معیشت پہ لمپی سکن وائرس کے تباہ کن اثرات اور ہومیو پیتھک علاج


چندی پو ر گاؤں ماضی میں ایک بڑا گاؤں ہوتا تھا جہاں کسانوں کے ساتھ ساتھ مختلف شعبہ ہائے زندگی کے ماہرین بھی رہتے تھے جو کسانوں اور دیہاتیوں کو اپنی خدمات گندم کے سالانہ معاوضہ پر فراہم کرتے تھے۔ درکھان یعنی کارپینٹر تھے جو لوگوں کو بیٹیوں کے جہیز کا سارا فرنیچر بنا دیتے۔ لوہار جو کسانوں کو درانتیاں، کلہاڑیاں اور چھریاں بنا دیتے۔ نائی یعنی ہیئر ڈریسر گاؤں کے رہائشیوں کی شیو اور سر کے بالوں کی کٹنگ کرتے اور اپنا معاوضہ سال بعد گندم کی صورت میں لیتے۔

راج مستری تھے جو گھر بنا دیتے۔ بے زمین دیہاتی تھے جو زمینداروں کی زمینوں پہ فصلوں کی ”گوڈی“ کرتے۔ گندم کاٹ دیتے۔ ان کو بھی بطور معاوضہ کچھ گندم مل جاتی۔ سبزی کے کھیتوں میں گاؤں کی خواتین سبزی توڑ دیتیں اور بطور معاوضہ اپنے گھر کے لیے مفت سبزی لے جاتیں۔ کپاس کی چنائی کر کے خواتین تھوڑی سی رقم کما کر اپنے اور اپنے بچوں کے لیے سردیوں کے گرم کپڑے خرید لیتیں۔

پھر ٹیکنالوجی کی ”مہربانی“ سے یہ لوگ بے روزگار ہونا شروع ہو گئے۔ ایسی مشینیں آ گئیں جو گندم اور مکئی کی تیار فصلیں کاٹ کر موقع پہ ہی ان کے دانے علیحدہ کر دیتیں۔ ان غریب دیہاتیوں کو اپنے ہی دیہاتی علاقے میں روزگار ملنا بند ہوئے تو انھوں نے شہروں کا رخ کر لیا۔ کچھ لوگوں نے تو نزدیکی شہروں خیرپور ٹامیوالی، قائم پور اور حاصل پور کی کچی آبادیوں میں رہائش اختیار کر لی اور شہر میں ریڑھی ٹھیلہ پہ سبزی وغیرہ بیچنا شروع کر دی یا چنگ چی موٹر سائیکل رکشے چلانا شروع کر دیے اور کچھ لوگوں نے کراچی اور لاہور کا رخ کر کے وہاں محنت مزدوری کرنا شروع کر دی اور پھر آہستہ آہستہ چندی پور گاؤں چھوٹا ہوتا گیا۔

جو غریب لوگ چندی پور اور اردگرد کے دیہاتوں میں رہ گئے اور انھوں نے شہروں کی طرف ہجرت نہ کی تو گائے بھینس اور بکریاں ان کے لیے روزگار بن گئیں۔ یہ لوگ گائے بھینس کا دودھ بیچ کر روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کرنے لگے۔ عید الاضحٰی کے موقع پہ کوئی جانور مناسب پیسوں میں بک گیا تو گھر کے لیے کپڑے برتن بھی خرید لیے۔

مویشیوں سے حاصل ہونے والی آمدن پہ گزارہ کرنے والے ان کروڑوں افراد کی اکثریت بے زمین ہوتی ہے۔ گھر انھوں نے کسی جاگیردار کی زمین پہ بنائے ہوتے ہیں اور ایک دو گائے یا بھینس پالی ہوتی ہیں۔ اب لمپی سکن وائرس کے نام سے جو خوفناک وائرس آیا ہے وہ ان کروڑوں غریبوں کے لیے قیامت ثابت ہو رہا ہے۔

احباب! پہلے دنیا لڑائی اور جنگ میں استعمال ہونے والیے ہتھیاروں کی تیاری پہ توجہ دیتی تھی۔ پھر معیشت کے میدان میں ایک دوسرے سے مقابلہ کی فضا بنی اور اب کچھ ممالک اپنے حریف ممالک کی معیشت کو تباہ کرنے کے لیے کیمیائی اور بائیولوجیکل ہتھیاروں کی تیاری پہ سرمایہ خرچ کر رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے لمپی سکن وائرس بھی کوئی بائیو لوجیکل ہتھیار ہو جو لیبارٹری سے فرار ہو کر باہر آ گیا ہو۔

ہمارے پیارے ملک پاکستان میں یہ وائرس سرائیکی وسیب اور سندھ صوبہ کو خاص طور پہ نشانہ بنا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس وائرس کے ملکی معیشت پہ تباہ کن اثرات کیا ہوں گے؟ ظاہر ہے کہ جب دیہاتوں میں آباد کروڑوں بے زمین لوگ جن کی آمدن کا ذریعہ جو جانور تھے وہ لمپی سکن وائرس سے مرنا شروع ہو گئے ہیں تو وہ روزگار کے لیے شہروں کی طرف ہجرت کریں گے۔ وہاں کچی آبادیاں بنائیں گے۔ شہر تو اپنی آبادیوں کے بے ہنگم اضافے سے پہلے ہی مسائلستان بن چکے ہیں۔

اب ایسا تو ہے نہیں کہ پاکستان میں سخت قسم کی زرعی اصلاحات کی گئیں ہوں اور دیہاتوں میں آباد بے زمین لوگوں کو بھی روزگار کمانے کے لیے تھوڑی بہت زمین مل گئی ہو۔ ماضی میں بھی ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو ادوار میں زرعی اصلاحات کی گئیں تو جاگیرداروں نے مختلف حربے استعمال کر کے زرعی اصلاحات کو عملاً ناکام ہی کر دیا۔

بڑے شہروں میں نئی صنعتوں کے قیام پہ پابندی لگا کے پسماندہ اور دیہاتی علاقوں میں صنعت سازی شروع کرانے کی کوئی پالیسی ہی نہ بنائی گئی۔ صاف ظاہر ہے اب لمپی سکن وائرس کے ہاتھوں لاکھوں جانوروں کی ہلاکت سے بے روزگار ہونے والے لوگ شہروں کی طرف ہی ہجرت کریں گے۔ بس پھر تیار ہو جائیں ملکی معیشت پہ نئے تباہ کن اثرات کے لیے۔ میرے ان الفاظ پہ کچھ احباب خفا ہوں گے کہ اچھے الفاظ منہ سے نکالو لیکن کیا آنکھیں بند کر لینے سے کبوتر بلی کے حملے سے محفوظ ہو جاتا ہے؟

مجھے اپنے ان بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ انتہائی ہمدردی ہے جن کا گزر اوقات مویشیوں کے ساتھ وابستہ ہے۔ میرے پاس ہومیو پیتھی کا جو تھوڑا بہت علم ہے اس حوالے سے بھی اپنی تجویز دوں گا لیکن کچھ ہومیو پیتھس نے اس وائرس سے لاحق ہونے والی بیماری کے علاج میں جو تھوڑی بہت کامیابی حاصل کی ہے یہاں اس کا بھی ذکر کروں گا۔

اسلام آباد کے معروف ہومیوپیتھ ڈاکٹر قاسم علی فتیانہ کا لمپی سکن وائرس کا پروٹوکول (ہر ڈاکٹر کا کسی بیماری کو ٹھیک کرنے کے لیے ادویات کے استعمال کا انداز اور ذاتی تجربہ) یہ ہے کہ جن جانوروں کو ابھی لمپی سکن وائرس کی بیماری نہیں لگی ان کو ہومیوپیتھک دوا ”ویرولائنم“ ون ایم یا دو سو کی پوٹینسی میں ایک خوراک ہر ہفتہ بطور حفظ ماتقدم کے طور پہ دی جائے۔ اس دوا سے ان جانوروں کے اندر لمپی سکن وائرس کے خلاف قوت مدافعت پیدا ہو جائے گی۔

فتیانہ صاحب مزید لکھتے ہیں کہ اگر لمپی سکن وائرس کی بیماری جانور کو لاحق ہو جائے تو پھر اگر جانور کو بخار ہو گیا ہے یعنی اس کا جسم بہت گرم ہے لیکن وہ کھڑا رہتا ہے تودوا بیلا ڈونا دو سو کی پوٹینسی میں دہرائیں گے یہاں تک کہ بخار اتر جائے۔

اگر جانور کے جسم کا درجہ حرارت بڑھ گیا ہے اور وہ کھڑا رہنے کی بجائے بس فرش پہ بیٹھا رہتا ہو تو دوا برائی اونیا دو سو پوٹینسی میں چند بار دی جائے گی یہاں تک کہ بخار اتر جائے۔ اگر لمپی سکن وائرس سے جانور کے جسم میں گلٹیاں بن گئی ہوں جن سے پیپ آ رہی ہو اور ساتھ جسم کا درجہ حرارت بڑھ چکا ہو تو پائرو جینم دوا ون ایم یا دو سو کی پوٹینسی میں دی جائے گی۔ (واضح رہے کہ پائرو جینم دوا کو ہومیو پیتھی کی دنیا میں سب سے بڑی اینٹی بائیوٹک دوا کا درجہ حاصل ہے۔ )

اگر گلٹیاں سخت ہیں تو کلکیریا فلور دو سو پوٹینسی اور اگر نرم ہیں تو کلکیریا کارب دو سو پوٹینسی میں دن میں تین بار دی جائے گی۔ اگر گلٹیاں سخت اور نرم کے درمیان ہیں تو سکرو فولیریا نو ڈوسا دوا کو دو سو کی پوٹینسی میں دن میں تین بار دیں گے۔ فتیانہ صاحب کا یہ بھی موقف ہے کہ لمپی سکن سے متاثرہ جانوروں میں پانی کی کمی پیدا ہو جاتی ہے لہذا میٹھا شربت، نمک اور آٹا پانی میں گھول کر پلائیں تو ان کے جسم میں کچھ توانائی آ جائے گی۔

حاجی اکرم صاحب کمشنر آفس بہاول پور میں جاب کرتے تھے۔ ریٹائر منٹ کے بعد انھوں نے لال سہانرا میں اپنی آبائی زمین پہ ایک چھوٹا سا ڈیری فارم بنا لیا جہاں تیس چالیس گائیں رکھ لیں۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ جیسے وائرس آیا انھوں نے جانوروں میں قوت مدافعت پیدا کرنے والی ویکسین لگوائی اور ڈیری فارم کا دودھ فروخت کرنے کی بجائے جانوروں کو ہی پلانا شروع کر دیا جس سے ان کے جسم میں طاقت آ گئی۔ کہنے لگے ان کے جانور محفوظ اور بہتر حالت میں ہیں۔

(اچھا یہ بھی مشاہدہ میں آیا کہ جن لوگوں نے اپنے جانوروں کے لیے اگائے جانے والے گھاس کے لیے مختلف قسم کے پیسٹی سائیڈز اور کھاد وغیرہ استعمال نہ کی تو عموماً ان کے جانوروں کو یہ وائرس لاحق نہیں ہوا۔ البتہ جو لوگ گھاس خرید کر اپنے جانوروں کو کھلاتے رہے وہاں یہ بیماری زیادہ دیکھنے میں آئی۔ اب معلوم نہیں کہ آیا یہ وائرس کسی کیمیکل وغیرہ کے ذریعے پہلے گھاس اور چارہ کی فصلوں میں آیا؟ )

یزمان شہر کے ایک ہومیوپیتھ حاجی ارشاد احمد نے چولستان صحرا کے لمپی سکن وائرس میں مبتلا جانوروں کا علاج کر کے اچھے نتائج بھی حاصل کیے۔ جہاں انھوں نے ویرو لائنم دوا استعمال کروائی وہاں ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس بیماری کے لیے ملی فولیم دوا سے بہت اچھے رزلٹ لیے۔

اکبر شیخ اکبر کے نزدیک اگر ہومیو پیتھی فلاسفی کی روشنی میں لمپی سکن وائرس کا علاج کرنا ہے تو پھر دیگر میڈیسنز کے ساتھ ساتھ سفلینم دوا کی ہائی پوٹینسی اور ساتھ میں ایکسرے، پچوٹری اور ہائپو تھیلامس نامی ہومیوپیتھک دواؤں کا استعمال بھی کرانا ہو گا۔ ہومیو پیتھی فلاسفی یہ کہتی ہے کہ انسان ہو یا جانور جب بیماری تباہ کن مرحلے میں داخل ہو جائے تو سفلینم دوا اچھے نتائج دے گی۔

راولپنڈی کے شہرہ آفاق ہومیوپیتھ ڈاکٹر عابد راؤ مرحوم جن سے ہومیو پیتھی کا علم سیکھنے والے افراد کی تعداد ہزاروں میں ہے، ان کے نزدیک جو بیماریاں اتنے تباہ کن اثرات مرتب کرتی ہوں کہ جینز تک میں تبدیلیاں لے آتی ہوں یا کنٹرول سے باہر ہو رہی ہوں تو ان کے علاج میں ایکسرے، پچوٹری، سول، لونا اور ہائیپو تھیلامس نامی دوائیں حیران کن نتائج دیتی ہیں۔ واضح رہے کہ اب کینسر، تھیلیسیمیا، اینیمیا اور ہیپا ٹائٹس سی جیسے امراض کے علاج میں بھی پچوٹری اور ہائیپو تھیلامس گلینڈز سے نکلنے والے ہارمونز سے بنائی جانے والی ادویات سے بہت اچھے نتائج لیے جا رہے ہیں۔

احباب سے گزارش ہے کہ اس بلاگ کو مویشی پالنے والے اپنے دوستوں کے ساتھ بھی شیئر کر دیں شاید ان کو اس سے کوئی فائدہ مل جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments