میر ببر علی انیس – خدائے سخن


میر ببر علی انیس اردو ادب کا وہ نام ہے جس کا ہم پلہ لسان اردو میں کوئی نہیں ہے۔ اردو زبان کو ایک لاکھ نئے الفاظ کا تحفہ دینے والا یہ بے نظیر شاعر فلک مرثیہ کا وہ خورشید ہے کہ جس کی تابانی کے آگے اردو کے تمام سخن ور ننھے منے تارے نظر آتے ہیں۔ میر تقی کو خدائے سخن کہا جاتا ہے لیکن حقیقی خدائے سخن میر انیس ہے۔ دنیا میں بہت کم لوگ ایسے گزرے ہیں کہ جس شعبہ کے کام میں انہوں نے ہاتھ ڈالا اس شعبہ کی پہچان ہی ان کے نام سے ہونے لگی۔

انیس نے مرثیہ نگاری کو حیات جاودانی بخش دی۔ کتنے ہی پڑھنے والے ان کے کلام کے باعث امر ہو گئے۔ حالیہ مثال سید ندیم رضا سرور کی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ندیم سرور نے شہرت کی بلندیوں کو چھونے کے بعد خصوصاً سن دو ہزار تیرہ کے بعد میر انیس اور میرزا سلامت علی دبیر کے کلام سے استفادہ کرنا بہت کم کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی ہمیں ندیم سرور کے وہی نوحے زیادہ سنائی دیتے ہیں جن میں میر انیس کا کلام زیادہ ہے۔ کانوں کو بھلے لگتے ہیں۔

انیس وہ خلاق ہیں کہ لفظوں کے موتیوں کو موسیقیت کی لڑی میں پرو کر آنسوؤں کی جھڑی لگا دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب انیس اپنی زندگی میں بھی مشاعرہ پڑھتے یا مجالس میں جاتے تو آج کے زمانے کے برعکس ہاتھوں اور باڈی لینگویج کا استعمال بہت کم کرتے۔ صرف الفاظ اور ادائیگی ایسی بے مثال تھی کہ مجمع پر سحر طاری کر دیتے۔

انہیں زبان و بیان کے علاوہ مختلف شعبہ ہائے حیات اور انسانی نفسیات کا اس قدر بلند ادراک تھا کہ ان کا کلام پڑھتے ہوئے تمام کا تمام منظر اس طرح آنکھوں کے سامنے پھر جاتا ہے کہ گویا سب کچھ آپ کے سامنے ہو رہا ہے۔

سکول کالجوں کا نصاب مرتب کرنے والی کمیٹی میں بعض اوقات مخالف مکتبہ فکر سے تعلق کی بنا پر ڈنڈی مار عناصر نے کئی بار کوشش کی کہ انیس کا کلام کسی طرح اردو سے خارج کیا جائے۔ مگر کسی بھی صنف کو سرے سے خارج از مضمون کرنا ناممکن ہوا کرتا ہے۔ لہذا یہ کوششیں بھی کی گئیں کہ چونکہ مرثیہ جیسی فاؤنڈنگ فادر صنف کو زبان اردو سے خارج تو نہیں کیا جاسکتا لہذا کوئی ایسے راہ نکالی جائے جس سے طلبہ و طالبات تک اصل بات پہنچنے ہی نہ پائے۔ لہذا میر انیس کے طویل مراثی میں سے تمہید کے چند ایسے بند اردو کی درسی کتب میں ڈالے جاتے رہے جن میں امام حسین علیہ السلام اور اہل بیت کا ذکر بالکل نہ ہوتا بلکہ ”میدان کربلا میں گرمی کی شدت“ یا ”میدان کربلا میں صبح کا منظر“ یا فقط ”منظر صبح“ کے عنوان سے دو چار بند ڈال دیے جاتے۔

مگر میر انیس کا کمال یہ ہے کہ انہی تمہیدی اشعار میں بھی وہ ایسی تمثیلیں، محاورے اور استعارے استعمال کر جاتے ہیں کہ طلبا کو پس منظر بتانا ناگزیر ہوجاتا ہے۔ یعنی پیغام پہنچ جاتا ہے۔ آج تک سکولوں کالجوں میں یہی صورت حال جاری ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ ایک بار اردو کے لیکچر میں ایک ایم فل اردو صاحب صبح کا منظر پورا پڑھا کر چلتے بننے لگے تو آخری قطار سے کسی نے سوال کیا کہ یہ صبح کا منظر کہاں کا ہے اور اس کا پس منظر کیا ہے؟ شاعر کا تعارف بھی کرا دیجے کہ پرچے میں پانچ نمبر کا سوال یہ بھی آتا ہے۔ بس جناب کی صورت دیدنی تھی۔ ناچار جلد جلد دو چار جملے ناگواری سے بول کر ایسے روانہ ہوئے کہ گویا پاخانہ ان کو زور دیتا ہے اور مزید رکتے ہیں تو اندیشہ شلوار خراب ہونے کا ہے۔

بات کہاں سے چلی اور کہاں پہنچ گئی۔ میر انیس کا شعور اس قدر بالیدہ تھا کہ اس ضمن میں ایک شعر پیش کرتا ہوں۔ پس منظر اس کا یہ ہے کہ دنیا بھر میں ہمدردی جتانے، غم بانٹنے اور تشفی دینے کا مختصر ترین جملہ جو بولا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ ”کیا ہوا؟“ ۔ اس سے دکھی کو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ کسی کو تو میرا احساس ہے۔ کم ازکم کسی نے تو پوچھا۔

اب میر انیس کے مرثیے کا یہ شعر ملاحظہ ہو۔
عباس مر گئے، علی اکبر جدا ہوا
ہم سے کسی نے یہ بھی نہ پوچھا کہ کیا ہوا۔
نعرہ حیدری
یا علی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments