گجرات کا چوہدری گھرانہ



چوہدری شجاعت حسین آج کل تاریخ کے سب سے بڑے امتحان سے گزر رہے ہیں۔ انہیں اپنے خونی رشتوں کی طرف سے بڑے سنگین چیلنجز کا سامنا ہے۔ چوہدری پرویزالہی کی پنجاب میں حکمرانی کی خواہش نے اس معتبر خاندان کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا ہے۔ اگر بات پرویزالہی کی وزارت اعلی تک ہی محدود رہتی تو کوئی مضائقہ نہیں تھا۔ کیوں کہ نون لیگ انہیں اس عہدے کی آفر پہلے ہی کر چکی تھی۔ اس پیرانہ سالی میں چوہدری شجاعت نے اسلام آباد جا کر جناب زرداری، میاں شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمن سے مذاکرات کیے۔

اور اپنے کزن کے لیے وزیراعلی پنجاب کا منصب حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ چوہدری پرویزالہی بھی حکومتی اتحاد کا امیدوار بننے کے لیے راضی تھے۔ وہ عمران خان کے ہاتھ پر بیعت کرنے سے پہلی نیپیوں کے بدلنے اور ان کی مہنگی ہونے کے بارے میں دلچسپ تبصرے کر رہے تھے۔ مگر ان کے صاحب زادے مونس الہیٰ کے ذہن میں کچھ اور ہی کھچڑی پک رہی تھی۔ انہیں اپنا سیاسی مستقبل نون لیگ کے بجائے تحریک انصاف کا اتحادی بن کر زیادہ روشن دکھائی دے رہا تھا۔

لہذا انہوں نے اپنے ماموں چوہدری شجاعت حسین کی عزت اور حکمران اتحاد سے سے کیے گئے معاہدے کا بھی پاس نہیں کیا۔ اور اپنے والد کو کھینچ کر بنی گالہ لے گئے۔ اور اس طرح اپنے بزرگوں کی عزت اور وقار پر داغ لگا دیا۔ مہمان نوازی کی اعلی روایات کا عامل یہ خاندان اب خبروں اور تبصروں کی زینت بنا ہوا ہے۔ اقتدار کی لالچ اور ہوس نے چوہدریوں کی برسوں کی ریاضت کو ایک لمحے میں خاک میں ملا دیا ہے۔

لوگ پنجاب کے اس بڑے خاندان کی وضع داری اور مہمان نوازی کی اعلی روایات کی مثالیں دیتے تھے۔ خاص کر خاندان کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کو بڑی عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اب بھی ان کی عزت اور سیاسی قد کاٹھ کی اہمیت اپنی جگہ برقرار ہے۔ انہیں میدان سیاست میں ایک قیمتی اثاثہ سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنے طویل سیاسی کیریر میں ہمیشہ جمہوری اقدار کی پاسداری کی۔ اور آئین اور قانون کو مقدم سمجھا۔ انہوں نے اس نازک صورت حال میں بھی بڑی سنجیدگی اور بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے بیٹوں کو ہر قسم کا اختلافی بیان دینے سے منع کیا۔ بدقسمتی سے مگر ان کے چھوٹے بھائی چوہدری وجاہت نے گجرات میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چوہدری سالک پر آصف زرداری سے ڈالر حاصل کرنے کا الزام عائد کر دیا۔ جس کی وجہ سے چوہدری شجاعت بڑے غمزدہ ہوئے۔

چوہدری شجاعت حسین نے اپنی سیاسی زندگی پر ایک کتاب بھی تحریر کی ہے۔ جس میں انہوں نے اپنے طویل سیاسی کیریر کے دوران پیش آئے واقعات کا بڑی تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔

جنرل ضیاءالحق کی طیارے کے حادثے میں ہلاکت کے بعد مرحوم کی فیملی کو اسلام آباد میں رہائش کے حصول میں مشکلات کا سامنا تھا۔ اس موقع پر چوہدری شجاعت ہی وہ واحد شخص تھے۔ جنہوں نے اپنی کوٹھی ان کے تصرف میں دے دی۔

چوہدری سالک حسین کا کہنا ہے چوہدریوں کے درمیان پہلی دراڑ اس وقت پڑی جب 2018 کے الیکشن کے موقع پر پرویز الہی نے گجرات کی نشستوں پر ٹکٹوں کی تقسیم کے موقع پر چوہدری شجاعت کے صاحبزادوں کو نظر انداز کیا۔ دراصل پرویزالہی مستقبل کے سیاسی سیٹ اپ میں اپنے صاحبزادے کو ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھانا چاہتے تھے۔ اس لیے انہوں نے چوہدری شجاعت کی بیماری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کی فیملی کو سائڈ لائن کرنا شروع کر دیا۔

2018 کے عام انتخابات میں عمران خان کو وفاق میں حکومت سازی کے لیے اتحادیوں کی ضرورت پڑی۔ تو دیگر جماعتوں کی طرح ق لیگ کو بھی ان کی جھولی میں ڈال دیا گیا۔ باوجود اس کے عمران خان اپنے مزاج کی وجہ سے اتحادی جماعتوں کے سربراہان سے ملنے اور ان سے مشاورت کے روادار نہیں تھے۔ مگر بعض نادیدہ ہاتھوں نے ان کو خان صاحب کی کشتی سے اترنے نہ دیا۔ ایک دفعہ ق لیگ کے سربراہ بیماری کی وجہ سے ہسپتال میں بھی داخل ہونے۔ وہ اس دوران زندگی اؤر موت کی کشمکش میں مبتلا رہے۔ عمران خان کو انسانیت کے ناتے چوہدری صاحب کی عیادت کے لیے جانا چاہیے تھا۔ مگر انہوں نے بزرگ سیاستدان کی عیادت سے گریز کیا۔ وہ اس وقت چوہدریوں کے ڈیرے پر گئے۔ جب انہیں سیاسی محاذ پر مشکلات کا سامنا تھا۔

ماضی میں چوہدری پرویز الہی اپنے بیٹے مونس الہی کو وفاق میں وزارت کی کرسی پر بٹھانا چاہتے تھے۔ مگر عمران خان چوہدری مونس کو مالی طور پر بدعنوان سمجھتے تھے۔ اسی وجہ سے کئی سال تک انہیں زیر غور نہیں لایا گیا۔ البتہ خان صاحب نے چوہدری سالک حسین کو کابینہ میں شامل کرنے کی پیش کش ضرور کی تھی۔ مگر چوہدریوں نے ان کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔ وہ مونس الہیٰ کو ہی وزیر بنانے پر مصر رہے۔

چوہدری شجاعت اپنے کزن پرویزالہی کے سیاسی اتالیق بھی سمجھے جاتے ہیں۔ انہوں نے پرویزالہی کو سیاست کے داؤ پیج سکھائے۔ مگر آج ایک موقع پر پرویزالہی نے چوہدری شجاعت کو ذہنی طور پر بیمار قرار دے کر انتہائی کم ظرفی کا مظاہرہ کیا ہے۔

چوہدری شجاعت کی نسبت پرویزالہی اقتدار کے حصول کے لیے زور زبردستی کے قائل ہیں۔ وہ اس سلسلے میں جمہوری اقدار کو پست پشت ڈالنے سے بالکل نہیں ہچکچاتے۔ پنجاب میں وزیراعلی کے انتخاب کے موقع پر انہوں نے اپنے خاص آدمیوں کے ذریعے اسمبلی اجلاس کے دوران ہنگامہ آرائی کرائی۔ انہوں نے بجٹ اجلاس کے انعقاد میں بھی غیر ضروری رکاوٹیں کھڑی کیں۔

چوہدری سالک حسین نے ایک ٹی وی اینکر سے بات کرتے ہوئے یہ انکشاف بھی کیا۔ کہ سابق خاتون اول بشری بی بی نے پرویزالہی کو تحریک انصاف کا امیدوار بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس سلسلے میں سابق وفاقی وزیر خسرو بختیار بھی متحرک رہے۔

جہاندیدہ چوہدری شجاعت سمجھتے ہیں کہ عمران خان فطرتاً کسی بھی اتحادی کے ساتھ بنا کر رکھنے کے قائل نہیں ہیں۔ وہ اپنے فیصلے ٹھونسنے اور دوسروں کا مشورہ نہ ماننے کے عادی ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں۔ بہت جلد عمران خان اور پرویزالہی گروپ اتحاد کی ہنڈیا بیچ چوراہے میں پھوٹے گی۔

پنجاب کی 21 رکنی کابینہ نے کل اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے۔ کابینہ میں جو ارکان شامل کیے گئے۔ ان کے ناموں کی منظوری عمران خان نے دی ہے۔ حیران کن طور پر کابینہ میں ق لیگ کا کوئی رکن شامل نہیں کیا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).