اک تماشا ہے اک مداری ہے


تاریخ دان یقین سے نہیں بتا سکے کہ سیاست کب انسانی سماج کا جز بنی؟ یہ داؤ پیچ، یہ ساز باز، کسی کو گرانے، کسی کو بٹھانے کی تگڑم، طاقت کی بساط پے مہروں کی چال کس دور سے شروع ہوئی؟ اب چاہے رامائن میں سگے بیٹے کو راج گدی دلوانے کی خاطر سوتیلے رام کو بارہ برس کا بن باس دلانا ہو یا کورو پانڈوؤں کی مہا بھارت، میسوپوٹیمیا سے ملنے والی تختیوں پر درج دنیا کی قدیم ترین داستان گلگامش ہو یا شہزادے جیسن کو تخت سے محروم رکھنے کے لئے سوتیلے چچا کا اسے سنہری اون کی تلاش میں بھیجنے کی یونانی دیو مالا۔

شاہ طالوت کا حضرت داؤد علیہ سلام کی بے پناہ مقبولیت سے خائف ہو کے قتل کی کوشش کرنا تو تاریخ کے بجائے الہامی نسخوں میں درج ہو ہے۔

حصول حکمرانی۔ مطلق طاقت اور دور حکومت طویل تر کرنے کی خواہش نے اب سے کوئی سات ہزار سال پہلے ہی ذہن انسانی کو سیاسی آنکڑے لڑانا، گٹھ جوڑ کرنا اور نپا نپایا جال بچھانے کی ترکیب سوچنا سکھا دیا تھا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن، انسان اس وقت کو کوستا بھی ہے جب یہ بلا اس نے آپ اپنے گلے ڈالی اور اس سے باز آنے پر بھی راضی نہیں

اک تماشا ہے اک مداری ہے
ایک ہنگام ہے کہ جاری ہے

پہلا مصرعہ ادھار ہے، ایمان کا تقاضا تھا، وضاحت کر دی جائے کہ راقم فقط گرہ لگانے کی قصور وار ہے سرقہ یعنی چوری مقصد نہیں تھا۔ وضاحت دینا نہایت لازم ہے چاہے شاعر اعظم ہو یا وزیر اعظم اگر ایسا کوئی الزام آئے تو ہر ایک عزت مآب کا فرض ہے کہ اپنے مہربانوں، قدر دانوں، جانثاروں کو اس خجالت و شرمندگی سے نجات دلائے جو ان کے باعث جھیلنی پڑے۔ عمدہ بات ہو گر لگے ہاتھوں ثبوت بے گناہی اور دلیل کاری سے بھی نواز دے تاکہ تہمت تراشوں کے منہ سی دیے جاویں۔

ان دنوں ملک میں ایک انصاف پسند، تبدیلی کے خواہشمند، صداقت پے کاربند سیاسی شخصیت اسی آزمائش سے گزر رہی ہے۔ کئی سال سے اس ظلم کا سامنا ہے کہ دولت و ثروت سے بے نیاز اس نیازی کو اربوں کی رقوم کی خردبرد کرنے کے بہتان نے دلگیر کر رکھا ہے۔ دل جمعی سے رعایا و ملک کی خدمت میں مشغول اس مرد با صفا کو بھلا کہاں روپے پیسے کے لین دین سے دلچسپی ہو سکتی ہے؟ قوم کو اس کے دعوے کے مطابق بے ایمان حکمرانوں کے چنگل سے چھڑانے کے لئے دن رات ایک کر دینے والے سے چوک ہو گئی کہ کبھی دھیان ہی نہ دیا کہ کون سخی ہیں جو لاکھوں ڈالرز یوں فی سبیل اللہ جماعت اور خود اس کے اکاؤنٹس میں بھیجے جاتے ہیں۔

بس یہی وہ پھندا تھا جو کہ شکنجہ بنا ہوا ہے۔ گو کہ اس نے کمال دیانت سے اعتراف بھی کر لیا کہ ایسا ہی ہے۔ پیسے تو آئے ہیں مگر کون سا میں نے اپنی ذات پے خرچ کر دیے؟ سادہ مزاج شخص ہوں بڑے بڑوں کو چائے بسکٹ پے ٹرخاتا ہوں اور خود جو کوئی کھلا دے کھا لیتا ہوں، پہنا دے پہن لیتا ہوں، غریب عوام کا احساس کرتے ہوئے ذاتی گاڑی تک پاس نہیں کہ پیٹرول کی بچت ہو گی تو تیل کی قیمت قابو میں رہے گی۔ ہمیشہ کسی اور کی سواری گاڑی۔ جہاز۔ ہیلی کاپٹر میں لفٹ لے کے سفر کرتا ہوں کہ بھائی آپ اسی طرف جا رہے ہیں تو مجھے بنی گالہ اتارتے جائیں یا راستے سے مجھے بھی لیتے جائیے گا۔ دل کٹ جاتا ہے کہ ایسا فقیر منش بھلا مانس چراغ لے کے ڈھونڈے پر بھی کہاں ملے گا؟ کوئی ہے جو یوں سینہ زوری دکھا سکے کہ ہاں، لئے ہیں پیسے!

یہ دبنگ انداز دیکھ کے اس کے عقیدت مند حالت وجد میں جھوم رہے ہیں، نیاز مند سبحان اللہ، سبحان اللہ کہتے ہوئے اپنے رہنما کی آن کی خاطر لڑنے مرنے پر تل گئے ہیں اور شاید ایک آدھ کی جان لے بھی لیتے وہ تو بھلا ہو کہ یہ مجاہدین یہ جنگ سوشل میڈیا تک ہی لڑنے جوگے ہیں۔ تاہم کچھ ہی عرصے سے، اس میں بھی اب گاہے بگاہے صاحب دستار و تلوار کسی منہ زور کماندار کی سخت سرزنش کرنے لگے ہیں جسے عرف عام میں ”سافٹ وئیر اپ ڈیٹ“ کہا جاتا ہے۔

جھڑپوں کا یہ سلسلہ جاری ہے، لشکر اسلام اپنے قائد کی پاک قیادت میں ریاست مدینہ بنانے ہی جا رہے تھے کہ رضائے الہی سے ادائے ضل الہی نے رخ بدل لیا اور شہنشاۂ انصافین کو راتوں رات معزولی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اس پے سالوں پہلے لگے الزام کا فیصلہ بھی دشمن کی بد دعاؤں کے طفیل خلاف ہی آیا۔ آخری گیند تک لڑنے والے سالار اور اس کی ڈیجٹل فوج نے ہار اب بھی نہیں مانی ہے بلکہ اب تو حملوں میں زیادہ شدت آ گئی ہے۔ کمال یہ ہے کہ جو کہتا ہے، عشاق بے چوں چرا ایمان لے آتے ہیں۔ اپنی عقل و ذہانت کو زحمت نہیں دیتے کہ حقائق کو خود جاننے کی کوشش کریں۔ یہی ہوتا ہے جب سیاسی کارکن یا حامی جماعت کے منشور سے نابلد کسی نظریے کے بجائے ایک سیاسی پیر کا ارادت مند ہو جائے۔ اس برین واشنگ کے نتیجے میں جو تیار ہوتی ہے وہ بوزنوں کی فوج تو ہو سکتی ہے ہوش مندوں کی جماعت نہیں۔

تمہاری ہوشیاری چھین لے گا
بہت کچھ یہ مداری چھین لے گا

یوں جب پرستاری پرستش میں بدل جائے تو دلیل و ثبوت سامنے ہوتے بھی سچ کو تسلیم کرنے کی صلاحیت سلب ہو جاتی ہے۔ حقیقت کو پرکھنے کی ذاتی سمجھ بوجھ کو جذباتیت کے صندوق میں دھر کے اندھے اعتماد کا قفل چڑھا، کنجی لاعلمی کے دریا میں پھینک دی جاتی ہے

اب یہ معیار شہریاری ہے
کون کتنا بڑا مداری ہے

جس مداری سے ہمارا سامنا ہے وہ تماشا لگانے، دل کو لبھانے اور خود کرتب دکھانے کا ماہر ہے لہذا کام جاری ہے۔

روز نئے کرتب دکھلائے جادوگر
جھوٹ گھڑے اور سچ بتلائے جادوگر

جب کھلی آنکھوں دھول جھونکی جائے اور ماننے والے اس ڈگڈگی پے ناچنے پر فخر کریں تو انسان اور بندر کا فرق مٹ جاتا ہے یہی ہیں جو لنکا ڈھاتے ہیں ساتھ اپنے مداری کو بھی لے ڈوبتے ہیں۔ دیکھئے مداری۔ ڈگڈگی اور بچہ جمہورا کا کھیل کہاں تک اور کب تک چلتا ہے؟ ملک سری لنکا بننے سے بچ گیا ہے تو امید ہے یہ ننھے ہنومان بھی انسان بن ہی جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments