ادب پر فرائیڈ کے اثرات


ادب پر فرائیڈ کے اثرات میں اگر مغربی ادب کا جائزہ لیا جائے تو یہ اثرات انیسویں صدی میں نمایاں اور واضح صورت میں سامنے آتے ہیں۔ جن فکشن نگاروں نے فرائیڈ کا مطالعہ کر کے ان کے اثرات کو قبول کیا ان میں ڈی۔ ایچ۔ لارنس، جیمز جوائس، ورجینیا وولف، مارشل پروست، فلابیئر، موپساں اور ایملی زولا وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ نفسیات کے زیر اثر جو ادب تخلیق ہوا، اس کی مثالیں اگر عالمی ادب سے دیکھی جائیں تو دوستوفسکی کا ناول ،،جرم و سزا، ٹالسٹائی کے ناول ،،جنگ اور امن، اور ،،اینا کارنینا، شامل ہیں۔ چنانچہ اردو ادب کے افسانوی ادب میں نفسیات کا پرچار انھی اصحاب اور ان کے مخصوص رجحان کے زیر اثر پروان چڑھا۔

1930 اور اس کے بعد کا زمانہ اس اعتبار سے اہم ہے کہ اس زمانے میں انسانی زندگی کے ان پہلوؤں کی طرف توجہ دی جانے لگی جن کا اس سے پہلے فقدان تھا۔ اردو افسانے نے اس دور میں نفسیاتی رجحان کو قبول کیا جب نفسیات ایک باقاعدہ علم کے طور پر متعارف ہو چکی تھی۔ اس دور میں فرائیڈ اور دیگر جدید نفسیات دان اردو ادب میں مقبول ہوئے۔ اردو افسانے میں نفسیاتی رجحان کی اولین مثال 1932 میں افسانوی مجموعہ ،،انگارے، کی صورت میں ظاہر ہوئی۔ افسانہ نگاروں میں سعادت حسن منٹو، ممتاز مفتی اور راجندر سنگھ بیدی نمایاں ہیں جن پر فرائیڈ کے اثرات موجود ہیں۔

شعرا میں ہمارے پاس بڑی مثال میرا جی کی شخصیت ہے۔ میرا جی پر فرائیڈ کے براہ راست اثرات موجود ہیں۔ اس ضمن میں ان کے دو شعری مجموعے ،،اس نظم میں، اور ،،مشرق و مغرب کے نغمے، قابل ذکر ہیں۔ ناول نگاروں میں سعادت حسن منٹو، عزیز احمد، عصمت چغتائی، راجندر سنگھ بیدی، ممتاز مفتی، حجاب امتیاز علی، اکرام اللہ، مرزا محمد سعید اور مرزا ہادی رسوا کا نام قابل ذکر ہے۔ جنھوں نے فرائیڈ کے افکار و نظریات کے اثرات کو قبول کیا اور نفسیاتی الجھنوں اور جنسی مسائل کو سامنے لانے کی شعوری کوشش کی۔

مرزا ہادی رسوا پہلے ناول نگار ہیں جنھیں فلسفے اور نفسیات سے شغف تھا۔ اس کے اثرات ناول ،،امراؤ جان ادا، کے کرداروں کی داخلی کش مکش اور نفسیاتی الجھنوں میں نظر آتے ہیں۔ مرزا ہادی رسوا نے فرائیڈ کے اثرات کو براہ راست قبول کیا۔ جس کا ثبوت ان کا ناول امراؤ جان ادا ہے۔ یہاں مرزا رسوا نے امراؤ کے علاوہ باقی تمام کرداروں کی نفسیاتی الجھنوں کو بھی بیان کیا ہے۔ مرزا محمد سعید کا نام بھی اس حوالے سے قابل ذکر ہے۔ ان کے کئی مضامین فلسفہ اور نفسیات سے اخذ کیے گئے خیالات پر مبنی ہیں۔ ان کے کرداروں کے ارتقا میں نفسیاتی شعور موجود ہے۔ ناول ،، خواب ہستی، اور ،،یاسمین، اس حوالے سے قابل ذکر ہیں۔ مرزا محمد سعید کی شخصیت اور ان کی تخلیقات پر فرائیڈ کے گہرے اثرات موجود ہیں۔

فرائیڈ سے متاثر ہونے والوں میں عزیز احمد سرفہرست ہیں۔ عزیز احمد کے ہاں جنسی جذبہ اپنی انتہا کو پہنچنا ہوا ہے۔ ان کی جنس نگاری کے بارے میں ناقدین کی آرا مختلف ہیں۔ ان کے اس تصور کو صحت مند جنس نگاری بھی کیا گیا اور اس پر فحش نگاری کے الزامات بھی لگائے گئے۔ عزیز احمد کے ناول ،،ہوس، اور ،،گریز، اس ضمن میں قابل ذکر ہیں۔ عصمت چغتائی پر بھی فرائیڈ کے واضح اثرات موجود ہیں۔ ان کا ناول ،،ٹیڑھی لکیر، جنسی نفسیات خاص طور پر فرائیڈ کے نظریہ جنس سے خاصا متاثر نظر آتا ہے۔ اس ناول میں بے شمار کردار ہیں جو کسی نہ کسی حوالے سے نفسیاتی اور جنسی الجھنوں میں گھرے نظر آتے ہیں۔ عصمت چغتائی کا پہلا ناول ،،ضدی، ہے۔ اس میں بھی انسانی جذبات اور ماحول کے زیر اثر انسانی نفسیات کا شعور ملتا ہے۔ علاوہ ازیں ان کے ناول ،،معصومہ، اور ،،سودائی، پر بھی فرائیڈ کے اثرات ہیں۔

سعادت حسن منٹو کی شخصیت پر بھی فرائیڈ کے گہرے اثرات موجود ہیں۔ ان کا ناول ،،بغیر عنوان کے، فرائیڈ کے زیر اثر ہے۔ منٹو نے اس ناول میں بیس سالہ نوجوان سعید کی ذہنی زندگی کو پیش کیا ہے۔ اور فرائیڈ کے نظریہ تحلیل نفسی کی روشنی میں اس کی نفسیاتی تحلیل کی ہے۔ یوں منٹو پر فرائیڈ کے اثرات کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ فرائیڈ سے اثرات قبول کرنے والوں میں راجندر سنگھ بیدی بھی قابل ذکر ہیں۔ ان کے ناولٹ ،،ایک چادر میلی سی، پر فرائیڈ کے افکار و نظریات کے اثرات ہیں۔ بیدی کا یہ ناولٹ پنجاب کے گاؤں کی ایک بیوہ رانو اور اس کے دیور منگل کی نفسیاتی الجھنوں کی کہانی ہے۔ یہ ناولٹ راجندر سنگھ بیدی کی شخصیت پر فرائیڈ کے اثرات کا پتہ دیتا ہے۔

فرائیڈ سے براہ راست اثرات قبول کرنے والوں میں ایک بڑا نام ممتاز مفتی کا ہمارے سامنے آتا ہے۔ ان کے ناول ،،علی پور کا ایلی، پر فرائیڈ کے گہرے اثرات ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ،،ایلی، کی زندگی فرائیڈ کی ذاتی زندگی کے بہت قریب ہے۔ ایلی کی شخصیت کی تشکیل میں فرائیڈ کے افکار و نظریات سے بہت حد تک استفادہ کیا گیا ہے۔ فرائیڈ نے ایک فرد کی جنسی زندگی کے جو مراحل بتائے ہیں ایلی ان تمام مراحل سے گزرتا ہے۔ دراصل جنس اور نفسیات ممتاز مفتی کے دو بنیادی موضوعات ہیں۔

اس حوالے سے انھیں اپنے عہد میں اولیت کا درجہ حاصل ہے کہ انھوں نے انسانی زندگی کے ایک انجانے پہلو کو متعارف کروایا۔ ممتاز مفتی کی بدولت تحت الشعور سے پیدا شدہ مسائل اور تحلیل نفسی ادب کا موضوع بنے۔ ممتاز مفتی نے نفسیات کو فرائیڈ کے حوالے سے سمجھا اور اسے اپنی سرزمین میں رائج کیا۔ یوں ان کی شخصیت پر فرائیڈ کے اثرات کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

فرائیڈ سے متاثر دیگر شخصیات میں اکرام اللہ (گرگ شب) ، حجاب امتیاز علی (ظالم محبت، اندھیرا خواب، پاگل خانہ) اور بانو قدسیہ (راجہ گدھ) نمایاں ہیں۔ شعرا میں میرا جی کے بعد اختر اور نیوی، رفیق الزمان خان، نظر عزیز حزب اللہ، وجہ الدین اور شمشاد عثمانی کے نام قابل ذکر ہیں۔ اردو کی ادبی تنقید بھی فرائیڈ سے متاثر ہوئی۔ اور اس میں نفسیاتی انداز ابھرنے لگا۔ فرائیڈ سے متاثر ہونے والے اردو ناقدین میں مرزا محمد سعید، محمد حسین ادیب، سید شاہ محمد، ڈاکٹر وحید قریشی، ریاض احمد، محمد حسن عسکری، سلیم احمد اور علی عباس جلالپوری کے نام قابل ذکر ہیں۔ جبکہ میں بھارت میں فرائیڈ سے متاثر ہونے والے ناقدین میں سید شبہ الحسن، ڈاکٹر شکیل الرحمن، ڈاکٹر سلام سندیلوی، ڈاکٹر سید محمود الحسن رضوی اور دیوندر اسر کے نام قابل ذکر ہیں۔

اردو ادب میں فرائیڈ سے استفادے اور اثرات کا سلسلہ بیسویں صدی کے آخر تک تقریباً ختم ہو جاتا ہے۔ جس کی وجہ شاید برصغیر کے سیاسی اور معاشرتی مسائل ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments