فارحہ ارشد کا افسانہ


”امیر صادقین! تم کہاں ہو؟“

حسن کی ایک تعریف یہ بھی ہے کہ ہم اس کے جمال و جلال سے متاثر ہوں، اسے محسوس کریں مگر اس کے بیان کی طاقت سے محروم رہیں۔ کچھ ایسی ہی میری حالت، فارحہ ارشد کے افسانے پڑھنے کے دوران ہوئی ہے۔

اس سال پورا مئی اور جون کا زیادہ حصہ، میں پاکستان میں تھا۔ اس کا بڑا فائدہ تو یہ ہوا کہ بہت سے پرانے دوست احباب سے تجدید ملاقات ہو گئی۔ کچھ نئی شناسائیوں کا موقع میسر آیا اور کئی انمول کتابیں مل گئیں۔ انہی کتب میں فارحہ ارشد کے افسانوں کا مجموعہ ”مونتاژ“ بھی شامل ہے۔

فارحہ ارشد سے میری ذاتی ملاقات نہیں ہے۔ اس سے پہلے مجھے ان کے چند افسانے آن لائن پڑھنے کا اعزاز ضرور حاصل تھا اور ان کے خیالات سے تھوڑی بہت آگاہی، ان کے فیس بک پر کچھ کمنٹس کے ذریعے تھی۔

”مونتاژ“ کے افسانے پڑھ کر انہیں ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے نہ صرف کسی حد تک جان گیا ہوں بلکہ متاثر بھی ہوا ہوں۔ یوں بھی میرے خیال میں کسی قلمکار کے ساتھ جو تعارف اس کی تصنیفات کے ذریعے ہوتا ہے، وہ کسی اور صورت میں ممکن بھی نہیں۔

”مونتاژ“ میں بعض افسانے تو بے مثال ہیں۔ اس مجموعہ میں شامل افسانوں کے موضوعات میں اتنا تنوع ہے کہ جیسے ایک سو چھیاسٹھ صفحات کی اس ایک کتاب میں ہی دنیا بھر کے مسائل کو سمیٹنے کی کوشش کی گئی ہو۔ تقریباً ہر افسانے کے دوسرے تیسرے پیراگراف میں ایک جملہ ایسا ضرور آتا ہے کہ جو خود کئی ایک کہانیوں کی نشاندہی کر رہا ہوتا ہے۔ چند ایک افسانے تو نہ صرف یہ کہ موضوع کے اعتبار سے انتہائی منفرد ہیں بلکہ ان کے لکھنے کا انداز بھی بالکل نیا ہے۔ ان میں سے اکثر پر سیر حاصل تبصرے آ چکے ہیں۔ میں یہاں ان کے صرف ایک افسانے ”امیر صادقین! تم کہاں ہو؟“ پر اپنی گزارشات پیش کروں گا۔ خیال رہے کہ میں نہ تو کوئی نقاد ہوں اور نا ہی بننا چاہتا ہوں۔ میری رائے صرف ایک قاری کی رائے ہے۔

یوں تو مذکورہ بالا افسانہ اپنے آغاز سے ہی بڑا افسانوی اور رومانوی رنگ لئے ہوئے ہے مگر شاہ بانو اور امیر صادقین کا ذکر اس کے رنگوں میں مزید اضافے کرتا چلا جاتا ہے۔ ایک ماحول ہے جو تنہائی، اداسی اور طلسم سے لبریز ہے مگر پھر یکایک آوازوں کا ایک پرا آتا ہے اور فکر کے نئے دروازے کھول کر گزر جاتا ہے۔

اس افسانے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ قاری کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ اس کے ایک کردار کا ایک مکالمہ ہے ”آسمانی باغ کا نقشہ دکھانے والے، آسمانی کتابوں والا معاشرہ کیوں نہ بنا سکے؟“ ۔ میرے نزدیک مذکورہ بالا مکالمہ پر غور و فکر کرنا، ہر دین، مذہب اور مسلک کے پیروکاروں پر فرض ہو جاتا ہے۔ خاص طور پر، جو ان مذاہب کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں، ان پر۔

فارحہ ارشد کا امیر صادقین ہمیں یہ سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ انسان خود اپنے ہاتھوں سے بت بناتا اور پھر ان کی پوجا شروع کر دیتا ہے۔ میرے جیسا قاری تو یہ سوچ کر ہی رو دیتا ہے کہ مذہب نام کا یہ دیوتا، اپنی پیدائش سے لے کر اب تک، ان گنت انسانوں کا خون پی چکا ہے، لیکن اس کی پیاس ہے کہ بجھنے میں ہی نہیں آتی۔

”امیر صادقین! تم کہاں ہو؟“ کے بعض مکالمے اتنے لبریز ہیں کہ جیسے معنی کا ایک دریا بار بار اپنے کناروں سے چھلک جانے کی کوشش میں ہو۔

”مجھے افسوس ہے کہ نئی نسل کو بس لڑنا آتا ہے۔ وہ آخر سوچتے کیوں نہیں؟ کیا سوشل میڈیا کا قصور ہے کہ وہ سوچنے والی نسل پیدا نہیں ہونے دے رہا؟ کیا سوچنا صرف ان کے حصے کا کام تھا جو پہروں اپنے پسندیدہ لکھاریوں کی کتاب ایک طرف رکھ کر ایک ایک نقطے پر اپنے دماغ سے مزید نئے اور تازہ نکات نکال کر لے آتے تھے“ ۔

اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے وہ کہتا ہے۔

”اس لئے کہ انہیں اپنے پسندیدہ لکھنے والوں کی بات سے بھی انکار کرنا آتا تھا۔ اور انکار بنا دلیل کے ممکن نہیں۔ انکار والا بننا آسان نہیں۔ میری اتنی کوشش کے باوجود انہیں انکار کرنا نہیں آیا۔ وہ میرا ہی بت بنا کر میری لکھی ہر بات پر ایمان لے آئے، یہ سوچے سمجھے بنا کہ میں بھی ایک انسان ہوں۔ میں بھی غلط ہو سکتا ہوں اور اگر میں ٹھیک ہوں تو بھی اس کے لئے ان کے پاس واضح دلیل نہیں۔ انہیں ماننا آتا ہے نہ انکار کرنا۔ افسوس۔ افسوس!“ ۔

مگر حیرت کی بات تو یہ ہے کہ فارحہ ارشد کے اس افسانے میں، اتنے سارے فکر انگیز سوالات کے باوجود افسانوی رنگ کہیں کم نہیں ہوتا۔ آغاز سے انجام تک، قاری اس سے لطف اندوز ہو رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس کے اندر کہیں سوچ کے دائرے بھی اپنے کام میں مصروف ہیں۔ اور پنچ لائن تو کیا ہی خوب ہے! ۔

”تو شاہ بانو! وہ آپ ہیں جو تاریخ کے اوراق پارینہ میں لکھی اپنی ہی کہانی سے خود باہر رہ گئیں؟“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments