محمود درویش: سلطانوں سے ٹکرانے والا درویش


(یہ تحریر 9اگست 2008ءکو محمود دوریش کے انتقال پر لکھی گئی تھی،)

سُلطان بہت خوش ہے۔ جدید عربی شاعری میں سلطان کے باجبروت لفظ کو جبر ، ظلم ، استحصال اور نا انصافی کے استعارے کا درجہ دینے والا محمود درویش جا چکا ہے۔ پینتیس برس پہلے چلّی کے شاعر پابلو نیرودا کی وفات کے بعد 9اگست 2008ءکی صبح امریکہ کے شہر ہیوسٹن میں فلسطین کے ممتاز ترین شاعر محمود درویش کی موت دنیا بھر کے ان سب ادیبوں کے لیے بہت بڑا صدمہ ہے جو قلم کو سچ کے بیان کا ہتھیار سمجھتے ہیں۔ جو لکھے ہوئے لفظ کو بھوکے ، کمزور ، بے گھر اور بے روزگار افتادگانِ خاک کی حالت بدلنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ دنیا بھر کے ان ادیبوں اور شاعروں کا رفیق رخصت ہو گیا ہے جو سمجھتے ہیں کہ دنیا کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ اور اس تبدیلی میں لفظ بہت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
محمود درویش 13مارچ 1941ءکو فلسطین کے ایک گمنام گاﺅں البرمے میں پیدا ہوا تھا۔ ابھی سات برس کا تھا کہ اسرائیل کے اعلان کے بعد اسرائیلی فوجوں نے اپنی نویافت آزادی کے نشے میں بحیرہ قلزم کے ساحلوں پہ آباد سینکڑوں قصبے اور گاﺅں ، زندگی کی ہنسی سے کھلکھلاتی بستیاں برباد کر ڈالی تھیں۔ رستی بستی گلیوں پر چڑھ دوڑنے والوں نے محمود درویش کا گاﺅں بھی جلا ڈالا۔ کشتگان کا کوئی شمار نہیں تھا۔ لاکھوں انسان بے گھر ہو گئے تھے۔ جس کا گھر چھن جائے اس کا نہ کوئی چہرہ وہتا ہے اور نہ ثقافت۔ جلا وطن کا کوئی عقیدہ ہوتا ہے اور نہ شناخت۔ جس کی زمین چھن جاتی ہے۔ اس کے پاﺅں جہاں پڑتے ہیں ، اجنبیت کی کسک پیچھے رہ جانے والی گلیوں کی یاد دلاتی ہے۔


محمود درویش نے مرگ انبوہ ، بے گھری ، افلاس ، بچوں کی ہنسی کھو جانے اوربڑھاپے کا تقدس پامال ہونے کو جس شدت سے محسوس کیا ، جس تواتر سے بیان کی اور اپنے کرب کو انسانی تاریخ میں نسل در نسل گزرنے والی اذیت کے بڑے کینوس میں جس طرح سمویا ، اس سے معلوم ہوگتا ہے کہ بدترین حالات میں بھی ادب کی درد کو تجربے اور غصے کو قوت میں بدلنے کی صلاحیت برقرار رہتی ہے۔ ہمارے اردو ادب میں اس کی قریب ترین مثال انتظار حسین کا ادب ہے۔ اگرچہ فنکاروں کا تقابل اصولی طور پر بھی درست نہیں ہوتا او ریہاں تو تاریخی اور زمینی حقائق میں بھی بہت فرق پایا جاتا ہے۔ پھر ہمارے انتظار صاحب تو مزاحمت کو بھی مہاتما بدھ کی گیان میں ڈوبی مسکان بخش دیتے ہیں ۔ محمود درویش کا لہجہ مختلف تھا۔ اس کے استعارے کاٹ دار اور بیان دو ٹوک تھا۔ کیونکہ نہ ہو اسرائیل کی حکومت کے کاغذات میں اس کی شہریت ’حاضر غائب اجنبی‘ کی اصطلاح میں بیان کی گئی تھی۔

اسرائیل کی فوج اور حکومت مسلسل اُس کے تعاقب میں رہی۔ وہ مصر سے لے کر ماسکو اور پیرس سے لے کر بیروت تک بھٹکتا پھرا۔ 1982ءمیں بیروت کے فلسطینی کیمپوں صابرہ اور شتیلا پر قیامت گزری تو محمود درویش بیرون میں موجود تھا۔ ہمارے فیض صاحب بھی ان دنوں بیروت میں تھے۔ دل میں نا انصافی کے خلاف آگ موجود ہو تو پاکستان کا محبوب شاعر لبنان پہنچ جاتا ہے۔ برطانیہ کے ناز پروردہ شاعر سپین پہنچ جاتے تھے۔ اگرچہ ان پر ہنسنے والے اور ساحل کی عافیت سے درد مندانِ عشق پر ٹھٹھا کرنے والوں کی کبھی کمی نہیں رہی مگر محمود درویش کی عظمت کا اعتراف تو سلطان خود کر رہا ہے۔ اسرائیلی حکومت نے محمود درویش کو اسرائیل میں دفن کرنے کی پیش کش کی ہے۔


محمود درویس درجہ اول کے ادیب اور شاعر کی حیثیت میں پوری عرب دنیا میں معروف تھے لیکن انہیں فلسطین میں قومی شاعر کا رتبہ دیا جاتا تھا۔ ایک زمانے میں یاسر عرفات کے قریبی ساتھی سمھجے جانے والے محمود درویش نے اپنی شاعری کو فلسطینی مسئلے کو اجاگر کرنے کے لیے استعمال کیا۔ ان کے مداحوں کا خیال ہے کہ انہوں نے آزاد فلسطینی ریاست کے خواب کو شعر کی زبان بخشی اور اپنے قلم سے فلسطینی قوم کی تہذیبی شناخت کے خدوخال کو اجاگر کرنے کے لیے استعمال کیا۔
ان کے مداحوں کا خیال ہے کہ انہوں نے آزاد فلسطینی ریاست کے خواب کو شعر کی زبان بخشی اور اپنے قلم سے فلسطینی قوم کی تہذیبی شناخت کے خدوخال ابھارے۔ محمود درویش گفتار ہی کے غازی نہیں تھے۔ وہ برسوں الفتح کا سرگرم رکن رہے۔ انہوں نے 1993ءمیں اوسلو معاہدے پر احتجاج کرتے ہوئے الفتح کو خیرباد کہا تھا۔ زندگی کے آخری ایام اور درویش الفتح اور حماس کی باہمی کشاکش سے سخت ناخوش تھے۔
اسرائیلی کی متی میں محمود درویش آسودہ نہیں ہو گا۔ اس کی خاک سے مساوات ، امن اور انصاف کے اکھوے پھوٹیں گے۔ یوں بھی شعر سے نصف صدی پر محیط وابستگی نے محمود درویش کو ایک ایسا گھر تو بخش ہی دیا تھا جس ےکوئی حکومت ، فوج یا قانون اس سے چھین نہیں سکتی۔ محمود درویش عربی شاعری میں اور دنیا بھر میں سچی شاعری پڑھنے والوں کے دلوں میں بستا ہے۔ شاعر کے وجود سے جنم لینے والا حرف وہ سائباں ہے جسے اقوامِ متحدہ کی امن فوج کی ضرورت ہے اور نہ مفادات کا مول تول کر کے طے پانے والے معاہدوں کی ضرورت ہے۔
محمود درویش تھک گیا تھا۔ اسے آرام کی ضرورت تھی۔ محمود درویش کے رخصت ہونے سے سُلطان وقتی طور پر اطیمنان محسوس کر سکتا ہے۔ لیکن اسے محمود درویش کی شاعری کے بیس مجموعے اور نثر کی چار کتابیں اس وقت چین نہیں لینے دی ں گے۔ جب تک اسرائیل اور فلسطین میں آگ ، لہو اور آنسو کی ارزانی موجود ہے۔محمود درویش کولینن امن انعام سمیت بے شمار انعامات ملے تھے۔ اس کی شاعری کا درجنوں زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ اردو زبان میں منو بھائی اور انور سن رائے جیسے ہنر مندوں سمیت بہت سے آشفتہ سروں نے محمود دریش کے تراجم سے ہمارے ادب کو سیراب کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments