بلوچستان کے اساتذہ 20 ایام سے بھوک ہڑتال پر


بلوچستان کے معمر، سفید ریش اور معزز اساتذہ اپنے جائز حقوق کے حصول کے لیے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے 15 جولائی سے بھوک ہڑتال پر بیٹھے ہیں اور حکومت بلوچستان کی جانب سے اب تک کوئی سنجیدہ اور قابل ذکر پیش رفت دیکھنے کو نہیں ملی ہے، جس پر صرف افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔

اساتذہ معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کسی بھی ریاست کی بقا کا انحصار بنیادی طور پر اساتذہ ہی پر ہے۔ اساتذہ وہ پیشہ ور ہوتے ہیں جو عصری تقاضوں کے مطابق ریاست کو ماہر، تجربہ کار اور باصلاحیت ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر، بینکار، صحافی، پولیس، لیویز، سیاست دان، وکلاء، سکالرز، حکمران، دانش ور اور سائنس دان عطا کرتے ہیں۔ اپنے مقدس پیشے کی بنا پر اساتذہ کو معاشرے میں نہایت وقار اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

اساتذہ درس و تدریس کے ساتھ ساتھ مردم شماری، انتخابات اور دیگر ایمرجنسی کے مواقع پر بھی اپنی خدمات ریاست کے سپرد کر دیتے ہیں، مگر جب سے درس و تدریس جنس تجارت بن گئی ہے تب سے قانون بنانے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں، باحیثیت سیاست دانوں، بیوروکریٹس، افسروں اور کاروباری افراد کے لیے استاد اور تعلیم کا نہ صرف متبادل مل گیا ہے، بل کہ استاد اور تعلیم کی تقدیس بھی داؤ پر لگ گئی ہے۔

2017 کی مردم شماری کے مطابق بلوچستان میں شرح خواندگی 43 0 5 فی صد ہے۔ الف اعلان کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں اسکولوں کی تعداد تقریباً 15000 ہے، جن میں صرف 6 فی صد ہائی اسکول ہیں۔ 60 فی صد اسکولوں میں صرف ایک استاد تعینات ہے۔ 17 فی صد منظور شدہ اسامیاں خالی پڑی ہیں۔ 80 فی صد اسکولوں میں بجلی، 67 فی صد اسکولوں میں پانی اور 75 فی صد اسکولوں میں بیت الخلاء اور چاردیواری نہیں ہے۔ بلوچستان میں 2 0 5 ملین بچے اسکول نہیں جاتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں جدید ٹکنالوجی کا استعمال ایک خواب بن گیا ہے۔

بلوچستان کے اساتذہ کرام ان محدود سہولیات کے باوجود تعلیمی بہتری کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں، لیکن چند مقتدر اور بورژوا حلقوں کو اساتذہ کی کارکردگی پر تحفظات ہیں۔ ان حلقوں کے مطابق سرکاری اساتذہ اور تعلیمی اداروں کی مجموعی کارکردگی پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی کارکردگی سے کم تر ہے۔ بلوچستان کے سرکاری اسکولوں میں 69 فی صد بچے، نجی اسکولوں میں 25 فی صد بچے اور دینی مدارس میں 6 فی صد بچے زیر تعلیم ہیں۔ نجی اسکولوں میں بہت قلیل تنخواہ پر جدید تعلیم سے آراستہ جوانوں کو عارضی طور پر تعینات کیا جاتا ہے، جب کہ سرکاری اسکولوں میں تعینات اساتذہ کو جدید نصاب اور جدید تدریسی طریقوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے سرکاری سطح پر تربیت دینے کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔

نجی تعلیمی اداروں کا نصاب انگریزی زبان میں ہے جب کہ سرکاری اسکولوں کا نصاب اردو زبان میں ہے۔ نجی اسکولوں میں پینے کا صاف پانی، چاردیواری اور بیت الخلاء کی سہولیات موجود ہیں، جب کہ سرکاری اسکولوں کی حالت گفتنی نہیں۔ نجی اسکولوں کے سربراہان کو Hire and Fire کے اختیارات حاصل ہیں، جب کہ سرکاری اسکولوں میں سیاسی مداخلت کی وجہ سے ہیڈ ماسٹروں اور پرنسپل کے اختیارات محدود ہیں۔ نجی اسکولوں میں اشرافیہ اور بورژوا طبقے سے تعلق رکھنے والے بچے زیر تعلیم ہیں، جب کہ سرکاری اسکولوں میں غریب، یتیم، معذور اور لاچار بچے زیر تعلیم ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے سرکاری تعلیمی اداروں کا نجی تعلیمی اداروں سے موازنہ کرنا حماقت کے سوا کچھ نہیں۔

میری اس تحریر کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ سرکاری اساتذہ اور تعلیمی ادارے خامیوں سے پاک ہیں، مگر صرف اساتذہ کو ان خامیوں کا ذمے دار ٹھہرانا بھی دانش مندی نہیں۔ اساتذہ میں خامیوں کے ہونے کا مقصد یہ بھی نہیں کہ گزشتہ بیس دنوں سے معمر اور معزز اساتذہ اپنے جائز حقوق کے لیے بھوک ہڑتال پر ہوں اور حکومت کی طرف سے کوئی شنوائی نہ ہو۔ اگر حکومت کی اساتذہ سے کوئی شکایت ہے یا ان کی نظر میں اساتذہ کے مطالبات ناجائز ہیں، تب بھی اعلیٰ حکام کا اساتذہ کے ساتھ گفت و شنید جاری رکھنے سے قیامت برپا نہیں ہوگی۔

اگر حکومت اساتذہ کے وجود کے بغیر ریاستی امور چلا سکتی ہے یا پرائیویٹ تعلیمی اداروں سے صوبے کی تمام تر ضروریات پورا کر سکتی ہے تو مستقبل میں نئی بھرتیاں نہ کریں اور اس موجودہ سرکاری تعلیمی نظام کو ختم کریں۔ اگر حکومت کو اساتذہ کی ضرورت ہے تو دیگر صوبوں کی طرز پر ان کے مسائل حل کریں، ان کو مراعات دیں اور ان سے انسانوں جیسا سلوک کریں۔ اساتذہ کے لیے ان قلیل تنخواہوں میں معزز زندگی گزارنا، بچوں کو معیاری تعلیم دلانا، علاج، خوراک، پوشاک اور چھت کا بندوبست کرنا ناممکن ہو گیا ہے۔ ان قلیل تنخواہوں میں اساتذہ کے لیے اپنی سفید پوشی برقرار رکھنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ 18 ویں ترمیم اساتذہ اور تعلیم کے لیے عذاب جان بن گئی ہے۔ وفاق نے اپنے ملازمین کو طرح طرح کے مراعات دیے اور صوبوں کو بھی وفاق کی پیروی کرنے کا حکم دیا، مگر بلوچستان حکومت 18 ویں ترمیم کی آڑ لے کر لیت و لعل سے کام لیتی رہی ہے اور وفاق و دیگر تینوں صوبوں کی طرز پر ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کرنا چاہتی۔ بلوچستان حکومت کی اس تعلیم دشمنی کی وجہ سے نہ صرف نئی تعلیم یافتہ نسل تعلیم کے شعبے میں آنے سے ہچکچاتی ہے، بل کہ زیادہ تر سولہ اور سترہ گریڈ کے جوان اساتذہ گریڈ نو اور چودہ کے انتظامی عہدوں پر ترجیح دیتے ہیں۔ حکومت کی عدم توجہی کی وجہ سے اساتذہ ہمیشہ اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے سڑکوں پر خوار رہتے ہیں۔

اسی طرح گزشتہ 20 دنوں سے اساتذہ یونین یعنی ٹیچرز ایسوسی ایشن کے صدر حاجی مجیب اللہ صاحب غرشین، محمد نعیم کاکڑ صاحب، منظور راہی صاحب، عنایت اللہ کاکڑ صاحب، سعید ناصر صاحب، ناصر مینگل صاحب، قاسم اچکزئی صاحب، میر احمد بنگلزئی صاحب، قائم کاکڑ صاحب، مولوی عبد القدیم صاحب اور دیگر اساتذہ کرام 19 نکاتی ایجنڈے کی حتمی منظوری تک بھوک ہڑتال پر ہیں۔ اساتذہ کا اپنے حقوق کے لیے بیس دنوں سے بھوک ہڑتال پر بیٹھنے سے واضح ہوتا ہے کہ مقتدر حلقوں، سیاست دانوں اور حکمرانوں سے تہذیب اور شائستگی نے کوچ کر لیا ہے۔

اساتذہ کرام کے ساتھ ایسا توہین آمیز رویہ صرف ایک بدتہذیب، عیار اور مکار حکمران طبقہ ہی کر سکتا ہے۔ اساتذہ اور ان کے مسائل کو سنجیدہ لینا تعلیم کو سنجیدہ لینے کے مترادف ہے، جس کی توقع کم سے کم موجودہ بلوچستان حکومت سے نہیں کی جا سکتی۔ اساتذہ کرام کا مطالبہ یہ بھی ہے کہ وفاقی حکومت بھی ان کے مسائل کے حل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ سول سوسائٹی، وکلاء، ڈاکٹر، سیاست دان اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے شہریوں کی بھی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اساتذہ کرام کے مطالبات کی اخلاقی حمایت کریں۔ اساتذہ کو چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو بطریق احسن نبھائیں اور مقاصد کے حصول کے لیے اپنی صفوں میں اتحاد برقرار رکھیں۔ یوں اساتذہ کرام کا کئی دنوں سے احتجاج اور بھوک ہڑتال پر ہونا بلوچستان کے لیے نیک شگون نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments