”جہاں میں تھا“ تجزیاتی مضمون


عصر موجود میں کون ایسا ہے جو عطاء الحق قاسمی کے نام سے واقف نہیں۔ وہ نہ صرف ادیب اور مزاح نگار بلکہ سفر نامہ نگار اور کالم نگار بھی ہیں۔ ان کی خدمات کو نا صرف ادبی حلقوں میں تسلیم کیا جا چکا ہے بلکہ حکومت پاکستان بھی ان کی خدمات کا اعتراف کرتی ہے اور اعتراف کے ثبوت میں یہی کافی ہے کہ انہیں تمغہ حسن کارکردگی، ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز جیسے قومی میڈل سے نوازا جا چکا ہے۔ ایک عرصہ سے عطاء الحق قاسمی روز نامہ جنگ میں ”روزن دیوار سے“ کے تحت کالم نگاری کر رہے ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔

کالم کو تنقید کی ہلکی آنچ پر تیار کرتے ہوئے دلائل کا مسالہ ڈالنا اور مزاح کی طشتری میں قارئین کو پیش کرنا عطاء الحق قاسمی کا خاصہ ہے۔ اس طریقہ کالم نگاری سے نہ صرف قاری دماغی رگوں کے تناؤ سے محفوظ رہتا ہے بلکہ وہ مسائل کی نوعیت، اس کے نازک پن اور اس کی اصل وجوہات سے آگاہ بھی ہو جاتا ہے اور نہ صرف آگاہی بلکہ کالم پڑھنے کے بعد خود کو تازہ دم بھی محسوس کرتا ہے۔ ان کے کالم ہفتہ میں دو، تین بار لگتے ہیں اور جن قارئین کو مزاح کی چاشنی سے لطف اندوز ہونے کی عادت پڑ چکی ہے، وہ ان کے کالم کا بے صبری سے انتظار کرتے ہیں۔

آج مورخہ 24 جولائی 2022 ء ہے اور عطاء صاحب کا کالم بعنوان ”جہاں میں تھا“ روز نامہ جنگ میں شائع ہوا ہے۔ مختصر الفاظ میں مذہبی، سیاسی سماجی، اجتماعی اور انفرادی منافقت کو جس انداز سے ایک ہی لڑی میں پرو کر ہار کی شکل دی گئی ہے وہ انہی کا ہنر ہے۔

موجودہ دور میں مذہبی منافقت روپیہ کمانے کا ہنر بن چکی ہے۔ نام نہاد ملاء اپنی خواہش کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی خاطر دین کی پڑیا میں بدعت کے زہر کی ملاوٹ کرتے ہوئے نہ صرف لوگوں کو متاثر کرتے ہیں، بلکہ ان کے لیے، جو اوپر بیٹھے ڈوری ہلا کر ملاء اکرام سے کٹھ پتلی سا کردار ادا کرواتے ہیں، خوشی کا باعث بھی بنتے ہیں۔

مذہبی منافقت کو عطاء الحق قاسمی یوں منظر عام پر لانے کی کوشش کرتے ہیں :

”رات کو میں ایک ریستوران میں کھانے کے لئے گیا تو دیکھا وہ عالم دین اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ذکر پر سر دھننے والے بہت سے لوگ ابوجہل کے ساتھ بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔ یہ لوگ بھرپور قہقہوں سے ریستوران کی فضا کو بوجھل کیے ہوئے تھے۔ میں نے جاتی دفعہ ابوجہل کو کھانے کا بل ادا کرتے دیکھا۔“

ایسی ہی ایک اور کہانی بیان کرتے ہوئے وہ ذاکر لوگوں کے قولی و فعلی تضاد پر پڑے پردے کو فاش کرتے ہیں۔ فرقہ پرستی کو اس لیے وجود کی شکل دی گئی تا کہ مذہبی سرپرست اپنی اپنی مذہبی پھکی جس میں انہوں نے شیعہ، سنی اور وہابی نامی زہر کی ملاوٹ کر رکھی ہے کو بآسانی بیچ سکیں۔ مگر اصلیت وہی ہے کہ ان کی ڈور کسی اور ہی کے ہاتھ میں ہے اور وہ جب چاہتا ہے ڈور ہلا کر مذہبی رہنماؤں کو تگنی کا ناچ نچاتا ہے۔

عطاء صاحب ذکر کرتے ہیں ایک مجلس عزا کا جس میں ایک ذاکر غم حسین پر زار و قطار رو رہا تھا اور سامعین کو بھی رلا رہا تھا۔

پردہ فاش کیسے کرتے ہیں، ملاحظہ ہو:
”اگلے روز میں ایک فلم دیکھنے گیا تو یہ ذاکر گیلری میں شمر کے ساتھ بیٹھا فلم دیکھ رہا تھا۔“

سیاستدان معاشرے کا وہ کردار ہے جو عوام کے پیسے سے خریدے گئے انواع و اقسام کے کھانے اور پھل سے اپنی چربی بڑھاتا ہے، رنگین نوشی اور چٹ پٹے کھانے کھانے سے جب اسے موٹاپے کی شکایت ہونے لگتی ہے تو عوامی جلسہ کا اہتمام کرواتا ہے تاکہ عوامی مسائل پر تھوڑا بہت رو کر نہ صرف عوام کی خوشنودی حاصل کی جائے، بلکہ اپنی چربی کو کم کرنے کا انتظام بھی ہو سکے۔ مگر حقیقت میں انہیں عوامی مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی اور وہ اپنی طاقت بڑھانے کی خاطر عوامی پریشان حالت کا رونا روتے ہیں۔

سیاستدانوں کی تصویر کا دوسرا رخ دکھاتے ہوئے قاسمی صاحب کہتے ہیں کہ عوام کی حالت زار کے ذمہ دار یہ حکمران لوگ ہیں، جو کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ۔ جب ایک مرتبہ یہ عوام سے اپنا مطلب حاصل کر لیتے ہیں تو پھر مڑ کر ان کی طرف نہیں دیکھتے۔ اگر یہ اپنے فرائض کو عیش پر قربان نہ کریں تو عوام بھی سکھ کا سانس لینے کے قابل ہو سکتی ہے۔

قاسمی صاحب کا ان کے متعلق بیان دیکھئے :

”رہنما فرط جذبات سے اپنی تقریر مکمل نہ کر سکا اور اسے ادھوری چھوڑ کر وہاں سے جانا پڑا۔ اسے ویسے بھی جانے کی جلدی تھی کیونکہ شہر کی وہ تمام مقتدر شخصیتیں جن کی وجہ سے عوام کی زندگی اجیرن ہو چکی تھی، ایک ڈنر میٹنگ پر اس کی منتظر تھیں جہاں عوام کی زندگیوں کو مزید اجیرن بنانے کے ایجنڈے کو حتمی شکل دی جانا تھی۔“

اصل منافقت بہت چھوٹے درجے سے شروع ہوتی ہے۔ دور ترقی میں ہر اس شخص کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے جو اپنا سب کچھ مغربی ممالک میں لے جاتا ہے۔ ان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کی اولاد نہ صرف بگڑ جائے گی بلکہ تباہ ہو جائے گی۔ اور اپنے تہذیب و تمدن کو پس پشت ڈال کر مغربیت کی دلدادہ ہو کر رہ جائے گی۔ مگر تنقید کرنے والوں میں سے جب کسی کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ مغربی ممالک کا رخ کر سکے تو وہ نہ صرف فوراً تیار ہو جاتا ہے بلکہ تنقیدی پہلو کو بھلا کر مغربیت کے گن گانے لگتا ہے۔ ایسی ہی ایک کہانی کو قاسمی صاحب نے اپنے آرٹیکل میں بیان کیا ہے۔

آرٹیکل کے آخر میں عطاء الحق قاسمی صاحب ان لیڈروں کی قلعی کھولتے ہیں جو عوامی مسائل کی آڑ میں ذاتی وسائل بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ آج کل کے لیڈر عوامی مسائل کو بنیاد بنائے، حکومت کو دھرنا دینے کی وارننگ دیتے ہیں اور پھر حکومت سے مفاہمت کرتے ہوئے کسی وزارت کے لئے منتخب ہو جاتے ہیں۔ اپنے مقاصد میں کامیاب ہونے پر دھرنا منسوخ کرتے ہوئے کہتے ہیں، ان مسائل میں حکومت کا کوئی ہاتھ نہیں بلکہ حکومت تو مسائل کو وسائل سے حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ ایسے ہی ایک سیاسی دوست، جو دھرنا کی منصوبہ بندی کرتا ہے اور پھر اچانک منسوخ کر دیتا ہے، کی کہانی وہ یوں بیان کرتے ہیں :

”اگلے روز میں اپنے دوست کے انتظار میں بیٹھا تھا کہ اچانک فون کی گھنٹی بجی، میں نے فون اٹھایا تو دوسری طرف میرا دوست تھا،“ آئی ایم سوری یار میں تمہاری طرف نہیں آ سکوں گا۔ میں وزیراعظم ہاؤس وزارت کا حلف اٹھانے جا رہا ہوں۔ ”“

مجھے یقین ہے کہ سمجھنے والوں کے لئے یہی کافی ہے، اور شاید اب اور کچھ کہنے کی ضرورت بھی نہیں۔ جون ایلیاء کے شعر کے ساتھ اجازت چاہوں گا:

ڈر ہے چبا نہ جائیں کلیجہ نکال کر
رہتے ہیں تیرے شہر میں ہندہ مزاج لوگ

علی حسن اویس

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی حسن اویس

علی حسن اُویس جی سی یونی ورسٹی، لاہور میں اُردو ادب کے طالب علم ہیں۔ ان کا تعلق پنجاب کے ضلع حافظ آباد سے ہے۔ مزاح نگاری، مضمون نویسی اور افسانہ نگاری کے ساتھ ساتھ تحقیقی آرٹیکل بھی لکھتے ہیں۔

ali-hassan-awais has 66 posts and counting.See all posts by ali-hassan-awais

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments