رسول اللہؐ کا پھول۔ جنتی نوجوانوں کے سردار۔ شہید کربلا


حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ
حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں
تاریخ انسانیت کا سب سے بڑا سانحہ جو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا

حضرت امام حسین ؓکی ولادت با سعادت ہجرت کے چوتھے برس مدینہ منورہ میں ہوئی جب نبی کریم ﷺ کو آپ ؓکی پیدائش کی خوشخبری سنائی گئی تو آپ ﷺ بہت خوش ہوئے اور حضرت فاطمہ ؓ کے گھر تشریف لے گئے۔ آپ ﷺ نے نومولود حضرت حسین ؓ کو گود میں اٹھالیا اور کانوں میں اذان دی پھر نبی کریم ﷺ نے ان کے منہ میں اپنا مبارک لعاب دہن داخل فرمایا، آپؓ کے لئے دعا فرمائی اور آپؓ کا خوبصورت نام ”حسین ؓ“ رکھا۔ آپؓ کے القاب سبط رسول اللہ یعنی رسول اللہ کے نواسے اور یحانۃ الرسول یعنی رسول خدا کے پھول ہیں۔ حضرت سعد بن مالک سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ”حسن اور حسین میرے دو پھول ہیں۔“ (کنزالعمال)

نبی کریم ﷺ کو حضرت حسین ؓ سے بے حد محبت تھی آپ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ ”حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں۔“ (ترمذی) ایک موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ ”جس نے حسنؓ اور حسینؓ سے محبت کی، اس نے درحقیقت مجھ سے محبت کی اور جو ان دونوں سے بغض رکھے گا، وہ دراصل مجھ سے بغض رکھنے والا ہے۔“ (البدایتہ والنہایتہ ج 8 ص 208 ) حضرت امام حسین ؓ کا جسم پاک رسول اللہ ﷺ کے جسد اطہر کے مشابہ تھا۔ امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہ فرماتے ہیں کہ ”حسنؓ سر سے لے کر سینہ تک نبی کریم ﷺ سے مشابہ تھے اور حسینؓ سینہ سے لے کر قدموں تک آپ ﷺ کے ساتھ بہت مشابہت رکھتے تھے۔“ (ترمذی)

حضرت امام حسین ؓ نے تقریباً سات سال تک اپنے نانا نبی کریم ﷺ کے زیر سایہ پرورش پائی، آپؓ بے حد عبادت گزار، متقی، پرہیزگار، مہمان نواز، صبر و تقویٰ کے حامل اور غریب پرور تھے۔ آپؓ کے صاحبزادے حضرت علی زین العابدینؒ فرماتے ہیں کہ ”حضرت حسینؓ دن رات میں ایک ہزار نفل پڑھا کرتے تھے۔ (سیرت الصحابہؓ) مروی ہے کہ آپؓ نے پچیس حج پیدل ادا کیے ۔ (ابن عساکر) ایک مرتبہ آپؓ اپنی سواری پر تشریف لے جا رہے تھے کہ راستے میں مساکین بیٹھے ہوئے تھے جو بچے کچے ٹکڑے کھا رہے تھے جب آپؓ نے مساکین کو سلام کیا تو انھوں نے آپؓ کو کھانے کی دعوت دی۔ آپؓ اپنی سواری سے نیچے تشریف لے آئے اور مساکین کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا پھر آپؓ مساکین کو اپنے گھر دعوت پر لے گئے اور انھیں کھانا کھلایا، کپڑے اور درہم عطا فرمائے۔ (حسن اخلاق، ص 63 )

حضرت علامہ جامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ”حضرت امام حسینؓ کی شان یہ تھی کہ جب اندھیرے میں تشریف فرما ہوتے تو آپ ؓکی پیشانی اور رخسار مبارک سے انوار نکلتے اور اطراف روشن ہو جاتے (شواہد النبوۃ فارسی، ص 228 )

ایک موقع ایسا آیا کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت امام حسینؓ کی وجہ سے اپنے سجدے کو لمبا کر دیا، امام نسائی نے حضرت عبداللہ بن شداد ؓسے روایت کو نقل کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ عشاء کی نماز کے لئے ہمارے ہاں تشریف لائے تو حضرت حسن ؓ اور حضرت حسینؓ کو اٹھائے ہوئے تھے، آپ ﷺ نے انہیں بٹھا دیا پھر نماز کے لیے تکبیر فرمائی اور نماز ادا کرنے لگے، حضرت عبداللہ بن شدادؓ کہتے ہیں کہ دوران نماز جب آپ ﷺ نے لمبا سجدہ کیا تو میں نے سر اٹھا کر اوپر دیکھا تو حضور اکرم ﷺ حالت سجدہ میں ہیں اور آپ ﷺ کی پشت انور پر حضرت حسینؓ سوار ہیں، میں پھر سجدہ میں چلا گیا۔

جب نماز سے فارغ ہوئے تو صحابہ کرامؓ نے عرض کیا ”یارسول اللہ، آپ نے نماز میں سجدہ اتنا طویل فرمایا کہ ہمیں گمان ہوا کہ کوئی حکم الٰہی واقع ہو گیا ہے یا آپ ﷺ پر وحی نازل ہونے لگی ہے، حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس طرح کی کوئی بات نہیں سوائے یہ کہ میرا بیٹا مجھ پر سوار ہو گیا تھا اس لئے مجھے سجدے سے اٹھنے میں جلدی کرنا اچھا نہ لگا جب تک وہ اپنی خواہش سے نہ اترتے۔ (نسائی)

حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ میں آقا ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے حضرت امام حسینؓ اور حضرت امام حسنؓ کو اپنی پشت مبارک پر بٹھا کر ہاتھوں اور گھٹنوں پر چل رہے تھے، میں نے کہا سواری کتنی اچھی ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا سوار کتنے اچھے ہیں۔ (کنزالعمال)

رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ آپ کو اہل بیت میں سے کس سے سب سے زیادہ محبت ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ”حسن و حسین سے“ رسول اللہ ﷺ حضرت فاطمہؓ کو فرماتے کہ میرے بچوں کو میرے پاس بلاؤ، پھر آپ ﷺ انہیں چومتے اور سینے سے لگاتے۔ ” (ترمذی: 3772)

حضرت ابو بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ”رسول اللہ ﷺ ہمیں خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ اچانک حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ سرخ قمیصوں میں ملبوس گرتے پڑتے آرہے تھے، رسول اللہ ﷺ منبر سے اترے، دونوں کو اٹھالیا اور اپنے سامنے بٹھا لیا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے کہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہارے لیے آزمائش ہے، میں نے ان بچوں کو دیکھا کہ گرتے ہوئے آرہے ہیں تو مجھ سے رہا نہیں گیا، حتیٰ کہ میں نے اپنی گفتگو روک کر انہیں اٹھایا۔“ (جامع ترمذی: 3774)

حضرت یعلٰی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ”وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک دعوت طعام پر گئے، رسول اللہ ﷺ لوگوں کے آگے آگے چل رہے تھے، آپ نے دیکھا کہ حسین ؓبچوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے انہیں پکڑنا چاہا تو وہ ادھر ادھر دوڑنے لگے۔ رسول اللہ ﷺ بھی ان کو پکڑنے کے لیے دوڑ کر خوش طبعی کرنے لگے حتیٰ کہ آپ ﷺ نے انہیں پکڑ لیا، پھر اپنا ایک ہاتھ ان کی گدی پر رکھا اور دوسرا ٹھوڑی کے نیچے رکھا اور ان کے دہن طیب پر اپنا دہن مبارک رکھ کر چومنے لگے اور فرمایا کہ، حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں اور اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرتے ہیں جو حسین سے محبت کرے۔“ (المستدرک للحاکم)

حضرت علی کرم اللہ وجہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے حضرت فاطمہؓ سے فرمایا کہ کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ تم جنت کی عورتوں کی سردار ہو اور تمھارے بیٹے جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔ (کنزالعمال)

حضور اکرم ﷺ کو اپنے لاڈلے نواسہ حضرت امام حسین ؓ کی شہادت کے بارے میں پہلے سے ہی علم ہو گیا تھا۔ ایک مرتبہ حضرت سیدنا جبریل امین علیہ السلام رسول کریم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر تھے کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ بھی آ گئے اور آپ ﷺ کی مبارک گود میں بیٹھ گئے۔ جبریل امین علیہ السلام نے عرض کیا ”آپ ﷺ کی امت آپ ﷺ کے اس بیٹے کو شہید کردے گی۔“ جبریل امین علیہ السلام نے بارگاہ رسالت میں مقام شہادت کا نام بتا کر وہاں کی مٹی بھی پیش کی۔ (معجم کبیر، 3 / 108، حدیث: 2817 ماخوذ)

سن 60 ہجری میں جب یزید تخت پر بیٹھا تو لادینیت، ظلم و جبر، نا انصافی، فسق و فجور اور عہد شکنی پر مبنی دور شروع ہوا، یزید نے طاقت کے زور پر اپنے حق میں جبری بیعت لینا شروع کردی اہل کوفہ حضرت امام حسینؓ کو خطوط لکھ کر اصرار کرتے رہے کہ آپؓ کوفہ تشریف لے آئیں تاکہ ایک کوفہ آپؓ کے ہاتھ پر بیعت کرسکیں۔ اہل کوفہ کے بے حد اصرار پر جن حضرت امام حسین ؓ اپنے اہل و عیال اور خاندان کے ہمراہ کوفہ کی جانب روانہ ہونے لگے تو صحابہ کرام ؓ نے آپؓ کو روکنے کی کوشش کی کیونکہ وہ اہل کوفہ کی بے وفائیوں کو اچھی طرح جانتے تھے۔

حضرت امام حسین ؓنے فرمایا ”میں نے اپنے نانا کو خواب میں دیکھا ہے، حضور ﷺ نے مجھے تاکید کے ساتھ اس کام کو کرنے کا حکم دیا ہے، اب یہ کام ضرور کروں گا، خواہ مجھے نقصان ہو یا فائدہ۔“ لوگوں نے آپؓ سے خواب کی تفصیل جاننی چاہی تو آپ ؓنے فرمایا ”میں نے یہ خواب کسی کو نہیں بتایا اور نہ بتاؤں گا یہاں تک کہ اپنے پروردگار عزوجل سے جا ملوں گا“ (ابن اثیر، البدایہ والنہایہ) ۔

کوفہ کے صحرا میں جب حق و باطل کا معرکہ شروع ہوا تو آپؓ اپنے نانا کے دین کو بچانے کی خاطر خاندان اور رفقاء کی قربانیاں پیش کرنا شروع کر دیں آخر میں لخت جگر علی اکبر ہاتھ میں تلوار پکڑے آگے بڑھے اور دلیری سے مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہو گئے۔ شیرخوار شہزادے علی اصغر کی شہادت کے بعد حضرت حسینؓ تنہا رہ گئے لشکر یزیدی نے چاروں جانب سے آپؓ کو گھیر لیا لیکن آپؓ کی تلوار یزیدی لشکر کے سر قلم کرتی رہی جب کہیں دور سے اذان کی آواز سنائی دی تو حضرت امام حسینؓ نے ہاتھ روک لیا اور نماز پڑھنے کی مہلت مانگی اسی لمحہ ملعون شمر کے کہنے پر مالک کندی نے آپؓ پر تلوار سے وار کر دیا، تلوار کلاہ مبارک کو کاٹتی ہوئی کاسہ سر تک پہنچ گئی اور خون کا فوارہ پھوٹ پڑا۔

آپؓ نے زخمی سر مبارک پر دوسرا عمامہ باندھ لیا۔ ہزاروں یزیدی فوج کے لشکر کے حصار میں حضرت امام حسینؓ اکیلے ان کا مقابلہ کر رہے تھے آپؓ کے جسم اطہر زخموں سے بھر گیا لیکن تلوار نہ رکی آخر شمر ملعون نے دھاڑ کر کہا ”مل کر حملہ کرو“ آپؓ پر تیروں کی بوچھاڑ کردی گئی، ایک تیر گردن پر پیوست ہو گیا جسے آپؓ نے اپنے ہاتھوں سے کھینچ کر نکالا اور مقابلہ کرنے لگے، یزیدی لشکر پر ہیبت طاری تھی پھر ایک سنگ دل اور شقی القلب سنان نے آپؓ کے سر مبارک کو جسم اطہر سے جدا کر دیا اور آپؓ شہید ہو گئے۔

علامہ ابن جوزی نے ”تذکرۃ الخواص“ میں لکھا ہے کہ ”آپ ؓکے جسم اطہر پر 33 زخم نیزوں کے اور 43 زخم تلواروں کے تھے اور آپ ؓکے پیرہن شریف پر 121 سوراخ تیروں کے تھے۔ یہ تمام زخم، جسم مبارک کے اگلے حصے میں تھے، پشت مبارک کی جانب کوئی زخم نہ تھا“ (جامع التواریخ) ۔ حضرت امام حسین ؓ نے دین کی حفاظت کے لئے جس طرح لازوال قربانیاں دیں وہ تاریخ انسانیت میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ تحریر لکھتے ہوئے کوئی غلطی ہو گئی ہو تو اللہ کے حضور معافی کی طلب گار ہوں۔

اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے گھر والوں کو بیماریوں، مشکلات اور مصیبتوں سے محفوظ رکھے آمین
دعا گو! ماں جی اللہ والے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments