فروغ تصوف میں داستانوی ادب کا کردار


غازی یونیورسٹی ڈیرہ غازی کا شمار پنجاب کی سر برآوردہ یونیورسٹیوں کے درمیان ایک نخل نوخاستہ کی مانند ہے لیکن اس نخل تازہ کی شمشاد قامتی کے آثار ابھی سے اہل بصیرت کی نگاہوں پر ہویدا ہیں۔ یوں توں جامعہ غازی کے تمام شعبے بساط بھر اڑان بھر رہے ہیں لیکن شعبہ اردو کے صدر پروفیسر ڈاکٹر سہیل عباس اپنی باصلاحیت ٹیم کے ہمراہ نت نئی علمی، ادبی مہمات سر کرنے میں منہمک نظر آتے ہیں۔

قبل ازیں شعبہ اردو کے توسط سے کئی کامیاب سیمینار اور کانفرنسیں منعقد ہو چکی ہیں، جنھیں علمی، ادبی حلقوں میں سراہا گیا۔ شعبہ اردو شاہ سلیمان تونسوی ؒ توسیعی لیکچر سیریز کے تحت مختلف موضوعات پر یادگاری تحقیقی، تنقیدی، خطبات کا سلسلہ جاری کیا ہوا ہے۔

28 جولائی 2022 ء کو منعقد ہونے والا پروگرام بعنوان ”فروغ تصوف میں داستانوی ادب کا کردار“ اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ مذکورہ موضوع پر گفت گو کے لیے اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کے شعبہ اقبالیات و فلسفہ کے چیئرمین محترم پروفیسر ڈاکٹر محمد رفیق الاسلام کو دعوت دی گئی تھی، جن کی فلسفہ، تصوف اور دیگر مابعد الطبیعیاتی مباحث پر گہری نظر ہے۔ اس سلسلے میں شعبہ اردو کی جانب سے شاندار انتظام و انصرام نظر آیا۔ لیکچر کا انعقاد جامعہ غازی کے ملٹی پرپز ہال میں صبح 11 بجے ہوا۔

رئیس جامعہ محترم پروفیسر ڈاکٹر محمد کامران عبداللہ صاحب نے اجلاس میں خصوصی شرکت کی اور اس متصوفانہ تقریب کی کرسی صدارت پر جلوہ افروز ہوئے۔ پروفیسر ڈاکٹر سہیل عباس بلوچ صاحب محترم وائس چانسلر اور مہمان مقرر پروفیسر ڈاکٹر محمد رفیق الاسلام کو اپنے ساتھ لے کر ہال میں داخل ہوئے تو اساتذہ اور طلبہ نے بھرپور انداز میں ان کا استقبال کیا۔ آسمان پر ہلکے ہلکے بادل تیر رہے تھے اور نرم ہوا کے جھونکے ایک کیفیت پیدا کر رہے تھے۔ تمام مہمان تشریف فرما ہو گئے تو جناب وائس چانسلر کی اجازت سے پروگرام باقاعدہ آغاز ہوا۔

شعبہ اردو کے استاد محترم ڈاکٹر عابد خورشید نے نظامت کے فرائض سرانجام دیے۔ تقریباً کا آغاز تلاوت کلام سے ہوا۔ شعبہ اردو کی طالبہ رقیہ بانو کے حصے میں آئی۔ تلاوت کلام سے حاضرین پر ”وجلت قلوبہم“ کی کیفیت طاری تھی۔ علامہ اقبال نے درست کہا تھا:

گر تو خواہی مسلماں زیستن
نیست ممکن جز بہ قرآں زیستن

تلاوت کلام پا کے بعد ہدیہ نعت بحضور سرور کونین ﷺ پیش کیا گیا۔ شعبہ اردو کی طالبہ ربیعہ فریال نے پرسوز لحن میں نعت پڑھی، تمام حاضرین کے سر ادب سے جھک گئے۔ چشم تصور میں مدینہ منورہ کی حاضری ہو گئی۔ اور لبوں پر شعر گنگنانے لگے۔

لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب
گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
تری نگاہ ناز سے دونوں مراد پا گے
عقل غیاب و جستجو، عشق حضور و اضطراب

شعبہ اردو نے نے پیر پٹھان حضرت شاہ سلیمان تونسوی ؒ کی دینی خدمات کے حوالے سے ایک ڈاکومنٹری تیار کی ہوئی تھی جس میں اس دھرتی کے عظیم صوفی کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ حضرت اقبال نے ایسی ہی خدا شناس ہستیوں کے بارے میں کہا ہے :

جلا سکتی ہے شمع کشتہ کو موج نفس ان کی
الٰہی کیا چھپا ہوتا ہے اہل دل کے سینوں میں

ڈاکٹر عابد خورشید صاحب نے اسلام اور تصوف کے حوالے سے گفتگو کے لیے راقم الحروف (ڈاکٹر جمیل الرحمان) کو سٹیج پر بلایا۔ ڈاکٹر صاحب نے قرآن و حدیث اور تاریخی شہادتوں سے تزکیہ نفس، روحانی تربیت اور راہ سلوک کی مختلف منزلوں کے بارے میں بات کی۔ وحدت الوجود اور وحدت الشہود کے علاوہ تصوف میں غیر اسلامی عناصر کے امتزاج کی بھی وضاحت کی۔ اس مختصر اور جامع گفت گو کے بعد صدر شعبہ محترم پروفیسر ڈاکٹر سہیل بلوچ صاحب نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور گزشتہ سے پیوستہ لیکچرز کے بارے میں حاضرین کو تفصیلاً آگاہ کیا۔

انہوں نے مہمان مقرر کا خصوصی شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے اپنی گوناگوں مصروفیات میں سے وقت نکالا۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد رفیق الاسلام کو گفتگو کے لیے بلایا گیا۔ انہوں نے تصوف کی روایت اور اس کے شعر و ادب پر اثرات کا بھرپور جائزہ لیا۔ انہوں نے بتایا کہ متصوفانہ کیفیات کا اظہار ہمارے ہاں داستانوں کے موضوعات، ان کے کرداروں اور خاص ماحول کی صورت میں ہوتا ہے۔ صبر، توکل، فیاضی اور سخاوت، تہور و شجاعت، علم حلم اور رضا جوئی اور رضا طلبی، فقر، غنا اور فنا کی اخلاقیات جو تصوف کے ساتھ خاص ہیں ان سب کا اظہار نثری اور شعری داستانوں میں ہوتا ہے۔ ڈاکٹر محمد رفیق الاسلام نے اس بات کو بڑی صراحت کے ساتھ بیان کیا کہ داستان گو اور داستان نگار کے ذہن میں یہ خیالات جاگزین رہتے تھے کہ اس نے کس طرح تصوف کی تہذیب کو اپنی داستان کے کرداروں کی شکل میں پیش کرنا ہے۔

جدید سائنسی دور میں جتنی اختراعات اور ایجادات ہوئی ہیں ان کا تصور ان داستانوں کے محیرالعقول، مافوق الفطری ماحول میں ملتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے داستانوی ادب میں مختلف علوم یعنی علم طب، علم نباتات، علم حیوانات، وغیرہ کی تفصیلات بھی ملتی ہیں۔ انہوں نے قصہ چہار درویش، طلسم ہوش ربا، باغ و بہار اور داستان امیر حمزہ وغیرہ کے حوالے پیش کیے۔ انہوں نے کہا کہ عمرو عیار کی زنبیل اور اڑن طشتری کا تذکرہ ان داستانوں میں ملتا ہے۔ اور اس کی عملی تعبیر آج ہمیں کمپیوٹر، موبائل اور ہوائی جہاز کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ ادب کو تصوف کی تہذیب کے آئینے میں دوبارہ پڑھنے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر رفیق الاسلام صاحب نے داستانوی ادب اور تصوف پر انتہائی مفید اور پرمغز گفت گو کی۔

پروگرام کے آخر میں صدر محفل پروفیسر ڈاکٹر محمد کامران عبداللہ صاحب کو صدراتی خطبے کے لیے دعوت دی گئی۔ وائس چانسلر صاحب ڈاکٹر محمد کامران عبداللہ نے خدا، انسان اور کائنات کے حوالے سے تصوف کے بنیادی نظریے کو عملی مثالیں دے کر سمجھایا۔ جناب وائس چانسلر نے تذکیہ نفس اور تصوف کی ضرورت و اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ انسان اپنے رب کریم کے سامنے ایک ضعیف مخلوق ہے۔ یہ کائنات بہت وسیع و بسیط ہے، یہ جہاں حیرت کدوں سے آباد ہے۔

نظام فلکیات اور کاسماس پر ایک نظر دوڑائیں تو ہماری حیرت کی انتہا نہیں رہتی کیونکہ اس جہاں کے مانند کئی جہان آباد ہیں۔ کہکشاؤں کا ایک جہاں اللہ کی بین آیات ہیں۔ انفس و آفاق میں غور و فکر کرنے سے انسان کو اپنی حیثیت، مقام و مرتبے کا اندازہ ہوتا ہے۔ بندگی کا تقاضا ہے کہ اللہ رب العزت کے حضور انتہائی عاجزی اور انکسار کا اظہار کیا جائے۔ جناب وائس چانسلر نے اپنی گفتگو کو سمیٹتے ہوئے صدر شعبہ اردو ڈاکٹر سہیل عباس بلوچ کی کاوشوں کو سراہا اور ایسے پروگرامز کو طلباء کے لیے مفید قرار دیا۔

تقریب میں ہونے والی تمام تر گفتگو نے حاضرین مجلس کو یقینی طور پر متاثر کیا اور فکر و دانش کے کئی دریچے وا ہوئے۔ پروفیسر ڈاکٹر سہیل عباس نے جناب وائس چانسلر اور مہمان مقرر کو یادگاری شیلڈز پیش کیں۔ آخر میں فوٹو سیشن ہوا اور ان لمحات کو کیمرے میں محفوظ کر لیا گیا۔ یہ تقریب اس عزم کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی کہ آئندہ بھی اس نوع کی علمی و ادبی سرگرمیاں جاری رہیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments