کچھ ابارشن کے بارے میں


لکھاری: ڈاکٹر خضر شمیم اور ڈاکٹر لبنیٰ مرزا

جولائی 2022 میں امریکی ریاست اوہایو میں ایک دس سالہ حاملہ بچی کے کیس نے بین الاقوامی سطح پر بحث چھیڑ دی جس کو امریکی سپریم کورٹ کے اسقاط حمل کے حقوق سلب کر لینے کے بعد ضروری علاج حاصل کرنے کے لیے انڈیانا لے جانے کی ضرورت پیش آئی۔ قدامت پسند حلقوں، ری پبلکن پارٹی اور فاکس نیوز چینل نے شروع میں اس خبر کی صداقت پر شبہے کا اظہار کیا لیکن اس کے بعد جلد ہی ڈی این اے کی مدد سے مجرم کی شناخت ہوئی اور اس کو گرفتار کر لیا گیا۔

اس خبر کے سطح پر آنے کے بعد ان لیڈی ڈاکٹر کے خلاف منصوبہ بندی کی گئی جنہوں نے اس بچی کا علاج کیا تھا، جو کہ ناکام ثابت ہوئی۔ صدر بائیڈن نے اس کیس کے سامنے آنے کے بعد اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں، دس سالہ بچیوں کی حمل اور بچے کی پیدائش کے دوران شدید پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ ان میں موت کی شرح بھی خطرناک حد تک ہے۔

اسقاط حمل مختلف سماجی حلقوں میں آج کل گفتگو کا ایک گرما گرم موضوع ہے۔ یہ مضمون ہمارے وقت کے سب سے زیادہ متنازعہ مسائل میں سے ایک کے بارے میں آپ کے تمام بنیادی سوالات کا جواب دینے کی کوشش کرے گا۔ یہ مضمون اس بارے میں معلومات بھی فراہم کرے گا کہ اس وقت امریکہ اور دیگر ممالک خاص طور پر پاکستان اور ہندوستان میں کیا ہو رہا ہے؟

ڈاکٹر خضر شمیم

اسقاط حمل کیا ہے؟

جب بچے کی پیدائش کو روکنے کے لیے حمل کو ختم کیا جاتا ہے تو اسے اسقاط حمل کہا جاتا ہے۔
اسقاط حمل کی مختلف اقسام کیا ہیں؟
اسقاط حمل دو اہم شکلوں میں آتا ہے :
اصطلاح ”طبی اسقاط حمل“ سے مراد حمل کو ختم کرنے کے لیے دوا کی گولیوں کا استعمال ہے۔
سرجیکل اسقاط حمل جیسا کہ نام سے پتہ چلتا ہے حمل کو ختم کرنے کے لیے سرجری سے کیا جاتا ہے۔

کیا اسقاط حمل محفوظ ہے؟

زیادہ تر خواتین میں مناسب ڈاکٹروں اور نرسوں کے کیے ہوئے اسقاط حمل کے بعد کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ اسقاط حمل ماہر ہاتھوں میں انتہائی محفوظ ہوتا ہے۔ لیکن کسی بھی دیگر طبی یا جراحی طریقہ کار کی طرح اسقاط حمل کے نتیجے میں پیچیدگیاں ممکن ہیں۔ تاریخ کے مطالعے سے ہم دیکھتے ہیں کہ قانون میں تبدیلیوں سے اسقاط حمل کی تعداد میں کوئی تبدیلی نہیں دیکھی گئی۔ جب اسقاط حمل غیر قانونی ٹھہرایا جائے تو غیر محفوظ اور پچھلی گلیوں میں ہونے والے علاج سے ماؤں میں موت اور بیماری کی شرح میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

اسقاط حمل کی ممکنہ پیچیدگیاں کیا ہیں؟

ناتجربہ کار افراد کے ہاتھوں صاف ستھرے آلات کے بغیر غلط طریقے سے کیے گئے اسقاط حمل کے نتیجے میں رحم کو نقصان پہنچ سکتا ہے انفیکشنز ہو سکتی ہیں اور بہت زیادہ خون بہہ سکتا ہے جو خواتین کی جان کو خطرے میں ڈال سکتا ہے اور اس کے بعد کے حمل پر اثر ڈال سکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں بانجھ پن بھی پیدا ہو سکتا ہے۔

اسقاط حمل سے متعلق امریکہ میں کیا ہو رہا ہے؟

ڈوبس بمقابلہ جیکسن ویمن ہیلتھ آرگنائزیشن کے کیس کے بعد 24 جون 2022 کے فیصلے میں امریکی سپریم کورٹ نے اسقاط حمل کے آئینی حق کو ختم کر دیا۔ یہ ایک انتہائی اہم فیصلہ ہے کیونکہ اس سے خواتین کے وہ حقوق سلب ہو گئے ہیں جو ملکی قوانین کے لحاظ سے امریکہ میں پچھلے پچاس سال سے رائج تھے۔ مختلف ریاستیں اب اسقاط حمل کے بارے میں قوانین کی ذمہ دار ہوں گی۔ ان میں کئی قدامت پسند ریاستوں میں پہلے سے ہی اسقاط حمل کے خلاف قوانین موجود تھے جو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حرکت میں آ گئے۔ ڈوبس کے فیصلے کے سب سے فوری نتائج تقریباً نصف ریاستوں میں اسقاط حمل کی سہولیات کی بندش ہیں۔ Wade۔ Roe v کو ختم کرنے کے بعد کچھ ریاستوں میں ”ٹرگر قوانین“ نافذ کیے گئے۔ Roe سے پہلے اسقاط حمل سے متعلق ”زومبی“ قانون سازی دوسری ریاستوں میں منظور کی گئی تھی لیکن اسے کبھی رد نہیں کیا گیا۔

یہاں اس بات کا ذکر اہم ہے کہ امریکی سپریم کورٹ میں یہ فیصلہ کرنے والے جج کیتھولک عیسائی ہیں۔ اسقاط حمل میں کمی برتھ کنٹرول تک آسان رسائی سے ممکن ہے لیکن یہ جج کیتھولک عیسائیت کے مطابق کسی بھی وجہ سے بچوں کی پیدائش کو روکنے کے بھی خلاف ہیں۔ دس سالہ حاملہ بچی کے کیس کے سامنے آنے کے باوجود پوپ فرانسس نے کسی بھی طرح کی گنجائش سے انکار کیا ہے۔

جن ریاستوں میں اسقاط حمل پر پابندی ہے وہاں کی خواتین اسقاط حمل کے لئے کیا کر سکتی ہیں؟

حاملہ خوا تین جو اسقاط حمل چاہتی ہیں لیکن ایسی ریاست میں رہتی ہیں جہاں یہ غیر قانونی یا ممنوع ہے جیسا کہ ٹیکساس یا اوکلاہوما، تو وہ ایسی ریاست میں سفر کر سکتی ہیں جہاں یہ قانونی ہے جیسا کہ انڈیانا یا ایریزونا۔ یہ بہت سے لوگوں کے لیے ایک اہم دشواری ہوگی بشمول وہ لوگ جو لمبی دوری کے سفر کے متحمل نہیں ہوسکتے، جو ملازمتوں یا بچوں کی دیکھ بھال سے وقت نہیں نکال سکتے، جو معذور ہیں اور وہ خواتین جو گھریلو تشدد اور بدسلوکی کا شکار ہیں۔

کیا کوئی ریاست رہائشیوں کے اسقاط حمل کے لیے دوسری ریاست جانے کے حق کو محدود یا غیر قانونی بنا سکتی ہے یا ان کے لیے ایسا کرنا غیر قانونی بنا سکتی ہے؟ اگرچہ صرف ایک ریاست نے اس پر غور کیا ہے لیکن کسی بھی ریاست نے ابھی تک واضح سفری پابندی نہیں لگائی ہے۔ امریکی فیڈرل قوانین کے مطابق کسی بھی شہری کو ایک ریاست سے دوسری ریاست میں سفر کرنے پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی ہے۔

پاکستان اور بھارت جیسے جنوبی ایشیائی ممالک میں اسقاط حمل کے قوانین کیا ہیں؟

پاکستان میں اسقاط حمل کے قوانین

2002 کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ہر سال نو لاکھ اسقاط حمل ہوتے ہیں۔ اس تعداد میں وہ اسقاط حمل شامل نہیں ہیں جن کے بارے میں کسی کو بتایا نہیں جاتا ہے۔ اسقاط حمل کے جرائم حمل کے اس مرحلے پر منحصر ہیں جس کے دوران اسقاط حمل کیا جاتا ہے اور وہ موجودہ قانون کے دو زمروں میں سے ایک میں آتے ہیں جو 1997 میں نافذ ہوا تھا۔ سوائے اس کے کہ جب عورت کی جان بچانے یا طبی علاج فراہم کرنے کے لیے نیک نیتی سے انجام دیا جائے، غیر پیدائشی بچے کے اعضاء کی نشوونما کے بعد اسقاط حمل غیر قانونی ہے۔ اس صورت میں اگر جرم کا اقبال کر لیا جائے تو تین سال تک قید اور بصورت دیگر دس سال تک تعزیر جرم کی سزا ہے۔

بھارت میں اسقاط حمل کے قوانین

میڈیکل ٹرمینیشن آف پریگنینسی ایکٹ 1971 کے تحت ہندوستان میں اسقاط حمل جائز ہے۔ وزارت صحت اور خاندانی بہبود کے مطابق اگر کسی طبی ماہر کے ذریعہ کسی تسلیم شدہ طبی سہولت پر ڈاکٹر کی رضامندی سے 20 ہفتوں کی مدت کے اندر اسقاط حمل کیا جاتا ہے (تقریباً 5 ماہ میں ) تو یہ ہندوستان میں قانونی ہے۔ مزید برآں یہ تقاضے اس بات پر منحصر ہوتے ہیں کہ آپ حمل کے کس مرحلے میں ہیں : ایک ہی ڈاکٹر کے فیصلے پر حمل کو 12 ہفتوں تک ختم کیا جا سکتا ہے لیکن اگر ہفتے 12 سے زیادہ لیکن 20 سے کم ہوں تو دو ڈاکٹروں کی رائے درکار ہے۔

حقیقی دنیا کے مسائل

بیسویں اور اکیسویں صدی میں سائنسی معلومات میں اضافے سے دنیا نہایت تیزی سے بدلی ہے۔ آج ہم بانجھ پن کا علاج ٹیسٹ ٹیوب میں بنائے ہوئے بچوں سے کر سکتے ہیں۔ انسانی زندگی اور شناخت کی ابتدا ایک اسپرم اور بیضے کے ملاپ سے شروع سمجھنا نئے مسائل سامنے لائے گا۔ اسقاط حمل کے بارے میں سخت قوانین ان جوڑوں کے علاج کو مشکل بنائیں گے جو اولاد چاہتے ہیں کیونکہ اس علاج کے لیے کئی ایمبریو بنائے جاتے ہیں اور ان میں سے ایک وقت میں ایک ہی رحم میں داخل کیا جاتا ہے۔

اگر زندگی ایک خلیے سے شروع سمجھی جائے تو کیا ان ایمبریو کی تلفی بھی ان قوانین کی خلاف ورزی سمجھی جائے گی؟ شدید ذہنی اور جسمانی معذور افراد کی پیدائش کے نتیجے میں بدحال اور غریب ممالک پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ انسان ایک سماجی میمل جانور ہے اور بچوں کی نگہداشت اور پرورش میں ان کی ماں کا انتہائی اہم کردار ہے۔ کسی بھی ملک کے قوانین کو ان نکات کو مدنظر رکھنا ہو گا کہ اگر ان قوانین کے نتیجے میں خواتین کی اموات کی شرح بڑھے تو ان کے چھوڑے ہوئے بچوں کی نگہداشت کی ذمہ داری کس طرح انجام دی جائے گی؟

کچھ خواتین کے ساتھی اس حمل کے وقت باپ بننے یا باپ ہونے کی ذمہ داری اٹھانے کے لیے ذہنی، معاشی یا نفسیاتی طور پر تیار نہیں ہوتے اور حاملہ خواتین کی موت کی ایک بڑی وجہ ان کے شوہروں یا ساتھیوں کے ہاتھوں ان کا قتل ہے۔ دنیا میں عزت کے نام پر قتل ہونے والی ہر پانچویں خاتون کا تعلق پاکستان سے ہے۔ قانونی دائرے کے اندر، پیشہ ورانہ رازداری سے صاف ستھرے طبی اداروں میں ماہرین کی مدد حاصل نہ ہونے کی صورت میں ان حاملہ بچیوں میں موت کی شرح میں کمی کس طرح حاصل کی جائے گی؟

اسقاط حمل پر حتمی فیصلہ:

جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے اسقاط حمل، حمل کے خاتمے کا باعث بنتا ہے جس کی مذہبی اور قدامت پسند کمیونٹیز منفی تشریح کرتی ہیں چونکہ یہ ایک موت کا باعث بنتی ہے جو کہ زیادہ تر مذاہب میں حرام ہے۔ دوسری طرف ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ مخالف قوتوں کی شکست اور قتل و غارت گری اکثر مذاہب کی تعلیمات کا اہم حصہ ہیں۔ یہاں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ ان قوانین کا مقصد کیا ہے؟ کیا ہم انسانی معاشرے میں صحت اور انصاف کی بحالی چاہتے ہیں یا کسی بھی نتائج پر مبنی اندھی تقلید؟ جیسا کہ ہم جانتے ہیں بعض حالات میں دفاع کے لیے جنگ اور ماں کی جان بچانے یا اسے ضروری علاج فراہم کرنے کے لیے اسقاط حمل ضروری ہو جاتا ہے۔

اسقاط حمل پر مناسب اتفاق رائے کے بغیر امریکہ میں قدامت پسند اور لبرل حلقوں کے درمیان مزید تنازعات کا امکان ہے۔ یہ پدرانہ معاشرے کی ایک بدقسمت صورت حال ہے جس میں امریکہ کی دو بڑی پارٹیاں خواتین اور بچوں کی زندگیوں سے سیاسی مفادات کے لیے جوا کھیلنے میں مصروف ہیں۔ غیر قانونی اور غیر محفوظ اسقاط حمل کو روکنے اور خواتین اور ان کی اولاد کی زندگی اور صحت کو بہتر بنانے اور اس اہم مسئلے پر قومی اتفاق رائے کو فروغ دینے کے لیے امریکہ کی وفاقی حکومت کو بیٹھ کر ایک ایسا قانون وضع کرنا چاہیے جو انصاف کے تقاضوں پر پورا اترتا ہو۔ خواتین کی صحت اور زندگی سے متعلق مناسب اصول اور قوانین خواتین کی شمولیت کے بغیر ممکن نہیں ہیں۔ خواتین کے ہر شعبے میں، خاص طور پر سیاسی اور قانونی دائروں میں اپنے قدم جمانے پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

https://www.indiatoday.in/india/story/us-abortion-illegal-roe-v-wade-what-indian-law-1967346-2022-06-27

http://www.un.org/esa/population/publications/abortion/doc/pakistan.doc
https://www.bpas.org/abortion-care/considering-abortion/what-is-abortion/

https://www.nhs.uk/conditions/abortion/what-happens/#:~:text=It%20involves%20inserting%20special%20instruments,go%20home%20the%20same%20day۔

https://jamanetwork.com/journals/jama/fullarticle/2794257?guestAccessKey=b99ceaf1-0fe7-46c2-b63e-ce9411d3e9a5&utm_source=silverchair&utm_medium=email&utm_cart_camert_257=&utm_cart_mutter=27957=0857_05757


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments