سوشل میڈیا کی اخلاقیات


مابعد جدیدیت کے بارے میں ایک عمومی غلط تاثر یہ ہے کہ اس کی کوئی اخلاقیات نہیں ہے۔ مابعد جدیدیت کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ اس بات کی تخصیص کی جائے کہ یہ اصطلاح کس طرح سے استعمال ہوتی ہے، اس کے اولین فلسفیوں میں ژاں لیوٹارڈ نے مابعد جدیدیت کو جدیدیت سے پیدا ہونے والی کیفیت یعنی پوسٹ ماڈرنٹی اور اس سے نتیجے میں جنم لینے والے فلسفے کو پوسٹ ماڈرن ازم کے نام سے تفریق کیا۔ لیوٹارڈ نے مابعد جدیدیت (پوسٹ ماڈرنٹی) کی کیفیت کو صارفیت پسندی کے ثقافتی اور معاشرتی اثرات کی صورت میں بیان کیا۔

جس کا ہم پاکستان کے بدلتے ہوئے ثقافتی تناظر میں مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ یہی تصور سوشل میڈیا کی اخلاقیات کی اساس ہے۔ اس کی مثال وہ تمام تصاویر اور وڈیوز ہیں جن کو بالخصوص سوشل میڈیا پر ٹرینڈ سیٹ کرنے کے لئے بنا یا جاتا ہے۔ حتی کے فیس بک، انسٹا گرام اور ٹک ٹاک کی پروفائل تک کو یوں تشکیل دیا جاتا ہے کہ استعمال کنندہ کو جاذب نظر شخص کے طور پر پیش کیا جا سکے اور اس کی مدد سے فالورز بڑھائے جائیں۔ لہٰذا کسی کی پروفائل پر پرہیز گاری کی نمائندہ تصویر کا مقصد لوگوں کو راہ راست کی جانب راغب کرنے کی بجائے اس کی مدد سے اپنے انفلونس میں لوگوں کو شامل کرنا ہے۔ یہ سب صارفیت پسندی ہے۔

گزشتہ دو سالوں کے دوران سوشل میڈیا کا استعمال اس قدر بڑھ گیا ہے کہ اس نے ہر عمر اور طبقے کے ساتھ زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کو بھی اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ شہروں میں ہر کوئی سمارٹ فون ہاتھ میں لئے کسی ایسے منظر کو عکس بند کرنے کی تگ و دو پھرتا ہے جو وائرل ہو کر اس کی شہرت میں اضافے کا سبب بن سکے وگرنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ کسی کی مدد کر رہے ہوں اور عین اسی وقت پر ایک شخص اس کارخیر میں شامل ہونے کی بجائے اس کی تصویر بنا رہا ہو۔ صارفیت پسندی کے اس رجحان نے لوگوں کو اس حد تک پہنچا دیا ہے کہ خود ایسا کوئی موقع گھڑ لیا جاتا ہے تاکہ سوشل میڈیا پر پذیرائی حاصل کی جا سکے۔ تاہم سوشل میڈیا پر کوئی بھی ٹرینڈ دیر پا نہیں رہتا جو صارفیت کی ہی ایک پہلو ہے۔

سیاست اور مذہبی معاملات میں بھی صارفیت پسندی نے اپنی مضبوط جگہ بنا لی ہے۔ باقاعدہ سوشل میڈیا سیل ان دونوں شعبہ زندگی سے منسلک افراد کی زندگی اور باتوں کی تشہیر کرنے کا کام سر انجام دیتے ہیں۔ حقیقی زندگی میں آپ کچھ بھی ہوں اگر سوشل میڈیا پر آپ کا تاثر اچھا ہے تو کوئی بھی آپ کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہو سکتا۔ لیکن سوشل میڈیا صارفین کی بڑی تعداد نے پوسٹ کرنے سے پہلے اس کے حقائق اور پہنچنے والے نقصان کے متعلق شاذ و نادر ہی سوچتی ہے۔ یہ رویہ مابعد جدیدیت کی اخلاقیات کا عکاس ہے جس کے مطابق سچائی اور اخلاقیات زبان کے سانچے میں ترتیب پاتی ہے اور اس کی کوئی آفاقی حیثیت نہیں۔ چنانچہ سوشل میڈیا میں بھی آپ خود اپنی اخلاقی حدود کے بنانے کے ذمہ دار ہیں۔

صارفیت پسندی کا یہ رجحان ہر عام و خاص کی زندگی میں سرایت کرتا جا رہا ہے۔ اگر آپ با غور مشاہدہ کریں تو سوشل میڈیا انفلونسر ایک مخصوص قسم کی زندگی کی نمائندگی کرتے ہیں، جس میں لباس، کھانے کے انداز، کپڑوں کے برائینڈ سے لے کر ہر قسم کا انداز زندگی شامل ہے۔ اس کے پس منظر میں ایک مخصوص بیانیہ ترویج دیا جاتا ہے جو صارفیت پسندی کو تقویت دیتا ہے۔ جس کا مقصد فالورز کو یہ قائل کرنا ہے کہ انفلونسر کی پیش کردہ تصویر حقیقت ہے جس کو جانچنے کا معیار یا پیمانہ خود صارف ہے۔ یہی سوشل میڈیا کی اخلاقیات ہے جس سے اس کا تانا بانا بنا ہوا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments