کوچہ رسالدار پشاور کے شہدا: میرے خدا تیرا یوم حساب کس دن ہے؟


15 مارچ سن 2019 کو نیوزی لینڈ کے علاقے کرائیسٹ چرچ میں نماز جمعہ کے دوران دو مساجد میں ماس شوٹنگ کا واقعہ پیش آیا، پہلا حملہ النور مسجد میں پیش آیا جس کو 28 سالہ قاتل برینٹن ہیرس ٹیرانٹ نے فیس بک پر لائیو سٹریم کیا، دوسرا حملہ لنوڈ اسلامک سینٹر میں پیش آیا۔ نیوزی لینڈ کی تاریخ میں اس واقعے کو سیاہ ترین دن قرار دیا گیا۔ واقعے کی تفتیش اور متاثرین کی خبر گیری کے لئے رائل کمیشن بنایا گیا۔ قاتل کو عدالتی کارروائی کے بعد تاحیات قید کی سزا ہوئی، اس کے تمام بینک اکاؤنٹس فریز کر دیے گئے۔

سوشل میڈیا سے حملے کی تمام ویڈیوز اور تصاویر وغیرہ ہٹا دی گئیں۔ نیوزی لینڈ کی آبادی کا 1 اعشاریہ 3 فیصد حصہ مسلم آبادی پر مشتمل ہے۔ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن متاثرین سے اظہار یکجہتی کے لئے تمام خاندانوں سے ملیں۔ حکومت کی طرف سے مقتولین کے لئے ٹیکس فری فیونرل گرانٹ فراہم کی گئی، مجروحین کے لئے گھروں اور ہسپتالوں میں امدادی سہولیات فراہم کی گئیں۔ مقتولین کی آمدنی کا ماہانہ 80 فیصد متاثرہ خاندانوں کو ملتا رہا، اسی طرح مجروحین کو بھی ان کی صحت کی بحالی تک ان کی ہفتہ وار آمدنی کا 80 فیصد حصہ ملتا رہا، ان کے بچوں کے لئے تعلیم، چائلڈ کیئر، نرسری، ہیلتھ سپورٹ کے ٹھوس اور دیرپا اقدامات کیے گئے۔ یہ سانحہ 15 مارچ کو ہوا اور 20 مارچ تک نیوزی لینڈ کی عوام نے ساڑھے چار ملین ڈالر کا فنڈ اور جیوایش فیڈریشن نے پینسٹھ ہزار ڈالر کا فنڈ حکومتی پیکج میں شامل کروا دیا ( یہ پہلے ہفتے کے اعداد و شمار ہیں )

اس سانحے میں لواحقین میں سے خاندان کے ان افراد کو نامزد کیا گیا جو سانحے کے بعد مقتول کے حصے کی ذمہ داریاں ادا کر رہے تھے یا ان کے بعد خاندان کے کفیل قرار پائے۔ تمام فنڈز، ڈونیشنز وغیرہ کا ریکارڈ ایک عارضی ویب سائٹ پر پبلش کر دیا گیا کہ لواحقین اور ڈونرز اس بات کی تصدیق کرسکیں کہ ان کے ساتھ ہوئے سانحے کو کوئی کیش کروا کر فراڈ نہیں کر رہا۔ اس سب سے بڑھ کر ملک کی سیاسی قیادت نے مقتولین کی تدفین اور امداد کے وقت معذرت خواہانہ اور ہمدردانہ رویہ اختیار کیا انہوں نے اپنے رویے اور عمل سے اپنی انسان دوستی کو ثابت کیا۔

4 مارچ 2022 کو پشاور کی مسجد کوچہ رسالدار میں خودکش حملہ ہوا، جس میں 72 افراد شہید ہوئے اور اتنی ہی تعداد میں شدید زخمی، کئی زخمی جان کی بازی صرف اس وجہ سے ہار گئے کہ صوبے کے سب سے بڑے ہسپتال ایل آر ایچ میں ایسی ہنگامی صورتحال سے نپٹنے کے مناسب انتظامات موجود نہیں تھے۔ کئی گھروں میں ایک سے زائد جنازے موجود تھے اور وہی خاندان اپنی مدد آپ کے تحت ہسپتالوں، قبرستانوں اور امام بارگاہوں میں خود مصروف تھے۔

پاکستان میں شیعہ آبادی 14، 15 فیصد کے قریب ہے لیکن حالات یہ ہیں کہ اعلی سیاسی قیادت، اور سیاسی تحریکوں میں سے صرف اے این پی کے غلام بلور اور ہارون بلور شہید کی اہلیہ نے متاثرین سے خود آ کر اظہار افسوس کیا۔ دھماکہ خودکش تھا تو یہ تسلیم کردہ بات تھی کہ قاتل اپنی موت مر گیا وہی رٹے رٹائے مذمتی بیانئے، وہی قانونی کارروائیاں وہی ملزم کے نادرا ریکارڈ اور ڈی این اے ٹیسٹ والی ٹرک کی بتیاں۔

قومی سطح پر اتنا بڑا سانحہ ہونے کے بعد سب سے زیادہ دکھ اور حیرت کی بات یہ تھی کہ سیاسی جماعتیں اپنے مفادات میں اس سانحے کو فراموش کر بیٹھی تھیں، ان کے لیے بلاول کا تقریر کے دوران بولا گیا غلط جملہ ”کانپیں ٹانگ رہی ہیں“ 72 لاشوں سے زیادہ اہم موضوع تھا، خود پی پی پی میڈیا سیل نے آصفہ پر گرنے والے ڈرون کی مذمت کی لیکن سانحہ پشاور کی حساسیت اور سنگینی کو فراموش کر بیٹھے۔ یہ سیاسی قیادتوں کو عوام صرف تب یاد رہتے ہیں جب انہیں ووٹ چاہیے ہوں، دھماکوں اور اموات پر تعزیت کرنا ان کا شیوہ نہیں ہے۔

پشاور کی شیعہ برادری اس واقعے کے فوری بعد احتجاج یا دھرنے کی حالت میں تھی ہی نہیں کہ جنازوں اور زخمیوں نے ہر گھر سے زندگی کو معزول کر رکھا تھا، دوسری طرف قوم کے بڑے خاموش تھے نہ قاتلوں کا حساب مانگا گیا نہ تفتیش کے لئے شور اٹھا تو انفرادی طور پر زخم خوردہ خاندان کیا کرتے، رمضان کی آمد سے قبل شہدا کے چہلم کروائے گئے، رمضان گزرا، عید الفطر، عیدالاضحی۔ شہدا کے بعد ان گھرانوں کے کفیلوں کے روزگار یا ان کے بچوں کی تعلیم یا دیگر معاملات میں حکومت کی طرف سے کوئی خاطر خواہ معاونت نہ کی گئی، اپنی مدد آپ کے تحت چند تنظیموں نے کام کیا وہاں بھی تعلقات کی بنیاد پر با اثر اور طاقتور افراد مستحقین کا حق لے گئے۔

بارہا پڑھا کہ کفر کی حکومت چل سکتی ہے پر ظلم کی نہیں، ایک لادین ملک کی سیاسی قیادت اور عوام کا رویہ کسی سانحے پر عملی رویہ کیسا تھا اور پاکستان میں پہ در پہ ہونے والے حوادث اور سانحوں کو دیکھ کر حیرت نہیں ہوتی کہ ریاست مدینہ کے باسی روز قیامت کی دعائیں اس امید پہ مانگتے ہیں کہ شاید اسی صورت ان کو ان کا حق اور انصاف ملے اگر اب بھی پشاور سے اٹھنے والے ان نوحوں پہ یقین نہ ہوتو حالیہ سیلاب زدگان اور اقتدار کی ہوس میں اندھے سیاستدانوں کو دیکھ کر خود فیصلہ کر لیں۔ تحت چند تنظیموں نے کام کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments