کیا خواجہ سرا شادی کر سکتے ہیں؟


خدا نے کائنات کو بڑی خوبصورتی سے تشکیل دیا ہے۔ اس میں پائی جانے والی کوئی چیز بے مقصد نہیں۔ ہر زندہ چیز دنیا میں آتی ہے، جوان ہو کر نسل آگے بڑھاتی ہے، انھیں پروان چڑھا کر دنیا سے رخصت ہوجاتی ہے۔ زمین پر زندگی کی شروعات سے یہ عمل اسی طرح جاری ہے۔

خاندان بنانا، اپنی نسل کو آگے بڑھانا فطری عمل ہے۔ فرض کریں کہ ہم کسی جاندار پر نسل آگے بڑھانے پر پابندی لگا دیتے ہیں۔ اب ذرا سوچیں کہ اس پابندی کے بعد اس کی زندگی کا کیا مقصد رہ جائے گا؟

وطن عزیز میں معذور افراد اور خواجہ سراؤں سے شادی کے حوالے سے بہت سے تحفظات پائے جاتے ہیں۔ 2016 ء میں جب میں نے معذور افراد کے حقوق کے حوالے سے لکھنا شروع کیا تو اس وقت لوگ اپنے جائز انسانی حقوق سے ناواقف تھے۔ معذور افراد کا کوئی وٹس ایپ اور سوشل میڈیا گروپ نہیں تھا۔ ہماری ٹیم نے لوگوں سے کہنا شروع کیا کہ ایک دوسرے سے نمبرز شیئر کرو، ایک دوسرے کا دکھ درد بانٹنے کی کوشش کرو، ایک دوسرے کا سہارا بنو۔ پھر ہم نے ویڈیو پیغامات میں معذور لڑکوں اور لڑکیوں کو دوستی کرنے کا مشورہ دیا۔

خدا کا شکر ہے کہ ہماری باتیں لوگوں کو سمجھ آنا شروع ہوئیں۔ معذور افراد سے دوستی کے دوران مجھے پتہ چلا کہ ہمارے ساری دوست کنوارے ہیں۔ پڑھے لکھے، انپڑھ، امیر غریب، نوکری اور کاروبار کرنے والے سب کنوارے ہیں۔

یہ بات میرے لیے حیران کن تھی۔ میں نے معذور افراد کی شادی پر ایک تحریر لکھی تو اس پر سینکڑوں کمنٹس آ گئے جس سے مجھے پتہ چلا کہ معذور افراد کے دیگر مسائل کے ساتھ شادی بھی بڑا مسئلہ ہے۔ پھر کیا تھا میں اس مسئلے پر لکھتا چلا گیا۔ میری تھوڑی سی محنت کی وجہ سے آج سینکڑوں معذور افراد شادی کے بندھن میں بندھ چکے ہیں۔ معذور لڑکے اور لڑکیوں کے افیئر چلتے ہیں۔ عام لڑکیوں کی طرح معذور لڑکیاں بھی یہ کہتی نظر آتی ہیں کہ لڑکے ہمیں تنگ کرتے ہیں۔ یہ بڑی اہم تبدیلی ہے اس نے معذور افراد کو جینے کی نئی امنگ فراہم کی ہے۔

فرض کریں میں ایک خواجہ سراء ہوتا۔ میں گھر سے نکالا گیا ہوتا۔ میرے والدین، بھائی بہن اور خاندان والے مجھ سے تعلق نہیں رکھتے۔ میں ایک گرو کا چیلہ ہوتا۔ بھیک، ناچ گانا یا سیکس ورک سے اپنا پیٹ بھرتا۔ کمانے کے لئے ڈیرے سے قدم باہر رکھتے ہی لوگوں کی چھیڑ چھاڑ، بدتمیزی اور ہراسانی کا سامنا کرتا۔ میری شخصیت اور کمانے کے طریقے کو معاشرے میں نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا۔ مجھے اذیت پہنچانے، مارنے پیٹنے، مجھ سے پیسے چھیننے، میری عزت لوٹنے پر نہ قانون حرکت میں آتا اور نہ ہی معاشرہ میرے ساتھ کھڑا ہوتا۔

اپنوں نے تعلق توڑا دنیا نیا رشتہ بنانے پر تیار نہیں۔ ایسے میں میرے ذہن میں سوال گردش کرتے کہ
میں کون ہوں؟
میری تخلیق کا کیا مقصد ہے؟
کیا میں بھی کبھی رشتے ناتے بنا پاوں گا؟
کیا میں بھی کبھی سکھ کا سانس لے سکوں گا؟
کیا میرے حقوق بھی انسانی حقوق تسلیم جائیں گے؟
کیوں نہ اس زندگی سے چھٹکارا ہی حاصل کر لیا جائے؟

چند ماہ قبل تنظیم اتحاد امت کے مرکزی صدر ضیاء الدین نقش بندی نے پچاس مفتیان کے ساتھ مل کر ایک فتوٰی جاری کیا ہے۔ جس کی رو سے ایسے خواجہ سراء جو مردانہ خصوصیات کے حامل ہیں۔ جنھیں داڑھی آتی ہو وہ عام عورت یا زنانہ خصوصیات کی حامل خواجہ سراء سے شادی کر سکتا ہے۔ اسی طرح زنانہ خصوصیات کی حامل خواجہ سراء عورت عام مرد یا مردانہ خصوصیات کے حامل خواجہ سراء مرد سے شادی کر سکتی ہے۔ دین میں اس کی ممانعت نہیں ہے۔ مفتی راغب نعیمی نے اس فتوٰے کی حمایت میں بیان جاری کرتے ہوئے اسے شرعی قرار دیا ہے۔ اس خبر کا لنک مجھ سے میڈم صباء گل نے شیئر کیا ہے۔

اس مسئلے پر مختلف مفتی صاحبان پہلے بھی فتوٰے دے چکے ہیں۔ لیکن حکومت، میڈیا اور سول سوسائٹی آگہی عام کرنے میں ناکام رہے ہیں جس کی وجہ سے لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ خواجہ سراء سے شادی جائز نہیں ہے۔

خدا کی مختلف مخلوقات پر نظر دوڑائیں تو آپ حیران رہ جائیں گے۔ شیر خاندان کے ساتھ رہنا پسند کرتا ہے۔ گروپس میں شکار کرتا ہے۔ ٹائیگر نسل تو آگے بڑھاتا ہے لیکن اکیلے رہنا پسند کرتا ہے۔ چیتا بھی خاندان کے ساتھ رہتا ہے۔ جبکہ تیندوا اکیلے رہنا پسند کرتا ہے۔

انسان کو خدا نے اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ انسان مل کر رہنا اور رشتے ناتے بنانا پسند کرتا ہے۔ انسان کی زندگی سے رشتے ختم کر دیے جائیں تو اس کی زندگی بے معنی ہوجاتی ہے۔

خواجہ سراؤں کے مسائل میں علماء کی دلچسپی قابل تحسین ہے۔ یہ فتوٰی خواجہ سراء کمیونٹی کی زندگی سے مایوسی کے خاتمے کا سبب بن سکتا ہے۔ اس مسئلے پر آگہی عام کرنے کی ضرورت ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ اگر سائنس خواجہ سراؤں کے مسائل کو جنسی بیماری قرار دیتی ہے تو اس کے علاج کو غیر اسلامی قرار نہیں دیا جاسکتا اسی طرح ہمارا دین خواجہ سراؤں کو شادی کی اجازت دیتا ہے تو معاشرے کو راستے کی رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments