چین، تائیوان کشیدگی: تائیوان کے معاملے پر انڈیا چین کی مذمت کرنے سے کیوں ہچکچا رہا ہے؟

بھومیکا رائے - بی بی سی ہندی، دہلی


چین اور تائیوان
امریکی ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پیلوسی کے تائیوان دورے کو چین ’ون چائنا‘ پالیسی کی خلاف ورزی سمجھتا ہے۔

نینسی پیلوسی کے اس متنازع دورے کے بعد سے خطے میں سیاسی مباحثے تیز ہو گئے ہیں لیکن ابھی تک انڈیا نے اس کے متعلق کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔

جبکہ دوسری جانب انڈیا کے تقریباً تمام پڑوسی ممالک (افغانستان، بنگلہ دیش، مالدیپ، میانمار، نیپال، پاکستان اور سری لنکا) نے چین کی ’ون چائنا‘ پالیسی کی حمایت کی ہے۔

بہر حال انڈیا کی خاموشی سے زیادہ اس کے پڑوسی ممالک کی کُھلی حمایت چین کی طرف توجہ مبذول کرواتی ہے۔

اس معاملے پر بحث اس لیے بھی اہم ہے کہ جب انڈیا چین کے تناظر میں اپنی علاقائی سالمیت یا خودمختاری کی بات کرتا ہے تو انڈیا کے پڑوسی ممالک کبھی کُھل کر اس کی حمایت نہیں کرتے۔

ساؤتھ ایشین ایسوسی ایشن فار ریجینل کوآپریشن (سارک) کا ایک بااثر ملک ہونے کے باوجود انڈیا کو چین کے مقابلے میں اپنے اتحادیوں اور پڑوسی ممالک کی کم حمایت حاصل ہے۔

جب انڈیا چین کے حوالے سے لداخ میں خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی بات کرتا ہے تو اس کے پڑوسی ممالک کی طرف سے اس طرح کا کھلا ردعمل کبھی نہیں آیا۔

اس پر جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں ساؤتھ ایشین سٹڈیز سینٹر کے پروفیسر مہیندر لاما کا کہنا ہے کہ ’اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔‘

‘ایک وجہ یہ ہے کہ چین جس طرح اپنی خارجہ پالیسی کے ساتھ آگے بڑھتا ہے وہ منفرد ہے۔ ان کی پالیسی کا اس طرح پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ لوگ ون چائنا پالیسی پر یقین کر لیتے ہیں۔ چین اس پالیسی کو کامیاب بنا رہا ہے اور اس کے لیے پراپیگنڈے کا بھرپور استعمال بھی کرتا ہے۔‘

جنوبی ایشیائی ممالک کے پرچم

جنوبی ایشیائی ممالک کے پرچم

وہ کہتے ہیں: ’ہمارے ملک کی جو خارجہ پالیسی رہی ہے، خاص طور پر لداخ اور جموں و کشمیر کے حوالے سے، اس بابت ہم سارک ممالک کو اپنے اعتماد میں نہیں لینا چاہتے۔ یہ سـچ ہے کہ پاکستان کے ساتھ ہمارے مختلف نوعیت کے مسائل ہیں، لیکن باقی ممالک جیسا کہ نیپال، بھوٹان، بنگلہ دیش وغیرہ کو بار بار اپنا موقف واضح کرنا چاہیے، انھیں اعتماد میں لینا چاہیے لیکن ہم باقاعدگی سے ایک پالیسی کے تحت ایسا نہیں کرتے جب کہ چین اپنی پالیسیوں کو پھیلانے کے لیے جارحانہ انداز میں کام کرتا ہے۔‘

پروفیسر لاما کا کہنا ہے کہ ایک اور وجہ بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ جب کوئی چیز چین کے خلاف جاتی ہے تو وہ اس کی شدید مخالفت کرتا ہے۔

وہ کہتے ہیں: ’ذرا حالیہ واقعے کو ہی لے لیں، آپ دیکھیں گے کہ چین نے وسیع پیمانے پر امریکہ کی مخالفت کی ہے اور سب کو اپنے حق میں ساتھ ملانے کی کوشش کی ہے لیکن جب لداخ کی بات آتی ہے تو انڈیا کے تناظر میں ہم چین مخالف پراپیگنڈے کو آگے بڑھانے میں ناکام ہیں۔‘

تاہم پروفیسر لاما کا خیال ہے کہ آج انڈیا اپنی پہلے کی ’نرم‘ پالیسی کے مقابلے زیادہ جارحانہ انداز میں جواب دیتا ہے۔ چین کے خلاف انڈیا کی موجودہ پوزیشن کو دیکھتے ہوئے ان کا خیال ہے کہ اب انڈیا پہلے سے بہتر انداز میں ’ون انڈیا پالیسی‘ کو پیش کرنے کے قابل ہے۔

چین

اگر پڑوسی چین ہے تو۔۔۔

شنگھائی میں طویل عرصے تک صحافت سے منسلک رہنے والے امت دیشمکھ کہتے ہیں: ’چین ایک ایسا ملک ہے جو ایک جدید سرمایہ دار کی طرح کام کر رہا ہے۔ مطلب یہ کہ انڈیا کے اردگرد جتنے ممالک ہیں ان کے ذاتی معاملات میں چین کافی دخل رکھتا ہے۔ مجموعی طور پر انڈیا کے تمام پڑوسی ممالک کو فائدہ پہچانے میں چین بہت آگے ہے۔ چین عام لوگوں کی ضرورت کی بہت سی چیزیں بنا رہا ہے۔ چین ہر چھوٹے بڑے ملک کو قرض دے رہا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا ہے کہ ’چین فوری مدد کر رہا ہے، قرضے دے رہا ہے۔ مجموعی طور پر چین کا ساتھ دینا ان ممالک کی مجبوری بھی ہے۔‘

امت دیشمکھ کا کہنا ہے کہ چین کسی کو اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں دیتا۔ کورونا کی وبا کے آغاز میں اس نے عالمی ادارہ صحت کو بھی چین میں داخل نہیں ہونے دیا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے اندرونی معاملات میں کتنا لبرل ہے۔

وہ کہتے ہیں: ’اگر ہم انڈیا کے تعاون کی بات کریں تو انڈیا ان ممالک کی اس طرح مدد نہیں کر سکتا جس طرح چین کرتا ہے۔ چاہے وہ مالی مدد ہو، تعمیراتی مدد ہو یا صنعت کے قیام سے متعلق امداد ہو۔‘

چین کا دعویٰ ہے کہ حالیہ پیش رفت کے بعد سو سے زائد ممالک نے اس کی پالیسی کی حمایت کی ہے۔

چین اور تائیوان

چین کا دعویٰ

چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے ایک پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ موجودہ صورتحال کے دوران 100 سے زائد ممالک نے ون چائنا پالیسی پر اپنے پختہ عزم کا اظہار کیا ہے۔

اس سے قبل تین اگست کو چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ہویا چوئنگ نے ایک پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا تھا کہ ’دنیا میں صرف ایک چین ہے اور تائیوان اس کا حصہ ہے۔‘

اپنے بیان میں چوئنگ نے کہا تھا کہ امریکہ سمیت دنیا کے 181 ممالک نے صرف ون چائنا اصول کے تحت چین کے ساتھ سٹریٹجک تعلقات قائم کیے ہیں۔

تائیوان کے معاملے پر انڈیا کے پڑوسی ممالک سے جو سرکاری بیانات آئے ہیں وہ بھی چوئنگ کے اس دعوے کو کافی حد تک تصدیق کرتے ہیں۔

سری لنکا اور چین کے پرچم

سری لنکا اور چین کے پرچم

سری لنکا کی حمایت

سری لنکا نے چین کی ون چائنا پالیسی کی حمایت کی ہے۔

سری لنکا کے صدر رانیل وکرما سنگھے نے ایک ٹویٹ کے ذریعے چین کی حمایت کی ہے۔

وکرما سنگھے نے ٹویٹ کیا کہ ’چین کے سفیر کے ساتھ ملاقات کے دوران، میں نے سری لنکا کی ون چائنا پالیسی پر اپنے عزم کا اعادہ کیا۔ اس کے ساتھ ہی اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں کے تحت اقوام کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت پر بھی اپنے عزم کا اعادہ کیا۔‘

انھوں نے ایک ٹویٹ میں دنیا کے ممالک سے اشتعال انگیزی سے گریز کرنے کی اپیل بھی کی ہے۔

وکرماسنگھے نے مزید لکھا: ’ممالک کو اشتعال انگیزی سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ یہ عالمی تناؤ کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ باہمی احترام اور ملکوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے گریز ہی پرامن تعاون اور تنازعات سے بچنے کی بنیاد ہے۔‘

بنگلہ دیش اور چین کے پرچم

بنگلہ دیش اور چین کے پرچم

بنگلہ دیش کا اقوام متحدہ کے چارٹر کی پاسداری پر اصرار

بنگلہ دیش نے بھی چین کی ون چائنا پالیسی سے وابستگی کا اظہار کیا ہے۔

بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ کی جانب سے اس تناظر میں اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق اور باہمی بات چیت کے ذریعے باہمی اختلافات کو دور کرنے پر زور دیا گیا ہے۔

بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق: ’بنگلہ دیش پورے معاملے کو بغور دیکھ رہا ہے۔ آبنائے تائیوان پر جس قسم کی سرگرمیاں ہو رہی ہیں، بنگلہ دیش اس پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہم تمام فریقین سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ تحمل سے کام لیں اور ایسی کسی بھی حرکت سے گریز کریں جس سے کشیدگی میں اضافہ ہو۔‘

یہ بھی پڑھیے

کیا امریکہ اور چین، تائیوان تنازعے پر جنگ کی جانب بڑھ رہے ہیں؟

اگر چین جنگ چھیڑتا ہے تو تائیوان کی دفاعی حکمت عملی کیا ہو گی؟

تائیوان تنازع: امریکہ چین پر گہری نظریں جمائے ہوئے ہے، امریکی جنرل

چین کا اہم شعبوں میں امریکہ کے ساتھ تعاون روکنے کا اعلان، تائیوان کے گرد فوجی مشقیں جاری

بنگلہ دیش کے وزیر مملکت برائے خارجہ امور محمد شہریار عالم نے کہا کہ اس بیان میں کوئی نئی بات نہیں ہے کیونکہ بنگلہ دیش شروع سے ہی ون چائنا پالیسی کی حمایت کرتا رہا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بنگلہ دیش اس معاملے پر کوئی نئی کشیدگی نہیں چاہتا۔

انھوں نے اپنے بیان میں کہا کہ ’دنیا کو پہلے ہی کئی طرح کے مسائل کا سامنا ہے، ہم نہیں چاہتے کہ ایک اور نیا مسئلہ پیدا ہو، بنگلہ دیش ہمیشہ ون چائنا پالیسی کا حامی رہا ہے اور نہیں چاہتا کہ اس معاملے پر کوئی نئی کشیدگی پیدا ہو۔‘

بنگلہ دیش میں چین کے سفیر نے دونوں ممالک کے درمیان دوستی کا حوالہ دیتے ہوئے بنگلہ دیش کی حکومت کو کہا کہ ’بنگلہ دیش کی جانب سے چین کی ون چائنا پالیسی کے عزم اور تائیوان کی آزادی کی پرعزم مخالفت کو چین سراہتا ہے۔‘

نیپال اورچين کے پرچم

نیپال اورچين کے پرچم

نیپال کا بھی اپنے عزم کا اعادہ

نیپال نے بھی چین کی ون چائنا پالیسی کی حمایت کی ہے۔

نیپال کی وزارت خارجہ نے تائیوان کے معاملے پر اپنی پوزیشن واضح کرتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ ’نیپال آبنائے تائیوان کی موجودہ صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ نیپال ہمیشہ سے ون چائنا پالیسی کا حامی رہا ہے۔ دونوں ممالک، نیپال اور چین، ایک دوسرے کی خودمختاری، علاقائی سالمیت اور قومی آزادی کا احترام کرتے ہیں۔‘

خود کو امن پسند ملک بتاتے ہوئے نیپال نے کہا ہے کہ نیپال خطے میں امن و استحکام برقرار رکھنے کی حمایت کرتا ہے۔

https://twitter.com/MofaNepal/status/1555538372944285696

اسی دوران نیپال میں چین کے سفیر ہاؤ یانکی نے نینسی پیلوسی کے تائیوان کے دورے کو ون چائنا اصول کی سنگین خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ یہ قدم اٹھا کر امریکہ نے چین، امریکہ کے سیاسی تعلقات کی بنیاد کی بھی خلاف ورزی کی ہے۔

ہاؤ یانکی نے نیپال کی حمایت پر ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ چین اور نیپال اچھے پڑوسی، دوست ممالک ہیں جو ایک دوسرے پر بھروسہ کرتے ہیں اور قابل اعتماد شراکت دار ہیں۔ انھوں نے نیپال اور چین کے تعلقات کو پہاڑ اور دریا کا رشتہ قرار دیا ہے۔

میانمار اور چین کے پرچم

میانمار اور چین کے پرچم

میانمار کی حمایت

نینسی پیلوسی کے دورے پر میانمار کی وزارت خارجہ کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔

تین اگست کو وزارت کی آفیشل ویب سائٹ پر ایک بیان جاری کیا گیا جس میں لکھا گیا کہ میانمار کو امریکی پارلیمنٹ کی سپیکر نینسی پیلوسی کے دورہ تائیوان پر تشویش ہے جس کی وجہ سے آبنائے تائیوان پر کشیدگی بڑھ رہی ہے۔

’میانمار خطے کو غیر مستحکم کرنے کی کسی بھی اشتعال انگیز کارروائی اور دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی کسی بھی کوشش کی مخالفت کرتا ہے۔‘

اس کے ساتھ ہی میانمار نے ون چائنا پالیسی کی بھی مکمل حمایت کی۔ تائیوان نے اپنے بیان میں اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ تائیوان عوامی جمہوریہ چین کا اٹوٹ حصہ ہے۔

مالدیپ اور چین کے پرچم

مالدیپ اور چین کے پرچم

مالدیپ کا چین سے وابستگی کا اظہار

مالدیپ کی مقامی میڈیا کے مطابق حکومت مالدیپ نے ون چائنا پالیسی سے وابستگی کا اظہار کرتے ہوئے چین کے موقف کی حمایت کا اظہار کیا ہے۔

جب تائیوان کے بڑھتے ہوئے معاملے پر مالدیپ کے موقف کے بارے میں پوچھا گیا تو مالدیپ کی وزارت خارجہ نے کہا کہ مالدیپ چین کی ون چائنا پالیسی کی حمایت کرتا ہے۔ تاہم وزارت خارجہ اس معاملے پر کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کرے گی۔

مالدیپ ہمیشہ سے چین کی ’ون چائنا‘ پالیسی کا حامی رہا ہے۔

سنہ 2019 میں چینی وزیر خارجہ وانگ یی کے ساتھ ملاقات کے دوران مالدیپ کے وزیر خارجہ عبداللہ شاہد نے اس سلسلے میں مالدیپ کے عزم کا اعادہ کیا تھا۔

مالدیپ کی وزارت خارجہ کی ویب سائٹ پر عبداللہ اور وانگ یی کی تصویر کے ساتھ اس کا ذکر کیا گیا ہے۔

اس کے مطابق: ’مالدیپ کی حکومت چین کی ون چائنا پالیسی کے حوالے سے اپنے عزم پر قائم ہے۔ چین نے بھی مالدیپ کی علاقائی اور بین الاقوامی ترقی میں تعاون کے لیے اپنی حمایت کا اظہار کیا ہے۔‘

افغانستان کی طالبان حکومت کی بھی حمایت

افغانستان میں طالبان حکومت کی وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالقہار بلخی نے ٹویٹ کر کے چین کی حمایت کی ہے۔

انھوں نے لکھا کہ ’چین اور امریکہ کے درمیان تعلقات سلامتی، استحکام اور خطے کے حوالے سے انتہائی اہم ہیں۔‘

https://twitter.com/QaharBalkhi/status/1554881516454436867

ٹویٹ میں مزید کہا گیا کہ تمام ممالک کو ایسے فیصلوں یا اقدامات سے گریز کرنا چاہیے جس سے کسی دوسرے ملک کی خودمختاری کی خلاف ورزی ہو۔

پاکستان اور چین کے پرچم

پاکستان اور چین کے پرچم

پاکستان کا طویل المدتی عزم کا اعادہ

تائیوان کے معاملے پر چین کو پاکستان کی بھی حمایت حاصل ہے۔

پاکستان کی وزارت خارجہ نے تین اگست کو ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’ون چائنا‘ پالیسی پر قائم ہے اور وہ چین کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی حمایت کرتا ہے۔

پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان عاصم افتخار احمد نے کہا کہ پاکستان کو آبنائے تائیوان کے بدلتے ہوئے حالات پر تشویش ہے۔ یہ صورتحال علاقائی امن اور استحکام پر سنگین اثرات مرتب کرے گی۔

انھوں نے کہا کہ یوکرین جنگ کی وجہ سے دنیا پہلے ہی سنگین صورتحال سے دوچار ہے۔ ایسی صورتحال میں دنیا کسی ایسے بحران کا سامنا نہیں کر سکتی جس کے عالمی امن، سلامتی اور معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں۔

ترجمان نے کہا کہ پاکستان اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات باہمی احترام، اندرونی معاملات میں عدم مداخلت اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق مسائل کے پرامن حل پر مبنی ہیں۔

ایران بھی چین کی حمایت کرتا ہے

تائیوان پر امریکہ اور چین کے درمیان جاری کشیدگی کے درمیان ایران نے چین کی ’ون چائنا‘ پالیسی کی کھل کر حمایت کی ہے۔

ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے مشرقی ایشیا میں ہونے والی سرگرمیوں کے تناظر میں چین کے ساتھ امریکہ کے سلوک کی مذمت کی ہے۔

چینی وزیر خارجہ وانگ یی کے ساتھ فون پر بات چیت کے دوران انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایران قانونی ذمہ داری کے طور پر چین کی ’ون چائنا‘ پالیسی پر عمل پیرا ہے۔

ساتھ ہی چین نے ملک کی علاقائی سالمیت کے حوالے سے ایران کے موقف کو سراہا اور اس بات پر زور دیا کہ عالمی برادری کے ایک بڑے حصے کو چین کے اندرونی معاملات میں امریکی مداخلت کی مخالفت کرنی چاہیے۔

مودی

انڈین وزیر اعظم مودی

انڈیا کیوں خاموش ہے اور اس کی خاموشی کا کیا مطلب ہے؟

چین، تائیوان کے حالیہ معاملے پر انڈیا نے ابھی تک کوئی بیان نہیں دیا ہے۔ انڈیا کی اس خاموشی پر ماہرین کا خیال ہے کہ انڈیا سرحدی تنازعے کے حوالے سے جاری مذاکرات کے اس حساس وقت میں چین کے ساتھ کوئی تنازع پیدا نہیں کرنا چاہتا۔

سینیئر صحافی سوہاسنی حیدر اور اننت کرشنن نے دی ہندو میں ایک مضمون میں لکھا کہ ’انڈیا سرحدی تنازع پر جاری مذاکرات کے اس حساس وقت میں چین کے ساتھ کوئی تنازع پیدا نہیں کرنا چاہتا۔ تاہم، انڈیا ’ون چائنا پالیسی‘ پر اپنی حمایت کا اظہار بھی نہیں کرنا چاہتا۔‘

انڈیا نے اس پورے معاملے میں سوچی سمجھی خاموشی برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہاں تک کہ وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے بھی کمبوڈیا میں انڈیا، آسیان وزارتی میٹنگ میں اس مسئلہ پر کوئی بیان نہیں دیا۔

امت دیشمکھ کہتے ہیں کہ ’سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ دنیا میں جو ممالک اقتصادی طور پر خوشحال ہیں وہی حاوی ہونے کی طاقت رکھتے ہیں۔ اس وقت دنیا میں اور بھی بہت سے مسائل چل رہے ہیں اور انڈیا اس وقت اسی حالت میں نہیں ہے کہ چین کے ساتھ کشیدگی بڑھائے۔ اس کی ترجیح کووڈ کے بعد کی صورتحال اور دیگر بہت سی چیزوں سے نمٹنا ہے۔‘

جے این یو میں کے پروفیسر مہندر لاما کہتے ہیں: ’جس طرح چین کی خارجہ پالیسی ہے اور جس طرح انڈیا کی خارجہ پالیسی ہے اس میں کئی طرح کے تضادات ہیں۔ انہی تضادات کے سبب انڈیا کس طرح چین کی حمایت کر سکتا ہے؟‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments