میری ماں! وادیٔ پلیماز تجھے بلا رہی ہے


میری ماں! سندھ میں رہتے ہوئے تو وڈھ اور وافیٔ پلیماس کے لیے ترستی تھی۔ وڈھ پلیماس کی مٹی کی خوشبؤ کے لیے تڑپتی تھی۔ وڈھ پلیماس کے پانی کو جنت کی نہر کا پانی سمجھتی تھی۔ کیوں کہ یہ تیری پیدائش کی جنت نظیر سرزمین ہے۔ یہ نصیب کی بات ہے کہ تیرا رشتہ سندھ میں ہوا۔ کہا جاتا ہے ناں کہ رشتے آسمانوں میں جڑتے اور بنتے ہیں۔ یہ قسمت کی بات ہے کہ تیرا رشتہ سندھ میں ہوا اور میں نے تیری کوکھ میں سے جنم لیا۔

سندھ میں رہتے ہوئے تم وڈھ پلیماس بلوچستان کی مٹی کی خوشبو سونگھنے کے لیے روتی تھی۔ ہمیشہ ہیجانی کیفیات میں رہتی تھی۔ نہ حکیم کا علاج کارگر ثابت ہو سکا تھا اور نہ کسی ڈاکٹر کے علاج سے فائدہ ہو سکا تھا۔ تم دنوں کے دن بیہوش رہتی تھی۔ مجھے کچھ سوجھ بوجھ ہوئی تو میں نے بھانپ لیا تھا کہ تیرا علاج وڈھ پلیماس بلوچستان جانے میں ہے۔ میں نے محسوس کیا تھا کے جیسے مارئی عمر بادشاہ کی قید میں ملیر اور رشتے داروں سے ملنے اور ملیر جانے کے لیے پھوٹ پھوٹ کر روتی تھی تم بھی بیہوشی میں پلیماس اور بھائیوں کے نام لے کر پھوٹ پھوٹ کر روتی تھے۔ ہوش میں آتی تھی تو سہارے کے بغیر چل نہیں سکتی تھیں۔

ماں! مجھے یاد ہے۔ میں نے ایف ایس سی کیا تھا۔ ماں! 1978 ء میں آپ کو باپ کو بتائے بغیر قلندر شہباز کے مزار کی زیارت کا بہانا بنا کہ بولان میل کوئٹہ میں بٹھا کر تجھے وڈھ اور وادیٔ پلیماس لے گیا تھا۔ اگر باپ کو بتاتا تو وہ نہیں چھوڑتا کیوں کہ باپ کو ان کے بھائی اسے مینگل قبیلے سے ڈراتے تھے۔ میں باپ کا نافرمان نہیں تھا مگر تیری تکلیف اور وڈھ پلیماس کے لیے تڑپ مجھ سے برداشت نہیں ہو پا رہی تھی۔ تیری زندگی اور صحت عزیز تھی مجھے۔ اس لیے بہانا بنانا اور جھوٹ بولا تھا باپ سے۔ اللہ مجھے معاف فرمائے گا۔ یہ سب کچھ تیری اذیت کو ختم کرنے کے خاتمے کے لیے کرنا پڑا تھا۔

میرے چچا والوں نے باپ کو مینگل قبیلے سے ڈرایا تھا۔ وہ تجھے کبھی وڈھ بلوچستان لے کر نہ جاتا۔ باپ اور اس کے بھائیوں کو کیا پتہ کہ مینگل پیار اور اپنا پن کے پیکر ہیں! محبتوں کے سمندر ہیں۔ تم سہارے کے بغیر چل نہیں سکتی تھی۔ مگر جب وڈھ پہنچے تھے اور وڈھ سے وادیٔ پلیماس کو سواری نہ ملی تھی تو تم نے میرے ساتھ بغیر کسی سہارے 10 کلومیٹر پیدل ایسے چلی تھی جیسے تو بیمار ہی نہیں تھی۔ پتہ پوچھتے ہم ماموں والوں کے گاؤں پہنچے تھے تو سب حیران تھے۔ تم نے نانی اماں کے پاؤں کی مٹی اٹھا کر چومی تھی اور رو پڑی تھی۔ اس دن سے تیری بیماری کو پر لگ گئے اور ہمیشہ کے لیے پتہ نہیں کہاں اڑ کر چلی گئی تھی۔ پھر کبھی بھی نہ ہیجانی کیفیات میں مبتلا ہوئیں اور نہ گھر میں چلنے کے لیے کسی کا سہارا لیا تم نے۔

جب آپ کو وادیٔ پلیماس لے گیا تھا تو لوہینڈو کے گھنے پھولدار درختوں نے میری سانسیں بھی معطر کیں تھیں۔ ماموں والوں کے انجیر اور انار کے درختوں کے سایہ تلے ٹھنڈی ہواؤں میں سانسیں لی تھیں۔ ان کے انگوروں کی مٹھاس اب بھی اپنی رگوں میں دوڑتے محسوس کرتا ہوں۔ ماں! وادیٔ پلیماز میرے لیے مقدس اس لیے بھی ہے کہ تیرا خمیر اس کی مقدس مٹی سے بنا اور میں نے آپ کے بطن سے جنم لیا۔ وادیٔ پلیماس کائنات کی حسین ترین اور خوبصورت ترین وادی اس لیے بھی لگتی ہے کہ وہ آپ کی جنم کی پویتر سرزمین ہے۔

میرے لیے سندھ کی سرزمین جنت نظیر تو ہے ہی پر آپ کے رشتے کی وجہ سے بلوچستان کا وڈھ شہر اور وادیٔ پلیماس بھی جنت نظیر ہے۔ بعد میں باپ کو منا لیا تھا اور پھر ہر سال دو سال کے بعد ہم وڈھ پلیماس آتے جاتے تھے۔ کبھی کوئٹہ سے کبھی کراچی سے۔ بہت خوش تھی تم کچے مکانوں میں! اب تو پکے مکان بن گئے ہیں مگر تم نہیں!

ہاں ماں! تم بھائیوں کی اکلوتی بہن تھیں۔ بس بدنصیبی کی ہوا چلی۔ ایک دوسرے کے بعد تمہارے بھائی اور ماں موت کے اژدھے نے نکل لیے۔ تم روتی رہی اور سنبھلتی رہی۔ اندر سے تمہارا وجود جالی کی طرح سوراخ دار ہوتا رہا۔ جب تیرا جوان بیٹا بے قصور سرعام جوہی شہر میں شہید ہوا تو تم برداشت نہ کر سکیں۔ ٹھیک ایک سال کے بعد تم حرکت قلب رکنے سے مجھ سے روٹھ گئیں! اب نہ آپ ہیں نہ باپ ہے اور نہ ماموں والے! ایسا لگتا ہے جنت نظیر وادیٔ پلیماس کو نظر لگ گئی ہو۔

نا آشنائی کی بارشوں کے سیلاب نے پب پہاڑ میں سے بہتے ہوئے ندی نالے وادیٔ پلیماس میں پب پہاڑ کے پتھر بکھیر دیے ہوں اور سب رشتے وہی پتھر بن گئے ہیں! میرے دل کی سرزمین اجڑ گئی ہے۔ سندھ سے دور وادیٔ پلیماس کی طرح میرا دل خون کے آنسو روتے پکار رہا ہے کہ تم آ جاؤ۔ آ جاؤ نہ ماں! تجھے وادیٔ پلیماس بلا رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments