بنو ہاشم، بنو امیہ اور واقعہ کربلا
جناب عبد المناف ابن قصی کے چار بیٹے تھے ہاشم، مطلب، عبد شمس اور نوفل۔ تاریخ کہتی ہے کہ ہاشم اور شمس دونوں جڑواں پیدا ہوئے تھے اور بعض روایات میں یہ بھی درج ہے کہ ہاشم اور عبد شمس کی پیشانی اور پنجہ آپس میں ملے ہوئے تھے۔ اس وقت کے نجومیوں نے پیشین گوئی کی تھی کہ ان دونوں کی اولادوں میں ہمیشہ رنجش ان بن اور جنگ کے حالات پیدا رہیں گے۔ ان دونوں بھائیوں کے ہی خاندان سے دو خاندان بنو ہاشم اور بنو امیہ کی نسل چلی۔ بنو ہاشم اور بنو امیہ کے درمیان پہلی لڑائی تولیت کعبہ کے لیے جناب ہاشم اور امیہ بن شمس کے درمیان لڑی گئی جب امیہ بن شمس نے جناب ہاشم سے کہا کہ کعبہ پر ہمارا حق زیادہ ہے۔
جناب عبدالمطلب ابن ہاشم ابن عبد مناف اور حرب ابن امیہ ابن عبد شمس کے درمیان ساری زندگی جنگ کی کیفیت رہی جو کہ تاریخ کا حصہ ہے۔ یہاں تک کہ بنو ہاشم کی نسل کو نبوت جیسی فضیلت حاصل ہونے کے بعد بھی دونوں خاندان آپس میں ٹکراتے رہے۔
جناب حضرت محمد ابن عبداللہ ابن عبدالمطلب ابن ہاشم اور ابو سفیان بن حرب ابن امیہ کے درمیان بدر و احد جیسے سے واقعات ہوئے اور دونوں خاندان کی تلوار خون میں نہاتی رہی۔
حضرت علی ابن ابی طالب ابن عبدالمطلب اور معاویہ ابن ابوسفیان کے درمیان جنگ صفین لڑی گئی جس میں بعض روایات میں درج ہے کہ 40 لاکھ مسلمان شہید ہوئے۔ محمد ابو موسیٰ ابن اشعری اور سعد بن ابی وقاص کی ثالثی کے باوجود دونوں اشخاص نے اپنی اپنی خلافت کا اعلان کر دیا۔ حضرت امام حسن اور حضرت معاویہ کے درمیان حضرت علی کی وفات کے بعد جنگ ہوئی جو بعد صلح دستبرداری خلافت حضرت امام حسن پر اختتام پذیر ہوئی۔ حضرت معاویہ کی وفات کے بعد جب یزید بن معاویہ برسر منبر آیا تو اس نے مدینہ کے گورنر ولید بن عتبہ کو خط لکھا کہ امام حسین، عبداللہ ابن عمر اور زبیر ابن عبداللہ سے بیعت لے کر میری خلافت کا اقرار کروایا جائے۔
گورنر مدینہ ولید بن عتبہ نے جناب امام حسین کو اپنے دربار میں بلوایا اور یزید کا خط دے کر کہا کہ آپ یزید کی خلافت کا اقرار کریں۔ یہاں امام حسین نے تاریخی الفاظ کہے کہ ”مجھ جیسا کبھی بھی اس جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا“ امام حسین کے چاہنے والوں نے پوچھا کہ آقا آپ یہ کہہ دیتے کہ میں اس کی بیعت نہیں کرتا امام حسین نے فرمایا کہ آج یہ حق اور باطل کا فیصلہ ہے۔ یہاں باطل فاسق و فاجر، حق اور پاکیزگی کی بیعت مانگ رہا ہے۔
امام عالی مقام نے فرمایا کہ وہ شخص اسلام کا حلیہ بگاڑ رہا ہے شریعت محمدی کو پامال کر رہا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ یزید ان قوانین کو رائج کرنا چاہتا ہے جن کی اسلام اجازت نہیں دیتا جو زمانہ جاہلیت کے قوانین ہیں۔ امام عالی مقام نے فرمایا کہ آج میں اگر یزید کی بیعت کروں تو یزید کو شہ مل جائے گی کہ اسلام کا کوئی محافظ زندہ نہیں رہا۔ آپ عالی مقام نے فرمایا کہ یہ دین اور شریعت میرے نانا کی ہے اور میں اس کی حفاظت کروں گا چاہے اس کے لیے میری جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔ لہذا مجھ جیسا شخص کبھی بھی اس جیسے شخص کی بیعت نہیں کر سکتا۔
اسی مقام پر سابقہ گورنر مدینہ مروان ابن حکم نے ولید کو کہا تھا کہ امام حسین کا سر قلم کر لو یہ تمہارے پاس بہترین موقع ہے ان کے ساتھ کوئی موجود نہیں۔ لیکن جب اس بات کا علم جناب عباس ابن علی کو ہوا جو دربار کے باہر موجود تھے تو وہ مروان ابن حکم کے قتل کے درپے ہو گئے تھے جبکہ مدینہ کے امن کے پیش نظر امام حسین نے جناب عباس کو بڑی مشکل سے قابو کیا۔
ولید نے امام عالی مقام سے کہا کہ یا بیعت کر لیں یا پھر آپ مدینہ چھوڑ دیں آپ کی وجہ سے مدینہ کے حالات خراب ہو رہے ہیں اور مجھے بڑی سخت ہدایات ہے۔ امام عالی مقام کی تمام معاملات اور حالات پر پہلے سے نظر تھی۔ آپ نے اپنے چچا زاد بھائی عقیل بن مسلم کو کوفہ میں سفیر بنا کر بھیجا ہوا تھا۔ جہاں سے انہوں نے امام حسین کو خط روانہ کیا تھا کہ کوفہ کے لوگ آپ کی بیعت اور اطاعت کے لیے تیار ہیں۔ آپ کوفہ تشریف لے آئیں۔
اس ضمن میں کوفہ کے بہت سے لوگوں کے خطوط آپ کے پاس پہنچ چکے تھے۔ امام عالی مقام اپنے اہل و عیال کے ساتھ مدینہ سے براستہ مکہ کوفہ کی طرف عازم سفر ہوئے۔ آپ ذوالحج میں مکہ پہنچے آپ نے حج کے لئے احرام باندھے کہ اس دوران امام حسین کو اطلاع ملی کہ یزید بن معاویہ کی طرف سے کچھ لوگوں کو حاجیوں کے روپ میں امام حسین کو قتل کرنے کا منصوبہ تشکیل دیا گیا ہے۔ امام عالی مقام نے بندھے ہوئے احرام توڑ دیے۔ آپ کے جانثاروں نے آپ کو کہا کہ آپ حج کریں ہم آپ کی حفاظت کے لیے ہر وقت تیار ہیں۔
یہاں امام عالی مقام نے وہ تاریخی الفاظ کہے جو تاریخ کی کتب میں درج ہے کہ اگر مکہ میں مجھے قتل کر دیا گیا تو تاریخ کہے گی کہ حاجی تو رسول کے نواسے کے قاتل ہوتے ہیں۔ آپ حج چھوڑ کر کوفہ کی طرف روانہ ہوئے کہ مقام زبلہ کے مقام پر اپ کو جناب مسلم بن عقیل کی شہادت اور کوفیوں کی بے وفائی کا علم ہوا۔ آپ نے راستہ تبدیل کیا اور دو محرم الحرام کو مقام کربلا پہنچے۔ یہاں آپ کو یزید کی افواج نے گھیرے میں لینا شروع کر دیا۔ تاریخ کہتی ہے کہ امام حسین نے کربلا کی جگہ خریدی اور اپنے اہل و عیال کو کہا کہ یہیں پر خیمے لگائے جائیں۔
دو محرم سے آٹھ محرم تک امام حسین اور یزیدی افواج کے درمیان چھوٹی موٹی جھڑپیں ہوتی رہیں۔ گفت و شنید ہوتی رہی۔ آپ سے بار بار بیعت کا تقاضا کیا جاتا رہا۔ 9 محرم کی صبح یزیدی افواج کی طرف سے جنگ کے نقارے بجائے گئے اور امام حسین کے خیام کو گھیرے میں لینا شروع کر دیا گیا۔ امام حسین نے یزیدی سپاہ سے ایک دن کے لیے جنگ ٹالنے کا کہا کہ کل لڑیں گے۔ آپ نے فرمایا کہ میں کچھ حجت تمام کرنا چاہتا ہوں اور ایک رات مزید اپنے رب کی عبادت کرنا چاہتا ہوں۔
اسی رات کو شب عاشورہ کہتے ہیں کہ جب امام حسین نے اپنے خیمے میں چراغ گل کر دیا اور اپنے جانثاروں کو کہا کہ یزید کے ساتھ لڑائی جھگڑا بیعت کا تنازعہ میرا ہے۔ یزید صرف مجھ سے بیعت چاہتا ہے۔ اس کو آپ لوگوں سے کوئی سروکار نہیں اگر آپ چھوڑ کے جانا چاہتے ہیں تو چراغ بجھا ہوا ہے جو جانا چاہتا ہے چلا جائے۔ لیکن آفرین ہے امام حسین کے جانثاروں پر کہ ان میں سے کوئی بھی امام حسین کو چھوڑ کر نہ گیا۔ دس محرم کی صبح تک عمر ابن سعد شہادت امام حسین سے قبل تک بیعت کی استدعا کرتا رہا کہ کسی طرح امام حسین بیعت پر آمادہ ہو جائیں۔
لیکن امام حسین نے آخری وقت تک بیعت سے انکار کر دیا یہاں تک کہ بوقت ظہر 10 محرم سن 61 ء ہجری کو میدان کربلا میں ملعون شمر بن ذی الجوشن نے امام حسین کا سر قلم کر دیا۔ اناللہ و انا الیہ راجعون۔ لیکن کیا یزید کو فتح نصیب ہوئی؟ کیا مر جانا ہی شکست ہوتا ہے؟ مقصد یزید تھا امام حسین سے بیعت لینا۔ مقصد امام حسین تھا یزید کی بیعت نہ کرنا۔ امام عالی مقام نے سر کٹوا کر ثابت کر دیا کہ کامیابی وہی ہے جو مقصد میں کامیابی ہو۔
حسینیت کوئی مذہب نہیں ہے۔ حسینیت ایک نظریے کا نام ہے۔ حسینیت ایک سکول آف تھاٹ کا نام ہے۔ آج لفظ حسین استعارہ ہے باطل کے سامنے ڈٹ جانے کا۔ فکر حسین موت ہے یزیدی فکر کی سوچ کی۔ ہم امام حسین کی اپنے اہل و عیال سمیت اسلام کے لئے لازوال قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
- پاکستان کا نظام تعلیم قبل مسیح سے بھی بوسیدہ ہے - 23/10/2023
- بے جا ٹیکس، مہنگائی کے نقصانات - 27/08/2023
- فی امان الله اے ماں - 24/07/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).