عمر بن عبدالعزیز ؒ اور ہمارے عہد کے حکمران


گزشتہ ہفتے ”شخصیات“ کے عنوان سے مولانا سید ابو الا علیٰ مودودی مرحوم کی کتاب کے مطالعے کا موقع ملا۔ اس کتاب میں مولانا کی منتشر تحریروں کو یک جا کر دیا گیا ہے۔ کتاب کے مرتین میں ہمارے محترم استاد پروفیسر خالد ہمایوں اور سمیع اللہ شامل ہیں۔

کتاب میں دوسرا مضمون اسلام کے سب سے پہلے مجدد عمر بن عبدالعزیز۔ ؒ سے متعلق ہے۔ جنھیں ہوش سنبھالتے ہی مصر کی گورنری ملی۔ بنی امیہ کے شاہی خاندان کی زمینوں میں عمر بن عبدالعزیزؒ کے گھرانے کا بھی بہت بڑا حصہ تھا۔ جس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی ذاتی جائیداد کی آمدنی پچاس ہزار اشرفی سالانہ تک ہوتی تھی۔ ان کا رہن سہن رئیسانہ اور شاہی خاندان کے شہزادوں والا تھا۔ ان کے لباس، خوراک، سواری، مکان، عادات و خصائل کو دیکھا جائے تو یقین نہیں آتا کہ اس ماحول میں رہنے والی شخصیت میں ایسا انقلاب برپا ہوا اور انہوں نے ایک اسلامی ریاست کے لیے وہ خدمات انجام دیں جس سے خلفائے راشدین کے عہد مبارکہ تازہ ہو گیا۔

شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان کی والدہ محترمہ، خلیفہ ثانی حضرت عمر بن خطاب ؓ کی پوتی تھیں۔ عمر بن عبدالعزیزؒ کی پیدائش نبی اکرم حضرت محمد ﷺ کی وفات کے پچاس برس بعد ہوئی۔ ان کے زمانہ میں صحابہ اور تابعین کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ ابتداء میں انہوں نے حدیث اور فقہ کی مکمل تعلیم حاصل کی۔ ان کا شمار صف اول کے محدثین میں ہوتا تھا اور فقہ میں اجتہاد کا درجہ حاصل تھا۔ اپنی علمی قابلیت ہی کے سبب وہ خلفائے راشدین کے عہد کے تمدنی اور سیاسی اساسیات کو بخوبی سمجھ پائے۔ انھیں یہ سمجھنے میں دقت نہ ہوئی کہ خلافت جب بادشاہت میں تبدیل ہوئی توان اساسیات میں کس قسم کا تغیر پیدا ہوا۔ اس کے باوجود ان کی فکر کی عملی تعبیر میں مخالفت خود ان کے خاندان کی جانب سے تھی۔ جو اس انقلاب جاہلیہ کا بانی بھی تھا اور اس کے فوائد سمیٹنے والوں میں سے بھی سب سے آگے تھا۔

عمر بن عبدالعزیزؒ کو خلافت 37 سال کی عمر میں 99 ہ میں سلیمان بن عبدالمالک کی خفیہ وصیت کی بنیاد پر حاصل ہوئی۔ اس تصور کے ساتھ کہ کس قدر ایک بڑی ذمہ داری ان پر آن پڑی ہے، انہوں نے لمحے کی تاخیر کیے بغیر جاہلیت کے مقابلے میں اسلام کے راستے کا انتخاب کیا، اور خلافت اور بادشاہت کے تصور کے فرق کو ایک بار پھر دنیا کے سامنے عملی صورت میں پیش کر دیا۔ خلافت سنبھالتے ہی شاہانہ اور قیصر و کسریٰ کے درباری طریقے ختم کیے اور وہ طرز اختیار کیا جو مسلمانوں کے درمیان ان کے خلیفہ کا ہونا چاہیے تھا۔

اس کے بعد ان امتیازات کو جو شاہی خاندان کے لوگوں کو حاصل تھے ختم کر کے تمام حیثیتوں میں عام مسلمانوں کے برابر کر دیا۔ ان تمام جاگیروں کو جو شاہی خاندان کے قبضے میں تھیں اپنی جاگیر سمیت بیت المال کو واپس کر دیا۔ جن زمینوں اور جائیدادوں پر ناجائز قبضہ کیا گیا تھا۔ وہ سب حقداروں کو واپس کردی گئیں۔ ان کے اس نئے طرز زندگی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی آمدنی پچاس ہزار اشرفی سے دو سو اشرفی سالانہ پر آ گئی۔ بیت المال کے روپے کو اپنی ذات پر اپنے خاندان والوں پر حرام کر دیا۔ خلیفہ کی حیثیت سے تنخواہ نہ لیتے تھے۔

گھر اور خاندان کی اصلاح کے بعد نظام حکومت کی اصلاح کی طرف توجہ دی۔ ظالم گورنروں کو الگ کیا اور ڈھونڈ ڈھونڈ کر صالح آدمی تلاش کیے کہ گورنری کی خدمت انجام دیں۔ وہ عالمین حکومت جو قانون اور ضابطہ سے آزاد ہو کر رعایا کی جان، مال اور آبرو پر غیر محدود اختیارات کے مالک ہو گئے تھے، انھیں پھر ضابطے کا پابند بنایا، اور قانون کی حکمرانی قائم کی۔ ٹیکس کے نظام کی اصلاح کی اور وہ تمام ناجائز ٹیکس جو شاہان بنو امیہ نے عائد کیے تھے، جن میں آب کاری تک کا محصول شامل تھا، یک قلم موقوف کیے۔

زکوٰۃ کا نظام درست کیا اور بیت المال کی دولت کو ایک بار پھر عام مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا۔ غیر مسلم رعایا کے ساتھ جو نا انصافیاں کی گئی تھیں ان کی تلافی کی۔ عدالتوں کو انتظامیہ اور حکومت کے اثر سے آزاد کیا۔ سیاسی اقتدار کی بدولت انہوں نے جاہلیت کے ان اثرات کو نکالنا شروع کیا جو نصف صدی کی جاہلی حکومت کے سبب لوگوں کی ذہنی، اخلاقی اور معاشرتی زندگیوں کو متاثر کر رہے تھے۔ فاسد عقیدوں کو ختم کیا، عوام کے لیے تعلیم کا وسیع پیمانے پر انتظام کیا۔

ان تمام اقدامات پر بنو امیہ میں کہرام مچ گیا اور انہوں نے عمر بن عبدالعزیزؒ کی پھوپھی فاطمہ بنت مروان کو جن کا وہ بہت ادب اور لحاظ کرتے تھے، ان کے پاس بھیجا تاکہ وہ انہیں ان اقدامات سے روکیں۔ مگر ان کا جواب تھا کہ ”جب فرمانروا کے اپنے عزیز و اقارب ظلم کریں اور فرماں روا اس کا ازالہ نہ کرے تو وہ دوسروں کو کیا منہ لے کر ظلم سے روکے گا“ ۔ پھوپھی نے کہا کہ

”تمھارے خاندان کے لوگ تمھیں متنبہ کرتے ہیں کہ اس روش کا تمھیں سخت خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔“ جواب دیا ”قیامت کے خوف سے بڑھ کر اگر مجھے کسی چیز کا خوف ہو تو میں دعا کرتا ہوں کی مجھے اس چیز سے امن نصیب نہ ہو“ ۔ پھوپھی جب جواب لے کر واپس پلٹی تو اپنے کنبے کے لوگوں سے کہا کہ ”یہ سب تمھارا اپنا کیا دھرا ہے۔ تم عمر بن خطاب ؓ کے خاندان سے لڑکی بیاہ لائے۔ آخر کا ر لڑکا اپنے نانا پر چلا گیا ہے“ ۔ اسلام کے اس مجدد اول کو صرف ڈھائی سال کا اقتدار ملا جس میں انہوں نے ایک عظیم انقلاب برپا کر دیا، مگر آخر کار انہیں زہر دے دیا گیا اور 39 برس کی عمر میں انہوں نے وفات پائی۔

عمر بن عبدالعزیزؒ کے اس مختصر ترین تعارف کو پڑھنے کے بعد ذرا ان لوگوں کی طرز زندگی کا جائزہ لیں جو آج ہماری سیاست، اقتدار، اختیارات اور معیشت پر مسلط ہیں۔ ایک عمر بن عبدالعزیزؒ تھے جنھیں اقتدار ملا تو ان کی آمدن قلیل ترین ہو گئی۔ مگر یہاں اقتدار میں آنے والوں کے اثاثے چار دانگ عالم میں پھیل جاتے ہیں۔ حتیٰ کے وہ سیاسی جماعتیں جو اقتدار سے باہر ہوتی ہیں ان کے مالی معاملات بھی اربوں میں ہوتے ہیں۔ پانامہ کیس، اومنی گروپ، فارن فنڈنگ کیس، ان کے مالی معاملات کی صرف ادنیٰ درجے کی مثالیں ہیں جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ادنیٰ درجے کھربوں روپوں پر محیط ہیں تو کل اثاثوں کی نوعیت کیا ہوگی۔

ان کا رہن سہن دیکھیں، دو دو درجن کروڑوں کی مالیت کی گاڑیوں پر مشتمل قافلے، ایکڑوں پر پھیلے گھر اور شاہانہ انداز۔ ابھی حال ہی میں ایک برطانوی اخبار میں ایک کرکٹ میچ کے حوالے سے ایک جماعت کا مالی اسکینڈل سامنے آیا۔ اخبار کا دعویٰ ہے کہ چندہ ایک خیراتی ادارے کے نام پر لیا گیا اور استعمال سیاسی جماعت کے اقتدار کے حصول کی ”تگ و دو“ میں خرچ ہوا۔ برطانوی اخبار کے اس الزام میں نہ جانے کتنی صداقت ہے؟ مگر یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں کی اعلیٰ قیادتوں کے معاشی مفادات کے لیے مراسم کس طبقے سے ہیں، اور ظاہر ہے کہ جس کا کھایا جایا گا اسی کا گایا جائے گا اور پالیسیاں بھی انھی کے مفادات کے لیے بنائی جائیں گی۔ رہے عوام تو انہیں بھی ”عوامی خدمت“ کے نام پر کچھ نہ کچھ دے دیا جاتا ہے کہ نعرے لگانے والے مدح سرا بھی تو ہونے چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments