شیخ ایاز: ہر صدی کے شاعر اور ادیب


عالمی شہرت یافتہ شاعر شیخ ایاز سندھی زبان کے غیرمعمولی، غیر روایتی بڑے جدید، لبرل اور ترقی پسند شاعر، ادیب اور دانشور ہیں۔ شیخ ایاز بلاشبہ 20 ویں صدی کے اعلی پایہ کے جدید، روشن خیال، وطن دوست، انقلابی، ترقی پسند لیجنڈری شاعر اور ادیب ہیں۔ شیخ ایاز: کی زیادہ وجہ شہرت شاعر کے طور پر ہے مگر شیخ ایاز افسانے، اوپیرا، منظوم ذرامہ نگاری اور نثر نویسی میں بھی بہت بڑا اور اعلی مقام رکھتے ہیں۔ ان کی شاعری میں سوچ و فکر کی دریا اور سمندر جیسی گہرائی ہے۔ ان کی شاعری اور نثر نویسی کے پہلوؤں پر باریک بینی سے جب نظر ڈالتے ہیں تو یہ ہر پہلو میں بہت گہرے اور گوناگون نظر آتے ہیں۔

شیخ ایاز کی اعلی شاعری اور ان کے نثر میں جمالیات، سیاسی اور سماجی سوچ فکر میں گہرائی، قومی، عوامی، اجتماعی شعور، حب الوطنی، ترقی پسند مکتب فکر اور لبرل نظریوں کی ترجمانی ملتی ہے۔ تخیل میں وسعت اور فکری گہرائی کے حوالے سے شیخ ایاز کی شاعری ٹھاٹھیں مارتا دریائے سندھ ہے۔ فکری اڑان کے لحاظ سے شیخ ایاز نے آسمان کی بلندیوں کو چھوا ہے۔ اپنے ہم عصر شعراء اور ادیبوں کی بھیڑ میں شیخ ایاز اس لیے بھی اہمیت کے حامل ہیں کہ اس نے فارسی زدگی، رجعت پسندی، دقیانوسی اور فرسودہ شاعرانہ روایات کو مسترد کرتے ہوئے جدیدیت کی ادبی روایات کو نہ صرف تخلیقوں میں شامل کیا بلکہ اس حوالے سے اپنے ہم عصر دور پر بڑا اثر انداز ہوئے۔

شیخ ایاز نے سندھی زبان کے متروک لفظوں اور سنسکرت یا ہندی زبان کے سمجھے جانے والے سندھی زبان کے لفظوں کو اپنی شاعری میں استعمال کر کے ان میں سانس ڈالنے کی مسیحائی کرتے ہوئے نئے سرے سے وہ الفاظ زندہ کیے اور وہ الفاظ استعمال کرنے کی روایت ڈالی۔ اس کی شروعاتی شاعری میں فارسی کا اثر ہے مگر بعد میں انہوں نے خالص سندھی زبان کو اظہار کا ذریعہ بنایا اور ثابت کیا کے سندھی زبان صدیوں سے خالص اور شاہوکار زبان رہی ہے جو سنسکرتی زبان نہیں مگر ایک الگ زرخیز دراوڑی زبان ہے جو ویدک دور میں سنسکرت پر بھی اثر انداز رہی۔ انہوں نے اپنی تحریروں اور شاعری میں وہ بھولے بسرے الفاظ استعمال کیے جو ویدک دور سے سندھی زبان میں مروج تھے۔ اس لئے انہوں نے سندھی شاعری اور ادب پر اپنی منفرد مہر لگائی ہے۔

یہ سندھی زبان کے وہ عظیم شاعر ہیں جو اپنے دور پر تو اثر انداز رہے مگر آنے والے ادوار پر بھی اثر انداز رہیں گے۔

ان کی شاعری اور نثری ادب کی اصناف کے فن کا معیار بہت بلند اور اعلی ہے۔ بلکہ سندھی زبان کے لیجنڈری شاعر استاد بخاری اور شیخ ایاز وہ شاعر ہیں جنہوں نے سندھی زبان کو نئے الفاظ، اصطلاح، استعارے اور تشبیہات سے سندھی زبان کی زرخیزی میں اضافہ کیا۔ انہوں نے شاعری کی اصناف کی ہیئتوں میں نئے اور کامیاب تجربے بھی کیے ہیں۔ با الخصوص سندھی گیت کی صنف میں دونوں شعراء نے کمال کے کامیاب تجربے کیے ہیں۔ شیخ ایاز نے شاعری کی عروضی اصناف اور سندھی کلاسیکی شاعری کی اصناف میں شاعری کی ہے۔ شیخ ایاز نے سندھی زبان میں غزل کی صنف کو کلاسیکی حیثیت کے قریب لا کر کھڑا کیا ہے۔ یہ ان کی اعلی شاعرانہ صلاحیتوں کا ہی کمال ہے۔

استاد بخاری، نارائن شیام اور شیخ ایاز سندھی زبان کے ایسے شعراء میں سے ہیں جنہوں نے سندھی زبان کی شاعری کی سرزمین کو مالا مال اور زرخیز کیا ہے۔ سندھی زبان کے شعراء میں شیخ ایاز واحد شاعر ہیں جنہوں نے عالمی شہرت حاصل کی ہے۔ ان کا نام انسائکلوپیڈیا برٹینیکا میں شامل ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ شیخ ایاز وہ شاعر ہیں حس کو سندھی زبان، ادب اور عالمی ادب پر ملکہ حاصل تھا۔ وہ زندگی میں عالمی ادب کے حوالے سے خود کو اپڈیٹ رکھتے تھے۔

شیخ ایاز نے سندھی زبان کے عظیم شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری کا اردو میں ترجمہ کیا ہے جس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ سندھی اور اردو زبانوں پر انہیں کتنی بڑی دسترس حاصل تھی۔ انہیں انگریزی زبان ہر بھی عبور حاصل تھا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ وہ خود کو عالمی ادب سے اپڈیٹ رکھ سکتے تھے۔

عالمی شہرت یافتہ شاعر شیخ ایاز کی شاعری صرف ان کے اپنے بیسویں صدی کے دور کی نہیں بلکہ ہر آنے والے دور اور ہر صدی کی ترجمان اور عکاس رہے گی۔ اس نے شاعری میں کلاسک حیثیت کو چھوا ہے۔ اس لئے یہ ہر آنے والی صدی کے شاعر اور ادیب ہیں۔ ان کی شاعری میں عالمگیری سوچ فکر کی جو خوشبؤ ہے وہ لازوال ہے۔ ان کی شاعری کو فنا چھو نہیں سکتی۔ ان کی شاعری میں اتنا دوام ہے جو کبھی مر نہیں سکتی۔ ان کی لافانی اور لازوال شاعری ہر دور میں ہر حوالے سے سندھی سماج کی ترجمان رہے گی۔ جب تک دنیا میں رومانس، حسن کی حسناکیاں، فطرت کی رنگینیاں، وطن دوستی، انسان دوستی، نا انصافی، ظلم و جبر، محبتوں کے نفیس اور رنگین احساس، وفائیں اور جفائیں رہین گی تب تک ان کی عکاس شیخ ایاز کی شاعری زندہ رہے گی تو شیخ ایاز بھی اپنی ایسی شاعری کے روپ میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ شیخ ایاز کے کچھ شعر

*دھرتی تیرے دیکھے بہادر، ان کے زخمی دیکھے عضوے،
جان دی لڑتے لڑتے جنہوں نے، وہ خود کو خوب منوا کہ گئے۔
گر تم نے نہیں یہ جانا، ہے سندھ کا کون رہائشی۔
تیرا فضول جینا، تیری مٹی بے شرمی بے شناسی۔
میں نے گیت کہے تھے کویل پر،
کل کیسو کے پھول کی ٹہنی کے،
جھل مل جھل مل گیت ہوں کہتا،
کچھ گیت دکھی درانتوں کے،
کچھ گیت ہیں نگلے ہاروں کے۔
رات آئی گئی چل کہ آئے نہ تم،
رات شبنم میں *رانا *کاک روتی رہی۔
یہ جنگ و جدل
سامنے ہے نارائن شیام
ان کی میرے شعر و سخن ہیں ایک جیسے
قول بھی ہیں ایک جیسے
شاعری کی کاک ندی کا مالک ہے یہ
میرے شعر کے سرخ رنگوں کے
رنگ بھی ہیں ایک جیسے
میں اس پر کیسے
بندوق اٹھاؤں
میں اس پر کیسے
گولی چلاؤں۔
*دھرتی = زمین، وطن
*مٹی= وجود، آدمی کا مٹی سے بننے والا پس منظر
*رانا = سندھ کی رومانوی لوک داستان ”مومل رانو“ کا کردار
*کاک = ندی یا دریا کا نام
*نارائن شیام= سندھی زبان کے بڑے شاعر
ترجمہ: عزیز کنگرانی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments