کمال کی بات


جیسے جیسے عمر کا سن بڑھتا جاتا ہے ’ویسے ویسے ماضی سے وابستہ بھولی بسری باتیں عود کر آنے کا رجحان بھی بڑھتا جاتا ہے۔ بھلے کل کا کھایا یاد نہ آئے لیکن ماضی کے یاد آئے واقعے کی جزئیات بھی ذہن کے کینوس پہ نمایاں ہونے لگتی ہیں۔ اور پھر تو سمندر کے پانیوں میں ڈولتی کشتی ہے‘ جہاں مرضی بہا لے جائیں ’جہاں مرضی لنگر انداز ہو جائیں‘ جیسے مرضی ہواؤں کا رخ موڑ لیں اور سفر سے لطف اندوز ہوتے رہیں۔

یونیورسٹی کے پہلے سال اسلام آباد میں کمیونیکیشن کے ایک ادارے کا مطالعاتی دورہ تھا۔ ہر کوئی اپنے اپنے مزاج کے مطابق اس دورے کے اعلان سے خوش تھا۔ پڑھاکو طرز کے لڑکوں کو پڑھائے گئے نصاب کی عملی شکل اور کام کرتی مشینوں کو دیکھنے کی حسرت تھی ’تو کسی کو اسلام آباد کے پرفضا مقامات پہ جانے کا شوق‘ کسی کا گھر اسلام آباد کے مضافات میں تھا تو اسے مفت کی سواری ملنے کا الگ ہی مزہ تھا۔

دورے کے اختتام پہ لڑکوں کو نیم دائرے کی شکل میں اکٹھا کر کے ماسٹر صاحبان نے نصاب سے متعلق کچھ چیزوں پہ روشنی ڈالی تا کہ کتابی باتوں کا بھی اعادہ ہو جائے اور نصابی اور عملی چیزوں کا باہمی ربط بھی استوار ہو سکے۔ ماسٹر صاحبان کے مختصر لیکچر کے بعد ’جیسا کہ عموماً ہوتا ہے‘ سوال جواب کے خصوصی سیشن کا بھی انتظام تھا۔

سب سوال تو یاد نہیں لیکن اپنے کام کا سوال یاد رہ گیا۔ ایک لڑکے نے پوچھا : حیرت کی بات ہے کہ ایک ہی بندہ اتنے سارے کام کر رہا تھا ’یہ سب باتیں یاد رکھنا‘ اور یہ سارے کام جاننا بھی کمال ہے۔ ماسٹر صاحب نے بھی اس کا کمال جواب دیا کہ : اتنی سب باتوں کے بارے جاننا کمال نہیں ہے ’ایک چیز کے بارے میں کمال کی حد تک جاننا بڑی بات ہے۔

اپنے کام سے کام رکھنے کا محاورہ بھی شاید اسی لئے وجود میں آیا ’اپنا کام ڈھنگ سے‘ خوش اصلوبی سے ’بہتر طریقے سے اور سب سے بڑی بات کہ اپنا کام بے عیب مہارت سے کرنا ہی کامیابی ہے۔ اپنے حصے کا کمال حاصل کرنے کے لئے محنت اور لگن شرط ہے۔ انتھک محنت بھی صبر آزما مشقت اور دعاؤں کی کامیابی کی ہی مرہون منت ہے۔ محنت تو سب ہی کرتے ہیں لیکن کمال کی حد کو چند ایک ہی پہنچ پاتے ہیں۔

جیسے ایک نقطے کے فرق سے محرم ’مجرم قرار پاتے ہیں ایسے ہی کمال کی حد کو پانے کے لئے ایک ہی نقطہ سمجھنا کافی ہے۔ محنت کے ایک نقطے کو بدل کر محنت سے محبت کر لیں‘ کمال کو پا لیں گے۔ سرکار دو جہاں نبی محترم کے دور میں چار موذن تھے لیکن سیدنا بلال کا نام ہی عوام کو یاد ہے ’قرآن کے لاتعداد قاری ہوئے لیکن مقبولیت کا خاص مقام قاری عبدالصمد کے حصے آیا‘ یہ سب اپنی محنت (کام) سے محبت ہی کی وجہ سے ممکن ہوا۔

جتنا گڑ اتنا میٹھا کے مصداق جتنی محبت کے ساتھ محنت ہوگی ’اتنا ہی خلوص اور عجز بڑھتا جائے گا اور نتیجے کے طور پہ اس کے مطابق ہی کمال کے درجات ملتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments