موت کے بعد داور پر کیا گزری


موت کا منظر۔ حماد بھائی کو دفنانے کا وقت ہو گیا تھا۔ نماز جنازہ میں اچھے خاصے لوگ تھے۔ چوں کہ قبرستان خاندانی تھا اس لیے کمال صاحب داور کے ساتھ اپنے عزیزوں، رشتہ داروں اور برادری کے کچھ لوگوں کی قبروں پر فاتحہ خوانی کر کے اب اپنے والد اور والدہ کی قبر تک پہنچ چکے تھے۔ پڑھ پڑھا کر قبر کے ساتھ بنے چبوترے پر ہی بیٹھ گئے۔ داور نے ہاتھ میں پکڑی پانی کی بوتل والد کو پکڑا دی اور حماد بھائی کی تدفین کی طرف متوجہ ہو گیا۔ ان کا اکلوتا لڑکا دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا اور سنبھالے نہیں سنبھلتا تھا۔ برادری میں یہ یکے بعد دیگرے تیسری میت تھی۔

چھ سات فٹ لمبا اور تقریباً اتنا ہی گہرا گڑھا۔ دو لوگ اس میں اترتے ہیں۔ کفن میں لپٹا جسم مکمل دھیان اور طاقت بیک وقت صرف کرتے ہوئے نیچے اتارتے ہیں۔ پھر پتھر کی سل رکھی جاتی ہے اور اوپر مٹی برابر کر دی جاتی ہے۔ کچھ لوگ قبر کی مٹی میں دائیاں ہاتھ ڈال کر دعائیں پڑھتے ہیں اور چلتے جاتے ہیں۔ داور بھی مسنون طریقہ پر عمل درآمد کر کے ہاتھوں سے مٹی جھاڑتا ہوا کمال صاحب کے پاس آ کر بیٹھ جاتا ہے۔

اب کیا ہو گا ابا؟ اب حماد کے گھر جائیں گے، بیبیوں کو دلاسا دیں گے، پھر مسجد میں دستر خوان لگے گا اور پھر گھر۔ ارے نہیں میں تو پوچھنا چاہ رہا تھا کہ حماد بھائی کا اب کیا ہو گا؟ تم نے کتابوں میں کیا پڑھا ہے؟ وہی ہو گا۔ شاید میں بھی یہی سوچ رہا تھا کہ آگے کی گیم کیا ہے، شاید کسی کو نہیں معلوم! ؟ تم زیادہ پڑھنے لگے ہو کتابیں، دہریے مت ہو جانا

کمال صاحب بیٹے کے سامنے اپنی عقیدے کی عمارت کو سنبھالا دیتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے اور حماد کے گھر کے طرف چل پڑے۔

داور سردیوں میں پنج وقتہ اور گرمیوں میں چہار وقتہ نمازی تھا کہ سردیوں میں سورج دیر سے نکلتا ہے اور رات لمبی ہوتی ہے۔ عملی زندگی گزارتے ہوئے وہ اس مقام پر کھڑا تھا جہاں پہنچ کر اسے معلوم ہوا کہ صرف اس کے اعتقاد اور یقین کی کشتی میں ہی سوراخ نہیں ہوا بلکہ ہر اس بندے کے سفینے کا یہی حال ہے جو اس کا ہم عصر ہے۔ بے یقینی کا پانی تیزی سے اندر داخل ہو رہا تھا مگر مذہبی اور مسلکی یقین کے پنکچر کسی کام نہیں آ رہے تھے۔ وہ یہ سوچ کر کبھی کبھی اپنے آپ کو تسلی دے دیتا تھا کہ میاں یہی دجال ہے۔

دعا وہ پانچ وقتی عبادت میں یہی کرتا تھا کہ اس کو اپنی موت کی تکلیف نہ سہنی پڑے۔ اس نے پڑھ رکھا تھا کہ روح نکلتے وقت یوں لگتا ہے جیسے کانٹوں پر ململ کا کپڑا ڈال کر کھینچا جائے۔ مگر یہ بھی ایک جگہ پڑھا تھا کہ غالباً ارسطو کہہ گیا ہے کہ کیا معلوم موت ہی سب سے آسان آزمائش ہو اور پھر سکون ہی سکون۔ ایسے سکون کی تلاش میں اس نے نشہ کرنے کا سوچا لیکن اتنا دل گردہ مضبوط نہ کر پایا کہ کیا معلوم نشہ کر کہ اسے کیا کیا فریب کاریاں نظر آنے لگیں اور بات کہیں اور نکل جائے۔

ایک وقت آیا کہ وہ سوچنے لگا کہ موت آ ہی گئی تو پھر شاید واقعی سکون ہو جائے گا اور حساب کتاب میں بھی زیادہ مشکل نہیں ہو گی کیوں کہ وہ ہر چیز میں میانہ روی اختیار رکھتا ہے۔ اور پھر خدا اس کو ستر ماؤں کے پیار سے زیادہ پیار بھی کرتا ہے۔ مگر پھر ہو گا کیا؟ قبر کے آگے کیا سین ہے؟ روز محشر تو چلو جب آئے گا اس سے پہلے کی کیا کہانی ہو گی؟ اس نے بڑا ڈھونڈا لیکن اپنے یہاں ہر جگہ اسے ممتاز مفتی کی اختراع پر مبنی خدا کے حوالے سے ہی ہر بات کا جواب ملا۔ پتہ نہیں کیسے لوگ ہیں، وہ سوچتا، کہ ان کا خدا بس بھسم ہی کرنا جانتا ہے۔ بہت کم ایسے ملے جو اس کے تصور خدا سے قریب قریب اپنا تصور خدا رکھتے تھے لیکن موت کے بعد کا وہی منظر بتاتے تھے جو ہر جگہ لکھا تھا۔

زندگی گزرتی رہی اور داور کو جواب نہ ملا۔ ایک رات کسی دوست کے یہاں خالی چھت پر کھڑے ہو کر اس نے یہ سوال کائنات کی طرف اچھال دیا اور انتظار کرنے لگا کہ جواب کہاں سے آتا ہے۔ وہ کوئی ولی یا پیغمبر تو تھا نہیں کہ معجزہ ہو جاتا۔ چپ چاپ گھر آیا اور پھر ایک کتاب اٹھا کر پڑھنے لگا۔ پڑھتے ہوئے نیند آنا اس کے لیے فطری عمل تھا چنانچہ وہ کرسی سے اٹھنے کا تکلف بھی نہ کرتا۔ اسے محسوس ہوا کہ نیند کا جھونکا آتے آتے کسی اور طرف نکل گیا ہے چناں چہ اس نے دوبارہ کتاب پڑھنے کا ارادہ کرتے ہوئے کتاب سنبھالنے کی کوشش کی تو ہاتھ خالی پائے، کتاب زمین پر پڑی تھی۔ کرسی سے اٹھا اور پلٹ کر جھکنے لگا تو چکرا گیا اور تیزی سے دو قدم پیچھے ہٹا۔ وہ سر جھکائے کرسی پر سوتے ہوئے اپنے آپ کو دیکھ سکتا تھا۔ اس کی کتاب بند ہو چکی تھی اور فرش پر پڑی تھی۔

غیر ارادی طور پر اس نے اپنے آپ کو ٹٹولا۔ وحشت کے عالم میں وہ کچھ دیر تو کھڑے کا کھڑا رہ گیا۔ حلق خشک، دل کی دھڑکن تیز اور پسینہ ٹھنڈا محسوس ہوا۔ اس پر لرزا طاری ہو گیا اور وہ آخر کار زمین پر بیٹھ گیا۔ ہمت کر کے داور اٹھا اور اپنے قریب گیا۔ سارے جسم کو نظروں سے ٹٹولا اور کوئی زخم یا ایسا نشان تلاش نہ کر سکا کہ جس سے یہ اندازہ لگائے کہ اسے کوئی جان سے مار گیا ہے۔ گھر پر اس وقت کوئی نہ تھا پھر بھی اس نے بیوی اور بچوں کو آواز دی لیکن کوئی جواب نہ آنا تھا، نہ آیا۔

طبعیت کچھ سنبھلی تو اس نے ہلکی سی خوشی محسوس کی۔ اس کو موت کی تکلیف نہیں ہوئی تھی۔ کوئی کانٹوں پر ململ کا کپڑا نہیں کھینچا کسی نے اور نہ ہی آنکھیں ابل کر باہر کو نکلیں۔ اس نے خود کو پر سکون محسوس کرنے کی کوشش کی اور کچھ حد تک کامیاب رہا۔ اس نے موت کے تجربات پر مبنی جو فلمیں دیکھ رکھی تھیں وہ اس کے دماغ میں گھومنے لگیں۔ جو موت کے متعلق پڑھ رکھا تھا وہ یاد آنے لگا۔ اب وہ تیار تھا کہ کوئی نوری لکیر کہیں سے پھوٹے گی اور وہ اس طرف کھچا چلا جائے گا یا پھر تھوڑی دیر میں ہوا میں تحلیل ہو جائے گا۔ مگر اسے اچانک یاد آیا کہ قبر کا معاملہ تو ابھی رہتا ہے۔ یہ سوچ کر داور نے آنکھیں بھینچ کر بند کر لیں۔ کھولیں تو وہ برادری کے قبرستان میں کھڑا تھا۔

اس کے تمام عزیز و اقارب اپنے بچوں کے ساتھ وہاں موجود تھے۔ ایک طرف پاؤں سے سر تک سفید کفن میں چھپا اس کا بے جان جسم لوہے کی چارپائی پر پڑا تھا جس کے چاروں کونوں پر اسی لوہے سے باڑ بھی بنا دی گئی تھی جو ایک طرف سے کھلتی تھی تا کہ میت نکالی جا سکے۔ حیرت انگیز طور پر اس کو خوف محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ اسے لگا کہ وہ گھبرانا چاہ رہا ہے لیکن گھبرا نہیں پا رہا۔

وہ اپنی قبر کے سرہانے کھڑا ساری کارروائی دیکھ رہا تھا کہ اسے لگا کوئی اسے دیکھ رہا ہے۔ غیر ارادی طور پر اس کی نظر اٹھی تو اس کے ایک کزن کی گود میں کچھ مہینوں کا بچہ اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ داور نے بچے کی طرف مسکرا کر ہاتھ سے اشارہ کیا تو وہ بچہ بھی کھلکھلایا۔ اس نے سوچا اس بات سے تصدیق ہو گئی کہ روحیں بچوں کو نظر آتی ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ میں واقعی مر چکا ہوں۔

میت درگور ہوئی۔ دہانہ بند ہوا۔ تعزیت دار رخصت ہوئے اور سناٹا چھا گیا۔ داور اپنی کچی قبر کے ساتھ بیٹھا سوچ رہا تھا کہ اب شاید دو فرشتے آئیں گے اور سوال جواب شروع ہوں گے۔ ایک بات اسے عجیب لگی کہ اب کوئی آواز نہیں آ رہی تھی اسے۔ ہوا چل رہی تھی۔ قریب ٹریفک بھی رواں دواں تھی مگر سناٹا تھا۔ دفعتاً اسے محسوس ہوا کہ قبرستان کے دوسرے کونے سے کوئی چلتا ہوا آ رہا ہے۔ وہ تیار ہو گیا کہ سوال و جواب کا وقت آن پہنچا ہے۔

اس نے دل میں دینی باتیں دہرانا شروع کر دیں۔ اسے سب یاد تھا۔ تھوڑا حوصلہ ہوا کہ شکر ہے یہ مرحلہ آسانی سے گزر جائے گا۔ وہ بھی مرنے والوں کے لیے یہی دعا کرتا تھا کہ خدا ان کی منزلیں آسان فرمائے۔ یقیناً اس کے حق میں بھی کسی کی دعا قبول ہو گئی ہو گی جب ہی اس کو سب جواب یاد ہیں۔ جوں جوں وہ شخص قریب آتا جا رہا تھا، داور کی بے چینی بڑھتی جا رہی تھی کہ یہ سب قبر کے اندر کیوں نہیں ہو رہا اور جواب لینے صرف ایک شخص کیوں آ رہا ہے۔

داور نے اٹھ کر ٹہلنا شروع کر دیا۔ فاصلہ اتنا تو نہیں تھا لیکن وہ شخص داور تک پہنچ ہی نہیں پا رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ منظر بیک وقت آگے کی طرف چلتا ہوا پیچھے کی جانب دھکیلا جا رہا ہے بالکل کسی کیمرے کے خراب لینز کی طرح جس کا فوکس قابو میں نہ رہا ہو۔ داور نے رک کر کمر پر ہاتھ رکھے سانس خارج کی اور آنکھیں بھینچ کر بند کر لیں۔ یہ سکون کی ساعت گزرتے ہی اسے اپنے پاس کسی کی موجودی کا احساس ہوا۔ داور نے گھبرا کر آنکھیں کھول دیں۔ اس کے ساتھ ایک شخص کھڑا تھا۔

وہ دونوں ایک دوسرے کی طرف کچھ دیر دیکھتے رہے۔ اس شخص کا تو معلوم نہیں لیکن داور کو اس کا چہرہ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اس کے سر پر صافہ نما پگڑی تھی اور ہلکے سرمئی رنگ کی شلوار قمیص کے اوپر کالے رنگ کی واسکٹ پہنے ہوئے تھا۔ چہرے کی جگہ دھندلی تھی۔ آخر اس شخص میں سے آواز آئی

داور؟ داور کمال؟ جی میں داور کمال۔ آپ؟ آپ کون۔ ہیں؟ میں تمہارا پر دادا ہوں داور بیٹا خدا بخش؟ خدا بخش صاحب؟ ہاں۔ ارے واہ نام معلوم ہے تمھیں۔ مجھے امید نہیں تھی۔ جی جی۔ لیکن آپ کا چہرہ؟ نہیں نظر آئے گا تمھیں۔ کیوں کہ تم نے مجھے دیکھا نہیں کبھی۔

اچھا، صحیح۔ تو اب آگے کیا ہو گا؟ وہ سوال جواب؟ اور قبر میں کھڑکی بھی تو کھلنی تھی۔

اوہ تو تم بھی یہی سن کر آئے ہو؟ اچھا یہ بتاؤ کہ پکا یقین ہے تمھیں کہ دو فرشتے آئیں گے اور سوال کریں گے تم سے؟

ہاں، نہیں۔ وہ سنا تو یہی تھا!

بس پھر ٹھیک ہے، کوئی نہیں آئے گا۔ جس بات پر تم پکا یقین کر کے مرے ہو آگے وہی ہو گا۔ یہ سب دماغ کا کھیل ہے۔ یہ مر کر بھی پیچھا نہیں چھوڑتا۔ ویسے جسم بے کار ہو جاتا ہے لیکن دماغ نے تمھاری روح پر جو نشان یقین اور ایمان کی صورت میں ثبت کر دیے ہیں، اب انھیں کے مطابق سب معاملات چلیں گے۔ اب یہ بتاؤ کہ تم کو کس بات پر یقین تھا کہ مرنے کے بعد یہ لازمی ہو گا۔

داور نے بات کو کچھ کچھ سمجھتے ہوئے کہا کہ قبر میں جنت کی طرف کھڑکی کھلے گی اور میں قیامت تک وہاں رہوں گا، فی الحال تو اس بات پر یقین تھا مجھے۔

آؤ پھر قبر میں چلیں

دوسرے ہی لمحے خدا بخش اور داور قبر کے اندر کھڑے تھے۔ اس نے داور کی طرف رخ کیا جیسے پوچھ رہا ہو کہ کس طرف کھڑکی کھلنے پر یقین تھا اس کو۔ داور نے محسوس کیا کہ قبر کافی کشادہ اور روشن تھی، دنیا میں اس کی سوچ کے عین مطابق۔ اس کا جسم دائیں ہاتھ پر تھا اور دوسری طرف اس کا پر دادا دھندلے چہرے کے ساتھ اسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ داور نے اپنے بائیں جانب مٹی کی دیوار کی طرف دیکھتے ہوئے بایاں ہاتھ دیوار پر رکھا ہی تھا کہ وہاں ایک کھڑکی نمودار ہو گئی۔ ٹھنڈی ہوا کا جھونکا محسوس کرتے ہی داور کی دلی کیفیت قدرے بہتر ہو گئی۔ وہ دونوں کھڑکی میں سے گزر کر دوسری جانب چلے گئے۔ داور نے پیچھے مڑ کر کفن میں لپٹے جسم کو آخری بار دیکھا اور کھڑکی بند ہو گئی۔

وہ گم سم کھڑا اس وقت تک دیوار کو تکتا رہا جب اس کے کانوں سے خدا بخش کی آواز ٹکرائی ”بڑے فنکار نکلے بھئی تم، مجھے اندازہ نہیں تھا کہ میری نسل سے ایسا لڑکا نکلے گا“ داور نے گھوم کر آگے کا منظر دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا۔ جیسی جنت سوچی تھی ویسا ہی سماں پایا۔ حد نگاہ تک سبزہ، پھل دار درخت، ہر طرح کی پرندے۔ دور ایک عالی شان عمارت بھی نظر آ رہی تھی جس کے اطراف دو نہریں بہہ رہی تھیں۔ سب کچھ ویسا تھا جیسا وہ سوچتا تھا۔ دفعتاً اس نے اپنے کندھے پر خدا بخش کا ہاتھ محسوس کیا۔ پھر اس کی آواز آئی۔

اس سب کو تم بدل بھی سکتے ہو لیکن اس کے لیے تمھیں دوبارہ دنیا میں جانا پڑے گا۔
میں کیسے جا سکتا ہوں؟ میں تو مر چکا ہوں؟

خدا بخش نے اس کے سوال کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے پھر کہا، یاد رکھو جس روش پر دماغ کو استعمال کرو گے، مرنے کے بعد وہی پاؤ گے۔ اس دوران وہ مسلسل داور کا کندھا ہلائے جا رہا تھا۔ داور نے زور سے آنکھیں بھینچ لیں۔ خدا بخش اس کا کندھا ہلائے جا رہا تھا۔

داور نے آنکھیں کھولیں تو اس کا بیٹا زور زور سے اس کا کندھا ہلاتے ہوئے اسے اٹھانے کی کوشش کر رہا تھا۔
اس کی کتاب فرش پر پڑی تھی اور ابھی کھلی ہوئی تھی۔

خاور جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

خاور جمال

خاور جمال پیشے کے اعتبار سے فضائی میزبان ہیں اور اپنی ائیر لائن کے بارے میں کسی سے بات کرنا پسند نہیں کرتے، کوئی بات کرے تو لڑنے بھڑنے پر تیار ہو جاتے ہیں

khawar-jamal has 41 posts and counting.See all posts by khawar-jamal

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments