے درپے۔ نوابی کا یہ عالم کہ، ہر شہر میں ایک دانش گاہ ہوں، اور ہر دانش گاہ میں سینکڑوں پی ایچ ڈی۔ یونیورسٹیوں کا قیام بری بات نہیں بشرطیکہ یونیورسٹیوں میں آئیوڈین اور آئرن کی کمی نہ ہو اور آکسیجن بھی برابر ملے۔ اگر جامعاتی دانشوروں کی طبع نازک پر گراں نہ گزرے تو یہ عرض کر ہی دیں کہ زیادہ تر پی ایچ ڈی خالی برتن ہیں، جو کھڑکتے زیادہ ہیں اور ان کے اندر خلا ہیں آسیب کے سایوں جیسے۔ آسیب کے سائے سے منیر نیازی یاد آ گئے :

منیرؔ اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ

یونیورسٹیاں زیادہ بنانا جرم نہیں تاہم یونیورسٹیوں کو یتیم رکھنا جرم ہے۔ مختلف نئی یونیورسٹیوں کو مختلف خصوصیت دیں کہ شیروں اور یونیورسٹیوں کو آپس میں کام رہیں اور اپنا ایک منفرد مقام ہو، جس ملک کی یونیورسٹیاں انڈسٹریل لنکس، آنٹر پرنیورشپ، کمیونٹی سینٹرز، قابل استعمال تحقیق اور کنسورشیم کے رواج اور محققین کے رویوں کو جلا بخشنے کا انتظام و انصرام رکھتی ہوں وہاں قسمت کی دیوی ہمیشہ مہربان ہوتی ہے، اور ریاست کے دیوالیہ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، سمجھیں جہاں یونیورسٹیاں دیوالیہ ہیں وہاں ملک بھی دیوالیہ ہوتے ہیں۔

گویا دیوالیہ یونیورسٹی مطلب ’نو یونیورسٹی‘ ۔ جدید دور کی یونیورسٹیوں کا کام کھلانا ہے کھانا نہیں۔ امریکہ اپنی ساڑھے پانچ ہزار یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں کے بل بوتے پر عالمی چوہدری ہے صرف آتش و آہن کا ساز و سامان بیچنے کی بنیاد پر پوری دنیا کا حکمران نہیں بنا بیٹھا۔ ہمارا المیہ یہ کہ ہماری یونیورسٹیاں پیرا سائٹس اور مغرب سمیت ترقی یافتہ ممالک کی یونیورسٹیاں شجر سایہ دار اور پھلدار ہیں۔ ہمارے ہاں تعلیم و تحقیق پراڈکٹس نہیں بیچتے، نہ آئیڈیاز کو جنم دیتے ہیں، بس سیاست کا پلے گراؤنڈ بنتی ہیں یا اقربا پروری کے اڈے۔

پنجاب میں یونیورسٹیوں کے لیول پر وائس چانسلرز اپنی نوابی، برادری، راجپوت ازم، جٹ ازم اور ارائیں ازم کو تحقیق پر فوقیت دیتے ہیں۔ بدقسمتی یہ کہ 2002 کے بعد جید سائنسدان وائس چانسلرز بھی کچھ ایسے نواب بنے کہ سارا عملہ ایک گاؤں سے بسیں بھر بھر کر آنے لگا، کہیں سرائیکی کہتے ہیں پنجابی وائس چانسلر کیوں ہے اور کہیں پختون کو اردو اسپیکنگ پر اعتراض ہے جیسے یونیورسٹیاں نہیں یونین کونسلیں ہوں۔ ایک یونیورسٹی پروفیسر انٹرنیشنل یا نیشنل سناریو سے باہر سوچے تو وہ پروفیسر ہی کیا ہوا؟

پیرے بنتے رہتے ہیں، کرپشن ہوتی رہتی ہے، اوور ٹائمز پر کوالٹی کو ذبح کرنا معمول بن چکا ہے، سیکرٹری ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹس من پسند کھیل کھیلتے رہتے ہیں، خازن اور رجسٹرار مل کر پروفیسروں کی عزت نفس سے کھیلتے رہتے ہیں، چانسلرز کے پرنسپل سیکرٹری الگ نمبردار ہیں، کہیں صحافی چارج دلواتے ہیں، کہیں ٹی وی تجزیہ کار وائس چانسلرز کی پشت پناہی کرتے ہیں مگر ایسے لوگ کم ملتے ہیں جو خالصتاً علمی امور اور تحقیقی کاموں کی آبیاری کرتے نظر آئیں۔

کوئی بتائے گا کہ، فلاں لاء کالج نے حکومتی و عدالتی مدد کی اور عدالتی تاریخ کے بلنڈرز پر پی ایچ ڈی کر کے قوم کی آنکھیں کھولیں یا سینڈیکیٹس کو کرائم سنڈیکیٹس بنانے کی راہ میں رکاوٹ بننے والے مقالے لکھے؟ کسی آئی ای آر اور ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں ٹریننگ کے لئے آنے والے نئے لیکچررز کی لائنیں لگی ہوں؟ کسی انجنئیرنگ یونیورسٹی کے باہر ملٹی نیشنل کمپنیاں ٹیلنٹ ہنٹ کرنے کے لئے کھڑی ہوں جبکہ ٹیلنٹ کا یہ عالم ہے امریکہ فل برائٹ اسکالر شپ پاکستانیوں کو دینے کے لئے بے قرار رہتا ہے مگر ہماری حکومتیں اور پالیسیاں برین رٹین کے بجائے دن رات ٹیلنٹ کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے برین ڈرین کی مدد کرنے میں پیش پیش ہیں!

چار دن کی چاندنی سے حمزہ شہباز شریف بھی چپکا رہا مگر دو دو بار دو دو دن کے لئے کابینہ بنائی جس میں وزیر تعلیم دور دور تک نظر نہ آیا، دیکھتے چوہدری پرویز الٰہی سابق وزیر تعلیم میاں عمران مسعود کو مشیر بناتے ہیں یا سابق وزیر ہائر ایجوکیشن راجہ یاسر ہمایوں سرفراز کو وزارت کا قلم دان سونپتے ہیں یا سدا کے جہیز میں ملے اپنے ”پرنسپل سیکرٹری“ محمد خان بھٹی ہی کو سب سونپ دیتے ہیں!

مرکز سے ایک اچھی خبر ضرور ملی ہے، دیر آید درست آید کے مصداق وفاقی وزیر برائے ایجوکیشن اینڈ پروفیشنل ٹریننگ رانا تنویر حسین نے سابق چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر مختار احمد کو پھر سے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرپرسن کا عہدہ سونپ کر، وزیراعظم اور کیبنٹ نے منظور فرما کر ایک مستحسن فیصلہ کیا ہے، لوگ ڈاکٹر مختار کو پسند کرتے ہیں، امید ہے کہ ان رجحان، معیار اور تعلیم دوستی کا گراف اوپر جائے گا، اور وہ بھول جائیں گے کہ، لوگوں نے ان سے خواہ مخواہ دشمنی بھی کبھی کی تھی۔

بہرحال پنجاب کی کچھ یونیورسٹیاں سیاسی کشمکش کے سبب اپنے وائس چانسلرز بزدار حکومت سے نہ پا سکی اور نہ حمزہ اینڈ کمپنی سے۔ کہیں یونیورسٹیاں عہدوں کے اعتبار سے مناپلیوں کا شیش محل بنی ہیں تو کہیں گروپوں کا تاج محل، کہیں وی سی ایسا وائسرائے ہے کہ پی وی سی نہیں لگنے دیتا اور کہیں پی وی سی۔ وی سی کو نہیں جینے دیتا۔

المختصر، جب سے یونیورسٹیوں کی منڈی لگی ہے ہر پروفیسر کھوکھلی اور خالی ریسرچ دے دے کر اور ہر طالب علم کے ریسرچ پیپر میں چھپ چھپ کر، ردی کے کاغذوں کی چوٹی پر کھڑا ہو کر اونچا ہونے کے درپے ہے کہ وی سی بن سکے۔ ان حرکات کے سبب بڑے بڑے پروفیسروں کی سیاست دانوں، بیوروکریسی اور طلبہ کے آگے ٹکا ویلیو نہیں، کہ یہ پلیجرزم کے بیوپاری کھوکھلی تعلیم فروشی سے روپے کمانے یا عہدہ پانے کے علاوہ کوئی تمنا نہیں رکھتے، ’پکڑے‘ جانے یا منتیں کرنے کی پاداش میں بیوروکریسی کے سامنے ایسی کھلی کتاب بن چکے ہیں کہ رہے نام اللہ کا۔ اس میں شک نہیں کہ ایچ ای ڈی کا سیکرٹری یا ایڈیشنل سیکرٹری تو دور کی بات سیکشن افسرز اور کلرک ہی یونیورسٹیوں کے لئے ”می لارڈ“ بنے ہوئے ہیں۔

پلیجرزم، برادری ازم، اقربا پروری، من مانی، غیر مفید ریسرچ، سوشل سائنسز سے دوری، میرٹ کا قتل، سیاسی مداخلت۔ یہ تو ہمارا تعلیمی عشق ہے ملک دیوالیہ کیوں نہ ہو؟ لوڈشیڈنگ کیوں نہ ہو؟ امپورٹ کیوں نہ بڑے؟ جعلی رویے کیوں نہ بڑھیں : حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں / مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں۔ جتنا یونیورسٹیوں میں جھوٹ بکتا ہے اتنا ہی (مگر ذرا کم) سیاست میں بکتا ہے۔

اب دیکھنا ہے پرویزالٰہی حکومت یونیورسٹیوں کا کیا حشر کرتی ہے اور وفاق ہائر ایجوکیشن کمیشن کو کیسے سنوارتا ہے، سائیں بزدار بے چارہ تو سیدھا آدمی تھا اس نے یونیورسٹیوں اور تعلیم و تحقیق پر بھری پھیرنے کے لئے کزن بھائی رکھے ہوئے تھے۔ کے پی چانسلر کے خلاف بھی زمانہ ماتم کناں ہے، سندھ اور بلوچستان کی کہانی پھر سہی مگر جناب چانسلر پنجاب نے جو ایک آدھ دستخط کیے ہیں، انہوں نے کیے نہیں کروائے گئے ہیں۔ اس پر آج تو فقط اتنا ہی کہنا ہے کہ :

شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے ​
ہمیں خبر ہے لٹیروں کے ہر ٹھکانے کی

ہم نے مانا کہ بانی چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر عطاء الرحمٰن نے محققین کو پی ایچ ڈی اور ریسرچ کی راہ پر درست لگایا ہو گا مگر اپنے محققین حرص و ہوس کی شاہراہ پر چل نکلے، اجی، کامسیٹ کے ایک استاد نے ایک سال میں پونے چار سو پیپر چھاپ مارے، جانے یہ پریکٹیکل جوک ہے یا جرم؟ پنجاب کی وی سی سرچ کمیٹی میں وہ وہ نمونے بٹھائے گئے جو ایک ٹیچر تو ہو سکتے ہیں مگر خود کو آئن سٹائن اور نیوٹن سمجھ بیٹھے، ہم تو آج تک یہ نہ سمجھے بزدار حکومت ایک سابق پرنسپل کم وائس چانسلر جی سی یونیورسٹی لاہور ڈاکٹر خالد آفتاب سے کیا کرانا چاہتی تھی، شاید سابق وزیر تعلیم راجہ یاسر ہمایوں کو معلوم ہو، پورے پنجاب یا پاکستان میں اور کسی کو معلوم نہیں۔

اللہ نہ کرے پھر کوئی ڈاکٹر عارف بٹ بھی آ جائے۔ مابدولت! جس مرضی بٹ یا جٹ کو لائیں تاہم میرٹ یا کوئی اصول بھی ایک آدھ سرچ اور سلیکشن کمیٹیوں یا سنڈیکیٹس میں ہونا چاہیے کہ گلشن کا کاروبار چلے۔ سنڈیکیٹس میں جب تک ایجنڈا پڑھ کر آنے والے نہیں آئیں گے تب تک ہائر ایجوکیشن سے انصاف بھی عالم میں 128 ویں نمبر والا ہی ملے گا۔ سیاست اور فریب کے میدان میں یونیورسٹیوں اور پاکستانی سیاست کا کانٹے دار مقابلہ ہے، دیکھتے ہیں جیت کس کا مقدر بنتی ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments