کیا ہم آج بھی غلام ہیں؟


 

ہم آج اپنا 75 واں یوم آزادی منا رہے ہیں۔ کسی بھی آزاد ریاست کے لئے 75 سال کا طویل عرصہ ایک معانی رکھتا ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ شمال مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک جن میں چین، شمالی و جنوبی کوریا، جاپان، انڈونیشیا، ملائشیا، فلپائن، سنگاپور، تھائی لینڈ، اور تائیوان اور ویت نام وغیرہ شامل ہیں ترقی کے بام عروج پر ہیں ان ممالک کی سیاسی، معاشی، سائنسی و اقتصادی ترقی ہم سے ڈھکی چھپی نہیں ہے اور یہ ممالک مکمل طور پر خود مختار آزاد مما لک کے طور پر ایک زمینی حیثیت رکھتے ہیں۔

دنیا جانتی ہے کہ یہ ریاستیں مذہب و نظریات سے بالا تر ہو کر انسانی اقدار، عوامی مفاد اور دور حاضر کے چیلنجز کو سامنے رکھتے ہوئے ترقی کی منازل طے کر رہی ہیں۔ ان ممالک کے شہری سیاسی اور مذہبی تعصبات سے بالا تر ہو کر نہ صرف اعلٰی زندگی بسر کر رہے ہیں بلکہ ترقی کی اس دوڑ میں شامل ہو کر اپنا کلیدی کردار بھی ادا کر رہے ہیں۔ ان ممالک کا اپنا اپنا مذہب ہے اور کسی کو دوسرے کے مذہب میں ٹانگ اڑانے سے کوئی سرو کار نہیں ہے اور اسی میں قانون کی بالادستی کامیابی و ترقی کا راز ہے۔

ان ممالک میں جرم جرم کی حیثیت رکھتا ہے جبکہ ان کا تعلق کسی عقیدے یا مذہب سے نہیں ہوتا۔ قانون کی بالا دستی ان کا اولین مقصد ہے۔ 1947 ء سے لے کر تا حال جاری سازشوں نے پاکستان کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ پاکستان کو اگر صرف ملائیت کے سہارے چھوڑا جاتا تو شاید آج ہماری تاریخ ایسی نہ ہوتی اور پاکستان کی حالت بہتر ہوتی۔ ریاستیں مذہب و نظریات سے بالا ہو کر انسانی اقدار، عوامی مفاد اور دور حاضر کے چیلنجز کو سامنے رکھتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہیں۔ ان ممالک کے شہری سیاسی، مذہبی تعصبات کے بغیر نہ صرف زندگی بسر کر رہے ہیں بلکہ ملکی ترقی میں کلیدی کردار بھی ادا کر رہے ہیں۔ ملک سب کا ، مذہب اپنا اپنا۔ قانون کی بالادستی کامیابی و ترقی کی کنجی ہے۔ ان ممالک کی پولیس کے نزدیک جرم بس جرم ہے، اس کا کوئی عقیدہ، مذہب نہیں ہوتا۔

قیام پاکستان کے مقاصد کے حوالے سے بنیادی طور پر دو نکتہ ہائے نظر ہیں۔ ایک نکتہ نظر رکھنے والوں کا دعوی ہے کہ پاکستان اسلام کے لیے بنا تھا۔ جبکہ دوسرے نکتہ نظر کھنے والے یہ موقف اختیار کرتے ہیں کہ پاکستان کے قیام کا مقصد مسلمانان ہند کے مذہبی، سیاسی، ثقافتی، معاشی حقوق و مفادات اور تہذیبی شناخت کا تحفظ تھا۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایک مکتبہ فکر کے مطابق پاکستان کا نصب العین ایک خالص مذہبی ریاست ”کا قیام تھا۔

جبکہ دوسرے کے نزدیک ایک“ مسلمان ریاست ”کی تشکیل اس کا مقصد تھا۔ نظریہ پاکستان سے مراد یہ تصور ہے کہ متحدہ ہندوستان کے مسلمان، ہندوؤں، سکھوں اور دوسرے مذاہب کے لوگوں سے یکسر مختلف اور منفرد ہیں ہندوستانی مسلمانوں کی صحیح اساس دین اسلام ہے اور ہندو ستان میں رہنے والے دوسرے مذاہب سے بالکل مختلف ہے، مسلمانوں کا عبادات، ثقافت اور روایات ہندوؤں کے طریق عبادت، ثقافت اور روایات سے مختلف ہیں اس نظریے کو دو قومی نظریہ کہا جاتا ہے جس کی بنیاد پر 14 اگست 1947 ء کو پاکستان معرض وجود میں آیا اور ہمارے رجائیت پسند مسلمانوں نے اس کی اساس ملائیت پر رکھی۔

ہمارے یہاں تین رجحانات پائے جاتے ہیں۔ ایک ملائیت، دو سسرا سوشلسٹ انقلابی رجحان اور تیسرا لبرل جمہوریت پسندی۔ ملائیت کا رجحان ہے کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اور اسے اسلامی ہی رہنا چاہیے۔ اور اسلامی نظام کے علاوہ کسی اور نظام کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ گو کہ پاکستانی ریاست کا بالائی ڈھانچہ اسلامی روایات پر مشتمل ہے لیکن یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس کا معاشی نظام سرمایہ دارانہ نوآبادیاتی طرز پر قائم ہے۔ تاریخی طور پر تو ملائیت اور روشن خیالی، جاگیردار اور سرمایہ دار طبقے کے نمائندہ فکری رجحان رکھتے ہیں اور ایک دوسرے سے شدید اختلافات رکھتے آئے ہیں لیکن نوآبادیاتی استعماری نظام میں ہمیں ان کا طبقاتی گٹھ جوڑ بھی اکثر دیکھے کو ملتا ہے۔

سرمایہ دار یورپی ریاستوں نے ایشیاء، افریقہ، مشرقی یورپ اور جنوبی امریکا کے نوآبادیاتی ملکوں میں مذہبی انتہا پسند قوتوں کے ساتھ اور فوجی آمریتوں کے ساتھ تعاون کیا اور آزادی کی جمہوری تحریکوں کے آگے اپنی قدامت پسندی کے بند باندھنے کی شرمناک کوششیں کیں۔ مثلاً افغان جہاد میں امریکہ اور برطانیہ جیسی لبرل جمہوری ریاستوں نے سعودی عرب جیسی ملائیت ریاست کے ساتھ مل کر مذہبی دہشت گردوں کے ذریعے افغانستان میں منتخب سوشلسٹ جمہوری حکومت کو تہہ تیغ کیا۔ عوامی ترقی کی امنگوں کے خلاف لبرل ازم اور مذہبی انتہا پسندی کا یہ شرمناک گٹھ جوڑ آج کل ہمیں شام، عراق، یمن اور یوکرین میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔

ملائیت کے تنگ نظر روئے کے مدمقابل یہ جمہوری رجحان ہے کہ پاکستان کو ایک سیکولر ریاست ہونا چاہیے۔ ریاست کے نزدیک تمام شہری برابر ہونے چاہئیں خواہ ان کا مذہب کچھ بھی ہو۔ پاکستان کا ہندو اور، عیسائی شہری بھی اتنے ہی محب وطن ہیں جتنا ایک مسلمان شہری۔ یہ رجحانات ملائیت اور جمہوری ریاست یعنی فیوڈل نظام کی باقیات اور سرمایہ دارانہ جمہوری نظام یعنی لبرل ازم کے درمیان تضاد کو ظاہر کرتے ہیں جمہوری ریاست کے قیام کے اپنے مطالبے کو سیکیولرازم تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ اس سے آگے بڑھ کر صوبائی خودمختاری اور قومی حقوق کو بھی اس میں شامل کیا۔ جمہوری نکتہ نظر سے پاکستان کوایک ایسی ریاست کے طور پر بھی دیکھتے ہیں جس میں پاکستان کے تمام صوبوں اور قوموں کو خودمختاری حاصل ہے سوچیں تو ہمیں آزادی حاصل کیے 75 سال ہو گئے لیکن ذرا سوچیں کیا ہم آزاد ہیں۔ ہم 75 سالوں کی آزادی باوجود آج بھی غلام ہیں مغرب کے، سرمایہ داروں کے اور جاگیرداروں کے۔

اگر پاکستان کو موجودہ غلامی اور اس کے نتیجے میں ممکنہ نقصانات سے بچانا ہے تو اس ملک کو ٰآئی ایم ایف کے چنگل سے آزاد کرانا ہو گا۔ ملک کی اشرافیہ کی مراعات، شو شا، پروٹوکول، محل نما سرکاری گھر، فری گھریلو ملازمین، فری ڈرائیور، فری پیٹرول، فری بجلی۔ ان کے اللے تللوں کو سختی سے روک کر یہ سب کچھ بدلنا ہو گا۔ عیاشی کرنی ہے تو اپنے پیسوں سے کریں، بڑے محلوں میں رہنے کا شوق ہے تو اپنے پیسے سے پورا کریں۔ سرکاری خزانے پر یہ سب عیاشیاں بند کریں یہ جو ۔ ملک میں سیاست دانوں نے لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے جس کو ۔ موقع ملتا ہے وہ ہی پیارے وطن کو لوٹنے میں۔ مصروف ہے ضروری ہے کہ اس لوٹ مار کو ۔ ختم کیا جائے اپنے ملک سے سچی محبت کریں ہمارا ملک ترقی کرے اور ہم حقیقی معنوں آزادی کا جشن منا سکیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments