آوارہ: وہ فلم جس نے راج کپور کو سوویت یونین میں نہرو جیسی مقبولیت دلائی

ریحان فضل - بی بی سی ہندی، دہلی


جب سوویت یونین میں فلم آوارہ ریلیز ہوئی تو یہ ایک طرح سے قومی فلم بن گئی۔ صرف سال 1954 میں، 6 کروڑ 40 لوگوں نے، جن میں زیادہ تر نوجوان تھے، آوارہ کے ٹکٹ خریدے۔

معاملہ صرف ایک فلم کا نہیں تھا۔ سوویت یونین میں راج کپور کا جنون اس وقت اور بھی بڑھ گیا جب ان کی اگلی فلم شری 420 ریلیز ہوئی۔ 1954 میں جب ایک انڈین وفد سوویت یونین گیا تو ہر طرف سے یہ مطالبہ ہوا کہ راج کپور کو آوارہ ہوں گانا چاہیے اور انھوں نے بھی دل لگا کر یہ گیت گایا۔

راج کپور کی بیٹی ریتو نندا ’راج کپور دی ون اینڈ اونلی شو مین‘ میں لکھتی ہیں کہ ’راج کپور کو پیانو کے سٹول پر بیٹھے دیکھنا عام سی بات تھی۔ ان کو چاروں طرف سے ووڈکا کے گلاس پیش کیے جاتے۔ جیسے ہی وہ گانا شروع کرتے، مرد اور عورتیں سب دھن کے ساتھ مل کر ناچنا شروع کر دیتے تھے۔‘

جب نہرو اپنے پہلے دورے پر سوویت یونین گئے تو ہر طرف ایک بھیڑ ’آوارہ ہوں‘ کے نعرے سے ان کا استقبال کرتی۔

اس وقت نکولائی بلگنین سوویت یونین کے وزیراعظم تھے۔ ایک سرکاری ضیافت میں نہرو کے بعد جب بلگنین کی باری آئی تو انھوں نے بھی ’آوارہ ہوں‘ گایا۔

آوارہ جو ایک مکمل پیکج فلم تھی

انڈیا کو آزادی ملے صرف چار سال ہی ہوئے تھے جب راج کپور نے آوارہ فلم بنائی۔

یہ وہ وقت تھا جب موسیقی کسی بھی فلم کی کامیابی کی ایک اہم وجہ سمجھی جاتی تھی۔ یہ فلم ایک مکمل پیکج تھی جس میں نہ صرف شاندار پرفارمنس تھی بلکہ تفریحی انداز میں ایک سماجی پیغام بھی دیا گیا تھا۔

اس کی کہانی راج کپور کے گرد گھومتی ہے جو اپنی ماں کے ساتھ ایک کچی آبادی میں رہتے ہیں جن کو امیر جج شوہر (پرتھوی راج کپور) شک کی بنیاد پر گھر سے نکال دیتے ہیں۔

نوجوان راج کو صرف اس لیے سکول سے نکال دیا جاتا ہے کہ وہ روزگار کے لیے جوتے پالش کرنا شروع کر دیے۔ یوں راج جرم کی دنیا میں داخل ہوتا ہے۔

آوارہ کا موضوع طبقاتی امتیاز تھا

کہانی میں ایک ڈرامائی موقع آتا ہے جب راج ایک ڈاکو جگا (کے این سنگھ) کو مار ڈالتا ہے۔ اس کے خلاف مقدمہ اس کے والد کی ہی عدالت میں چلتا ہے جہاں اس کی والدہ ریٹا (نرگس دت) دفاع کرتی ہیں۔

اسی دوران راج کی ماں کی وفات ہو جاتی ہے۔ اسے اپنے والد کی شناخت معلوم ہوتی ہے اور کہانی راج کو تین سال کی سزا کے ساتھ ختم ہوتی ہے۔

ریتو نندا لکھتی ہیں کہ ’آوارہ کا موضوع طبقاتی امتیاز تھا، جس میں ایک رومانوی کہانی کو ایسی غربت میں لپیٹ کر دکھایا گیا جو انڈیا کو آزادی کے بعد ملی تھی۔ فلم مٹی میں کنول کے پھول کی طرح کھل گئی۔ فلم نے ایک طرح سے انڈیا کی نئی جمہوریت کا جشن منایا جو بلکل نئے سرے سے پیدا ہوئی اور ایک مشکل دنیا کا سامنا کرنا سیکھ رہی تھی۔‘

عباس نے پہلے آوارہ کی کہانی محبوب خان کو دی

آوارہ کا سکرپٹ خواجہ احمد عباس نے لکھا تھا۔ وہ پہلے محبوب خان کے پاس یہ کہانی لے کر گئے تھے۔ انہیں کہانی پسند آئی لیکن وہ اس فلم میں دلیپ کمار کو بیٹے اور پرتھوی راج کپور کو باپ کے کردار میں کاسٹ کرنا چاہتے تھے۔

خواجہ احمد عباس اپنی سوانح عمری ’آئی ایم ناٹ این آئی لینڈ‘ میں لکھتے ہیں، ’میں محبوب سے متفق نہیں تھا کیونکہ اس سے کہانی میں حقیقی باپ بیٹے کے رشتے کا تعلق ختم ہو جاتا، جو میرے خیال میں فلم کی جان تھی۔‘

’راج کپور نے یہ کہانی کسی سے سنی۔ وہ مجھ سے ملنے آئے تو کہانی سنتے ہی انھوں نے کہا کہ عباس صاحب یہ کہانی اب میری ہے۔ اب کسی کو مت دینا۔‘

’میں نے راج سے کہا کہ کہانی تمہاری ہے لیکن انھوں نے مجھے ایک نئی ذمہ داری سونپی کہ ان کے والد پرتھوی راج کپور کو اس فلم میں کام کرنے کے لیے راضی کروں۔‘

عباس نے پرتھوی راج کپور کو آوارہ میں کام کرنے پر آمادہ کیا

خواجہ احمد عباس پرتھوی راج کپور کے پاس گئے تو انھوں نے جواب دیا کہ ’کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں ہیرو کے بوڑھے باپ کا کردار ادا کروں؟‘

پرتھوی راج کپور دیکھنے میں بہت خوبصورت تھے۔

عباس لکھتے ہیں، ’میرا جواب پہلے ہی تیار تھا۔ میں نے کہا، پرتھوی جی، آپ ہیرو کے باپ نہیں ہیں۔ آپ ہیرو ہیں اور راج آپ کا بیٹا ہے۔‘

’میں چاہتا تھا کہ جب میں پرتھوی راج کو کہانی سناوں تو راج کپور وہاں موجود ہوں، لیکن وہ بہت گھبرائے ہوئے تھے۔ اپنے والد کے سامنے سگریٹ نہیں پی سکتے تھے، اس لیے وہ کمرے میں آتے رہے لیکن بیٹھے نہیں۔ ان کی جان میں اس وقت جان آئی جب پرتھوی راج فلم میں کام کرنے کے لیے راضی ہو گئے۔‘

آوارہ کا پریمیئر

راج کپور کو یہ فلم بنانے میں دو سال لگے۔ فلم کے پریمیئر کے دن پوری فلم انڈسٹری کو مدعو کیا گیا۔

شو کے بعد سب خاموشی سے ہال سے باہر آگئے۔ راج کپور دروازے پر کھڑے تھے۔ سب نے راج سے مصافحہ کیا لیکن کسی نے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ مبارکباد دینے کے بجائے ان کو تسلی دے رہے ہیں۔

خواجہ احمد عباس لکھتے ہیں، ’جب سب چلے گئے تو راج نے مجھ سے اور ساتھے سے پوچھا، بتاؤ، کیا ہماری پکچر اتنی بری ہے؟ میں نے اسے بتایا کہ فلم بالکل بھی بری نہیں ہے۔ ذاتی طور پر مجھے اس پر فخر ہے۔ عوام کو اپنا فیصلہ کرنے دیں۔‘

’اگلے ہی دن لوگوں نے اپنا فیصلہ سنا دیا اور فلم بہت زیادہ ہٹ ہو گئی۔ ان دنوں فلموں کے لیے کوئی ایوارڈ نہیں ہوتا تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ فلم ہر کیٹگری میں ایوارڈ جیت جاتی۔‘

راج کپور اور نرگس کی حیرت انگیز کیمسٹری

جب راج کپور نے یہ فلم بنائی تو ان کی عمر صرف 27 سال تھی۔ اس وقت نرگس کی عمر 22 سال تھی۔

راج کپور نے ایک موقع پر اعتراف کیا کہ ان کی اس سے قبل کی تین فلمیں آگ، برسات اور آوارہ کچھ غیر ملکی فلموں سے متاثر تھیں، خاص طور پر تین اطالوی فلمسازوں رابرٹو روزیلینی، وٹوریو ڈی سیکا اور سیزر زوتینی کی۔

اگرچہ فلم راج کپور کے گرد گھومتی ہے لیکن فلم کا ستون نرگس کی اداکاری ہے۔

ٹی جے ایس جارج نرگس کی سوانح عمری ’دی لائف اینڈ ٹائمز آف نرگس‘ میں لکھتے ہیں، ’نرگس نے اس فلم میں اپنا دل اور جان ڈال دیا۔ وکیل کے کردار کی تیاری کے لیے انھوں نے بمبئی کی عدالتوں کے کئی چکر لگائے تاکہ وہ وکلاء کی باڈی لینگویج اچھی طرح پڑھ سکیں۔‘

’انھوں نے اپنے کیریئر میں راج کپور کے ساتھ 16 فلمیں کیں لیکن آوارہ میں دونوں کی کیمسٹری دیکھتے ہی دیکھتے بن گئی۔ انڈیا بھر کے نوجوانوں نے راج کپور اور نرگس کی طرح لباس پہن کر فلم کے گیت گانا شروع کر دیے۔‘

راج کپور کی بہترین ٹیم

اس فلم کے ذریعے راج کپور نے خود کو چارلی چپلن کے روپ میں ڈھالا۔ ان کی یہ شناخت ان کی آنے والی کئی فلموں میں ان کے ساتھ رہی۔

پرتھوی راج کپور اور کے این سنگھ نے بھی اچھی کارکردگی دکھائی۔یہ فلم نئے آزاد انڈیا کے عام آدمی کے لیے امید کی علامت بن گئی۔

راج کپور کی ٹیم میں ایک سے ایک قابل لوگ موجود تھے۔

ریتو نندا لکھتی ہیں ’ان کے پاس خواجہ احمد عباس، گیت نگار شیلندرا اور موسیقار شنکر جے کشن کی بہت باصلاحیت ٹیم تھی۔ سوشلزم کے پیغام سے بھرپور اس فلم میں اعلیٰ اداکاری، ہدایت کاری، ڈرامہ اور سریلی موسیقی نے اسے اس وقت کی یادگار فلموں میں سے ایک بنا دیا۔‘

موسیقی میں راج کپور کا عمل دخل

راج کپور اپنی فلم کی موسیقی پر اتنی ہی توجہ دیتے تھے جتنی ہدایت کاری اور کہانی پر۔

لتا منگیشکر نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ ’میں اور منا ڈے گھر آیا میرا پردیسی گانا ریکارڈ کر رہے تھے۔ میوزک کمپوزر شنکر جے کشن نے ہم دونوں کو اس گانے کے بول اور میلوڈی پر ریاض کروایا تھا۔ لیکن راج کپور نے آتے ہی ہماری دن بھر کی محنت برباد کر دی۔‘

’ہم تین بجے تک اس گانے پر کام کرتے رہے۔ گانا ریکارڈ ہونے کے بعد انھوں نے کہا کہ چلو اب کھانا کھاتے ہیں۔ انھوں نے پوری یونٹ کے لیے کھانے کا انتظام کر رکھا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ انھوں نے ہمیں سڑک کے بیچوں بیچ بٹھایا اور کھانا کھلایا۔ ان دنوں سڑکوں پر زیادہ ٹریفک نہیں ہوتی تھی، خاص طور پر صبح کے 3 بجے تو بالکل بھی نہیں۔ سڑک پر ایک کپڑا بچھا ہوا تھا جہاں ہم نے بیٹھ کر کھانا کھایا اور اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔‘

یہ بھی پڑھیے

جب دلیپ کمار فلم ’پیاسا‘ کے لیے گرو دت کو زبان دے کر پھر گئے

امیتابھ بچن جب سیٹ پر اصل ٹائیگر سے لڑے، انسان اور جانور پر مبنی فلمیں

مکیش: انڈیا کا ’پہلا عالمی گلوکار‘ جس کے گیت دنیا کے کئی ممالک میں آج بھی دھوم مچا رہے ہیں

دکھ بھولنے میں مددگار فلم

سوویت یونین کے علاوہ آوارہ نے عرب اور افریقی ممالک میں بھی مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔

ایک بار وار اینڈ پیس بنانے والے سرگئی بونڈرچک 1983 میں دہلی آئے تو ان کو فلم فیسٹیول کی جیوری کا چیئرمین بنایا گیا۔ پریس کانفرنس میں جب ایک صحافی نے ان سے پوچھا کہ سوویت یونین جیسے سوشلسٹ ملک میں آوارہ جیسی فلم کیسے مقبول ہوئی تو ان کی آنکھیں چمک اٹھیں اور وہ اچانک آوارہ کی دھن پر سیٹی بجانے لگے۔ انھوں نے اعتراف کیا کہ اس معاملے میں نظریہ فلم کی اپیل کو کم کرنے میں ناکام رہا۔

ایک بار خواجہ احمد عباس نے سوویت رہنما نکیتا خروشیف سے بھی ان کے ملک میں اس فلم کی مقبولیت کا راز پوچھا تو ان کا جواب تھا کہ ’روسی عوام کو دوسری جنگ عظیم میں بہت تباہی اور ہولناکی کا سامنا کرنا پڑا۔ بہت سے روسی فلمسازوں نے اس موضوع پر فلمیں بنائیں لیکن آوارہ نے ان کو دکھ بھلانے میں مدد کی۔‘

آوارہ: سوویت تاریخ کی سب سے مقبول فلم

سوویت عوام اس فلم کی اس حد تک دیوانی ہوئی کہ گھنٹوں بارش اور برفباری میں لوگ قطاروں میں کھڑے ہو کر اس فلم کے ٹکٹ خریدتے تھے۔

آوارہ کا روسی نام، جسے روسی زبان میں ڈب کیا گیا، ’برادگیا‘ تھا۔

خواجہ احمد عباس اپنی سوانح عمری میں لکھتے ہیں ’فلم 7 نومبر کو ایک ہوائی جہاز سے سٹیل کے ایک ڈبے میں رکھ کر بھیجی گئی تھی جو پورے سوویت یونین میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ چند ہی مہینوں میں ہوٹلوں اور ریستورانوں کے بینڈ اور آرکسٹرا نے فلم کی دھنیں بجانا شروع کر دیں۔‘

’میں بہت سے ایسے نوجوانوں سے ملا جنھوں نے یہ دعویٰ کیا کہ انہوں نے یہ فلم 20 یا 30 بار دیکھی ہے۔ سوویت یونین کی پوری تاریخ میں کسی فلم نے اتنی مقبولیت حاصل نہیں کی۔ اگلے سال جب نہرو سوویت یونین کے دورے پر گئے تو ان کو بتایا گیا کہ آپ کے علاوہ صرف ایک اور انڈین ہے جو پورے سوویت یونین میں بہت مقبول ہے اور اس کا نام راج کپور ہے۔‘

روسی زبان بولنے کی وجہ سے لوگ راج کپور کے دیوانے ہو گئے

ترکی میں آوارہ پر ایک بہت ہی مقبول ٹیلی ویژن سیریل بنایا گیا۔ چین کے چیئرمین ماؤ بھی اس فلم کے دیوانے تھے۔ ماسکو کے بڑے ہال میں جب آوارہ کا پریمیئر ہوا تو فلم کے اختتام کے بعد حاضرین نے کھڑے ہو کر راج کپور اور نرگس کو سلام کیا۔

راج اور نرگس کے سٹیج پر پہنچنے تک وہ تالیاں بجاتے رہے۔ لوگوں نے کہا کہ راج کپور کچھ کہیں۔ راج کپور اس کے لیے پہلے سے تیار تھے۔

انھوں نے روسی زبان میں کہا کہ ’میں تم سے پیار کرتا ہوں اور تم بھی مجھ سے پیار کرتے ہو۔ دوزویدانیہ۔‘ یعنی الوداع۔

راج کپور کو روسی زبان میں بات کرتے دیکھ کر لوگ ایسے چونک گئے کہ لگتا تھا کہ چھت سے ٹکرا جائیں گے۔

جب راج کپور کے استقبال کے لیے پورا شہر جمع ہوا

مشہور فلم ڈائریکٹر یش چوپڑا نے ایک بار ایک کہانی سنائی۔

’1976 میں ہم تاشقند فلم فیسٹیول میں گئے۔ میں کئی فیسٹیول میں گیا لیکن میں نے غیر ملکی سرزمین پر کوئی ایسا میلہ نہیں دیکھا جہاں انڈین فلمسازوں کے ساتھ بادشاہوں جیسا سلوک کیا جاتا ہو۔ اس کے ذمہ دار راج کپور تھے۔‘

’ہمارے وفد میں 48 ارکان تھے۔ سب کے لیے خصوصی بس کا انتظام کیا گیا۔ صرف راج کپور کو ان کے استعمال کے لیے ایک بڑی گاڑی اور ایک ترجمان دیا گیا تھا۔‘

’ہم نے تاشقند سے سمرقند کے لیے رات کی ٹرین پکڑی۔ ہم سب کے لیے سیٹیں مخصوص تھیں، لیکن ٹرین کا پورا ایک ڈبہ راج کپور کے لیے مخصوص تھا۔ صبح سمرقند پہنچے تو سٹیشن کا منظر قابل دید تھا۔ تقریباً پورا شہر راج کپور کو لینے آیا تھا۔‘

1993 میں جب روسی صدر بورس یلسن انڈیا کے دورے پر آئے تو انھوں نے راج کپور کے اہل خانہ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔

ریتو نندا لکھتی ہیں کہ ’اس وقت راج کپور کو گزرے کئی سال گزر چکے تھے۔ صدر کا ایک ایک منٹ قیمتی ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود انھوں نے ہم سے ملاقات کے لیے وقت نکالا۔ انھوں نے ہمیں بتایا کہ ’بچپن میں، میں راج کپور کی طرح کی ٹوپی پہنتا تھا جیسی انھوں نے فلم آوارہ میں پہنی تھی۔ انھوں نے راج کپور پر کتاب پر انگریزی میں لکھا، ’میں راج کپور سے پیار کرتا تھا اور میں ان کو آج بھی یاد کرتا ہوں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments