قاضی کے فیصلے


جب ابن زیادہ دھوکے سے کوفہ میں بھیس بدل کر داخل ہوا دارا لامارہ پر قبضہ کر لیا تو اپنے سپاہیوں کے دم پر کوفہ والوں پر اپنا روب اور دبدبہ قائم کرنا شروع کر دیا۔ ابن زیادہ جب ہانی بن عروہ کو حضرت مسلم بن عقیل کے پناہ دینے کے الزام میں قتل کروا دیتا ہے تو ہانی بن عروہ کے قبیلے کے لوگ دارا لامارہ کا محاصرہ کرلیتے ہیں۔ اسی دوران ابن زیاد قاضی شریح کو دارا لامارہ میں بلاتا ہے۔ بعض روایات کے مطابق ابن زیاد قاضی شریح کو درہم و دینار دے کر خرید لیتا ہے اور ایک اور روایت کے مطابق قاضی شریح دباؤ میں آ کر ہانی بن عروہ کا قتل درست قرار دیتا ہے۔

اگر اس وقت قاضی شریح ایسا فیصلہ جاری نہ کرتا تو ہانی کا قبیلہ ابن زیاد کا کام تمام کرچکا ہوتا۔ اس واقعے کے ٹھنڈا ہونے کے چند دن بعد ابن زیادہ کو اطلاع ملتی ہے کہ امام حسین علیہ سلام کوفہ کی جانب تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ ابن زیادہ پھر قاضی شریح کو بلاتا ہے اور اس کے کہتا ہے کہ یزید حاکم وقت ہے اور میں اس کی کوفہ میں نمائندگی کر رہا ہوں۔ لہذا تمہارا بھی فرض ہے کہ حاکم وقت کے احکامات کی پیروی کرو اور اس کے اقتدار کا تحفظ تم پر لازم ہے۔

رسول خدا ﷺ کا نواسہ امام حسین کوفہ کی جانب چڑھائی کرنے آ رہا ہے لہذا اس کے قتل کا فتوی جاری کرو۔ یہاں بھی روایات کے مطابق ہانی بن عروہ جیسی صورتحال پیش آتی ہے اور قاضی شریح امام حسین علیہ سلام کے قتل کا فتوی جاری کر دیتا ہے۔ جس کی بنیاد پر ابن زیادہ کوفہ اور شام کے لوگوں کو اشتعال دلاتا ہے کہ اب قاضی شریح کے حکم کی پیروی کرنا تم پر لازم ہو چکا ہے۔ پھر کربلا میں وہ سانحہ رونما ہوتا ہے جس کی بہت پہلے حضرت محمد ﷺ نے پیشگوئی کی تھی۔

آپ کو یاد ہو گا 2015 میں جب داعش نے شام پر حملہ کیا تو بہت سارے شامی پناہ گزینوں نے یورپ کا رخ کیا۔ انہی پناہ گزین میں ایک شامی خاتون جرمنی پہنچ جاتی ہے۔ خاتون کے ایک جرمن شہری کے ساتھ تعلقات استوار ہو جاتے ہیں کچھ عرصہ بعد وہ خاتون حاملہ ہو جاتی ہے۔ اسی دوران جرمنی کی حکومت شامی پناہ گزین کا انخلاء شروع کر دیتی ہے۔ وہ خاتون جرمنی کی عدالت میں کیس دائر کر دیتی ہے کہ میرے پیٹ میں جو بچہ ہے وہ جرمن ہے لہذا مجھے بچے کی پیدائش تک جرمنی رہنے دیا جائے۔

خاتون کا کیس ابھی زیر سماعت ہوتا ہے اور دوسری جانب اس خاتون کو ائر پورٹ کی جانب روانہ کر دیا جاتا ہے۔ جب جج کے سامنے سارا واقعہ آتا ہے وہ سرکاری وکیل سے پوچھتے ہیں کہ اس وقت خاتون کہاں ہے۔ سرکاری وکیل کہتا ہے وہ تو اب تک جہاز میں بیٹھ چکی ہوں گی۔ جج کمرہ عدالت میں بیٹھے جہاز کے پائلٹ سے رابطہ کرتا ہے اور اس کو جہاز فوری واپس برلن ائر پورٹ پر لینڈ کرنے کا حکم دیتا ہے۔ جج بچے کے والد کو خاتون سے شادی کرنے اور اس بچے کو بطور والد قبول کرنے کا حکم دیتا ہے۔

2018 میں برازیل کی ایک عدالت کے جج کے پاس کسی بڑے سیاستدان کا کیس آتا ہے۔ جج نے صبح اس کیس کا فیصلہ سنانا ہوتا ہے لیکن ایک رات قبل وزارت قانون کا ایک سینئر افسر جج کے گھر تشریف لاتا ہے وہ جج کو لکھا ہوا فیصلہ دیتا ہے۔ جس میں اس سیاستدان کو تمام الزامات سے بری کرنے کا حکم نامہ ہوتا ہے۔ جج جب وہ فیصلہ پڑھتا ہے تو سوچ میں پڑھ جاتا ہے کیونکہ اس سیاستدان کے خلاف تمام شواہد اور ثبوت موجود ہوتے ہیں۔ جج تقریباً گھنٹہ بھر یہی سوچتا رہتا ہے کہ وہ عدالت میں صبح کس منہ سے اس ملزم کو بری کرنے کا حکم سنائے گا جس پر تمام الزامات ثابت ہو چکے ہیں۔

جج ایک کاغذ اور قلم پکڑتا ہے اور برازیل کے وزیر اعظم کے نام خط لکھتا ہے۔ کہ میرا ضمیر گوارا نہیں کرتا کہ ایسے شخص کو ان تمام الزامات سے بری کردوں جو اس کے خلاف ثابت ہو چکے ہیں۔ لہذا میں ایسا فیصلہ سنا کر ہر روز مرنے کی بجائے آج ہی مرنے کو ترجیح دوں گا۔ یہ خط لکھنے کے بعد جج صاحب خودکشی کرلیتے ہیں۔ صبح جب یہ خبر اور جج کا خط میڈیا پر آتا ہے تو پورے برازیل میں ہنگامہ برپا ہو جاتا ہے۔ پھر وزیر اعظم کے حکم پر وزارت قانون کے اس افسر کو بھی سزا ہوتی ہے اور پھر ایک دوسرا جج اس سیاستدان کو سزا بھی سناتا ہے۔

13 جنوری 2018 کو بھارتی سپریم کورٹ کے چار سینیئر ججز اپنے ہی چیف جسٹس دیپک مشرا کے خلاف پریس کانفرنس کر دیتے ہیں۔ ان ججز میں جسٹس چلا شپیشمر، جسٹس رنجن گگوئی، جسٹس مدن لوکر اور جسٹس کرین جوزف شامل تھے۔ چاروں سینئر ججز چیف جسٹس پر اقربا پروری کا الزام عائد کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ چیف جسٹس دیپک مشرا عدالتی اصولوں کے خلاف اپنے پسندیدہ جونیئر ججوں کو مخصوص کیسز دے رہے ہیں۔ عدلیہ کے ادارے کو تحفظ نہ ملا تو جمہوریت خطرے میں ہو گی۔

ہم نے چیف جسٹس سے بات کر کے معاملہ سلجھانے کی کوشش کی، ہم نہیں چاہتے کہ ہم پر الزام لگے کہ عدلیہ کے لئے آواز نہیں اٹھائی گئی، ہم نہیں چاہتے کہ ہم پر ضمیر فروشی کے الزامات لگیں۔ چاروں ججز نے چیف جسٹس کو لکھا خط بھی صحافیوں کو پیش کیا جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ بھارتی اعلیٰ عدلیہ میں بعض اہم امور قواعد کے مطابق نہیں چلائے جا رہے جس سے عدلیہ کی کارکردگی متاثر ہو رہی ہے۔ انہوں نے چیف جسٹس کے بعض احکامات پر تحفظات کا بھی اظہار کیا اور کہا کہ مسائل سے نمٹنے کے اقدامات کا کہا لیکن چیف جسٹس نے توجہ نہیں دی۔

خط میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کی وجہ سے ہائی کورٹس کی آزادی متاثر ہوئی، سپریم کورٹ کے انتظامی امور بھی متاثر ہوئے، سپریم کورٹ کے فیصلوں نے انصاف کی فراہمی کا نظام متاثر کیا۔ کچھ عرصے بعد بھر جب دیپک مشرا اپنے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے تو مودی حکومت نے ان کو اعلیٰ سیاسی عہدے پر بھی فائز کر دیا۔ آپ اپنے ایمان سے بتائیں آج پاکستان کی عدلیہ میں یہی کچھ صورتحال نہیں ہے؟ جسٹس ثاقب نثار سے لے کر جسٹس عمر عطاء بندیال تک سب چیف جسٹس نے ہر بینچ میں اپنی مرضی کے ججز شامل کیے۔

دو ججز تو اب تک موجودہ چیف جسٹس کو ان کی غلطیوں نشاندہی کرتے ہوئے خط لکھ چکے ہیں ان میں جسٹس فائز عیسی اور جسٹس طارق مسعود شامل ہیں۔ جسٹس دیپک مشرا کی طرح پاکستان میں بھی حالیہ عرصے میں ایک ایسے جج آئے جسٹس عظمت سعید جن کو عمران خان نے ریٹائرڈ منٹ کے بعد براڈ شیٹ سکینڈل کمیشن کا سربراہ بنایا۔ پھر ان کو پنجاب میں غیر قانون ہاؤسنگ سکیموں کو ریگولر کرنے والے کمیشن کا بھی سربراہ بنایا دیا۔ جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں جو کچھ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کے ساتھ ہوا وہ بھی اب پوری قوم کے سامنے آ چکا ہے۔ مجھ لگ رہا ہے اب وہ دن دور نہیں جب سپریم کورٹ کے چار ججز بھارتی سپریم کورٹ کے ججز کی طرح موجودہ چیف جسٹس کے عدالتی امور چلانے کے طریقہ کار کے خلاف پریس کانفرنس کریں گے۔ شاید وہ دن قریب ہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments