پاکستان میں ریپ کیسز کیوں بڑھ رہے ہیں؟


ریپ کیسز کے حوالے سے ہفتے میں دو یا تین یا اس سے بھی زیادہ خبریں الیکٹرانک میڈیا اور اخبارات میں دیکھنے اور سننے کو ملتی ہے۔ کہ فلاں جگہ پہ ایک نو عمر لڑکی کی لاش ملی جسے ملزم نے زیادتی کے بعد قتل کر دیا۔ خیبر پختونخوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور میں تین ہفتوں کے دوران مبینہ طور پر ریپ کے تین واقعات پیش آئے۔ جس میں دو بچوں کو ریپ کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔ اس واقعات کے بعد پورے علاقے میں خوف کی فضا پیدا ہوئی ہے۔ اور علاقے کے عوام اپنے بچوں کو اکیلے گھر سے باہر نہیں جانے دیتے۔ پاکستان میں ریپ کیسز میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ چھ سالوں میں 22 ہزار سے زائد ایسے واقعات پولیس کو رپورٹ ہوئے ہیں رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر روز کم از کم 11 عصمت دری کے جرائم رپورٹ ہوتے ہیں۔ یہ ایک سنگین مسئلہ بن گیا ہے اس پر بات کرنا، لکھنا بہت ضروری ہے۔

اس رپورٹ کو پڑھنے کے بعد سوالات تو بہت پیدا ہوتے ہیں لیکن بنیادی سوال یہ ہے۔ کہ ریپ یا عصمت دری کے واقعات کیوں بڑھ رہے ہیں؟ اس سوال کا آسان اور دو ٹوک جواب دینا تو ناممکن ہے لیکن اگر ہم اس کا فلسفے کے اصولوں کے یا فلاسفرز کے موقف کو سامنے رکھ کے تجزیہ کریں تو ہم اس ناممکن سوال کو ممکن بنا سکتے ہے۔ سگمنڈ فرائیڈ ایک آسٹرین نیورولوجسٹ اور ماہر نفسیات کے بانی تھے۔ وہ لکھتے ہے کہ خواب ناآسودہ جنسی خواہش سے پیدا ہوتی ہے۔

یہ ناآسودہ خواہشات دماغ کے جسمانی حصے میں جنم لیتی ہیں یہ خواہشات متحرک بنتی ہیں اور پھر ایسا خواب دیکھا جاسکتا ہے۔ جو جنسی خواہش کی تکمیل یا اظہار کی حیثیت رکھتا ہو۔ سگمنڈ فرائیڈ کا یہ کہنا ہے کہ جو خواہش بیداری میں شعور کی سطح پر آنے سے ڈرتی ہے وہ لاشعور میں جاکر چھپ جاتی ہے اور خواب میں نظر آتی ہے مطلب بیداری میں ڈر انہیں شعور کی سطح پر آنے سے روکتا ہے۔ یہ ڈر روک کا کام کرتا ہے۔ اب سوال کو سمجھنا میرے خیال میں تیس فیصد آسان ہو گیا۔

اس لیے کہ یہ خواہش بیداری میں شعور کی سطح پر آنے سے ڈرتی ہے اور یہ ”ڈر“ اصل میں رسم و رواج کا ”ڈر“ ہوتا ہے۔ یہ تو سگمنڈ فرائیڈ کا نظریہ تھا۔ ایک اور فلسفی سید محمد تقی نے فرائیڈ کے اس نظریے کے بارے میں اپنے کتاب میں لکھا ہے کہ سگمنڈ فرائیڈ کا یہ خیال یا نظریہ جزوی طور پر درست ہے مگر کلی طور پر نہیں تقی نے لکھا ہے کہ فرائیڈ نے ساری بات خواہش پر رکھی ہے۔ سید محمد تقی کے مطابق خواہش کوئی مادی حقیقت نہیں بلکہ جسمانی تقاضے سے ابھرتی ہیں تقی صاحب نے مزید لکھا ہے یہ جنسی جذبہ یا خواہش مادہ منویہ کے پیدا ہونے اور جسم سے خروج کا تقاضا کرنے کی حقیقت سے جنم لیتا ہے۔

اور دوسرا خارجی اسباب و محرکات بھی جنسی جذبہ کو بھڑکانے کا باعث بنتے ہیں یہاں لفظ خارجی کا مطلب انسان کا باہر کی دنیا مطلب معاشرہ، سماج جہاں پہ وہ رہتا ہے۔ ان دو شخصیات کے باتوں سے اب سوال ممکن، اسان ہو گیا جس طرح خارجی دنیا کا ذکر میں نے کیا تو بہت سے لوگ ریپ کیسز میں عورت کو قصوروار ٹھہراتے ہیں۔ اور اس قسم کے جواز سامنے لاتے ہیں کہ اس خاتون کی لباس درست نہیں تھی اس لیے اس کے ساتھ زیادتی ہوئی۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے اور ریپ کا ہر وہ کیس جو پاکستان میں ہوا ہے اس کے بعد ایک ہجوم نے اس قسم کی باتیں شروع کیے۔

اس سے ہوتا کیا ہے کہ جرم کا شدت کم ہوجاتا ہے۔ ایسا نور مقدم کے واقعے کے بعد ہوا تھا۔ بہت سے لوگ یہی کہتے تھے کہ وہ گھر سے کیوں اکیلی باہر نکلی یا وہ مردوں سے کیوں ملتی تھی۔ لیکن فلاسفرز نے یہ بھی لکھا ہے۔ کہ اس خارجی محرکات مطلب معاشرتی محرکات پہ قابو پانے کا عمل رہبانیت کہلاتا ہے اور اس کے تابع ہونے کا عمل عیاشی۔ اس سے یہ بات ظاہر ہوئی کہ خارجی محرکات پر درجہ بدرجہ قابو پا لینا ممکن ہے۔ ریپ کے واقعات کے بعد جو لوگ عورت کو قصوروار ٹھہراتے ہیں وہ تو فلسفی نے واضح کیا کہ خارجی محرکات پر قابو پا لینا ممکن ہے اور میرے خیال میں لوگوں کا یہ کہنا درست نہیں ہے کہ عورت کی غلط لباس کی وجہ سے ریپ کیسز بڑھتے ہیں۔

یہ تو سادہ سا منطقی بات ہے کہ انسان میں شعور اور عقل دونوں موجود ہے۔ مطلب انسان کے پاس شعور اور عقل دونوں ہے۔ حیوان میں صرف عقل ہوتا ہے شعور نہیں پھر حیوان یہ نہیں سمجھتا کہ میں کہا پہ خوراک کرو یا کہا پہ پیشاب یا کس جگہ پہ جنسی عمل کرو کیونکہ اس کے پاس شعور نہیں ہے تو یہ بات بالکل غلط ہے کہ ریپ کیسز عورت کی لباس چال چلن کی وجہ سے بڑھتے ہے۔ ریپ کیسز کیوں بڑھ رہے ہیں اس سوال پہ میں نے جو باتیں کی فلاسفرز کے جو دلائل پیش کیے امید ہے بہت سے لوگ سمجھ گئے ہوں گے اور میرے ان باتوں سے ان کو جواب بھی ملا ہو گا۔

ریپ کیسز کیوں بڑھ رہے ہیں ان ساری باتوں کو کرنے کے بعد میں اس سوال کا جواب اور بھی آسان لفظوں میں دیتا ہوں۔ تاکہ لوگ باآسانی سمجھ سکیں۔ سگمنڈ فرائیڈ نے ڈر کے بارے جو کہا تھا اس بارے میں یہ کہوں گا کہ یہاں پاکستان میں قانون مضبوط نہیں ہے قانون مضبوط نہ ہونے کی وجہ سے وہ ڈر ختم ہو گیا ہے۔ یہ تو سادہ سی بات ہے کہ جہاں پہ قانون کمزور ہو وہاں پہ جرائم کی شرح زیادہ ہو گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قانون کو مضبوط کیا جائے مطلب جو قوانین موجود ہے اس پر بروقت عمل کرنا اور ملزم کو کیفر کردار تک پہنچانا یہی وہ طریقہ ہے جس سے معاشرے سے تمام برائیاں ختم ہو سکتی ہیں۔

 

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments