شہباز گل زیر حراست: عمران خان کی گرفتاری کا امکان
عمران خان اور تحریک انصاف نے شہباز گل کی اچانک گرفتاری پر شدید رد عمل دیا ہے۔ عمران خان کے چیف آف سٹاف کو آج صبح بنی گالہ چوک سے گرفتار کیا گیا تھا جس کے بعد پارٹی کی تقریباً تمام سینئر قیادت نے سخت بیانات جاری کئے۔ شروع میں واضح نہیں تھا کہ شہباز گل کو کس نے پکڑا ہے اس لئے عمران خان سمیت سب لیڈروں نے اسے ‘اغوا‘ اور قانون شکنی قرار دیا۔ تاہم بعد میں اسلام آباد پولیس نے گرفتاری کی تصدیق کردی۔
شہباز گل کو گزشتہ روز اے آر وئی پر ایک ٹاک شو میں بات کرتے ہوئے فوج کو بغاوت پر اکسانے اور اشتعال انگیز گفتگو کرنے پر گرفتار کیا گیا ہے۔ پاکستان الیکٹرانک میڈیا اتھارٹی نے اے آر وائی کو بھی نوٹس جاری کیا ہے اور متعلقہ قواعد کی خلاف ورزی پر وضاحت طلب کی ہے۔ شہباز گل کی گرفتاری اگرچہ غیر متوقع نہیں ہے لیکن اس پر تحریک انصاف نے جورد عمل دیا ہے، اس سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ پارٹی قیادت کو جلد ہی مزید گرفتاریوں کا اندیشہ ہے۔ یہ قیاس آرائیاں بھی ہو رہی ہیں کہ عمران خان کو گرفتار کرنے کے لئے میدان ہموار کیا جارہا ہے۔ اس حوالے سے خود تحریک انصاف کے لیڈروں نے سنسنی پیدا کی ہے اور کہا کہ عمران خان کی گرفتاری پارٹی کے لئے ریڈ لائن ہوگی۔ تاہم یہ قیاس کرنا مشکل ہے کہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد پارٹی قیادت ایسا کون سا ردعمل دے سکتی ہے جو شہباز گل کی گرفتاری کے بعد دیکھنے میں نہیں آیا۔ فواد چوہدری، شیریں مزاری اور بابر اعوان سمیت تقریباً ہر پارٹی لیڈر نے تند و تیز ٹوئٹ پیغام جاری کئے اور اس گرفتاری کو آزادی رائے اور جمہوری اقدار کا خون قرار دیا۔
عمران خان کی ممکنہ گرفتاری کے بعد بھی ایسے ہی رد عمل کی توقع ہے۔ ہوسکتا ہے کہ حکومت اور تحریک انصاف دونوں ہی اس حتمی اقدام کے لئے ریہرسل کررہے ہوں۔ حکومت شہباز گل کو گرفتار کر کے تحریک انصاف اور عدالتوں کا ردعمل دیکھا چاہتی ہو اور عمران خان اور ان کے ساتھی زیادہ سے زیادہ شور مچا کر ریاستی اداروں کو خوفزدہ کرنا چاہتے ہوں اور واضح کرنا چاہتے ہوں کہ اگر پارٹی کے خلاف گرفتاریوں جیسے انتہائی اقدامات سے گریز نہ کیا گیا تو شدید رد عمل سامنے آئے گا۔ شام کے وقت بنی گالہ میں پارٹی قیادت کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے واضح کیا کہ ’عوام کی طاقت ہمارے ساتھ ہے، کسی سے ڈرنے والے نہیں ہیں‘۔ انہوں نے کہا کہ امپورٹڈ حکومت کے دن گنے جا چکے ہیں۔
پاکستان میں جب کوئی سیاسی پارٹی برسر اقتدار حکومت کے علاوہ اداروں کو للکارتی ہے تو اسے گرفتاریوں اور مشکلات کے لئے بھی تیار رہنا پڑتا ہے۔ اگرچہ سیاسی جدوجہد کی بنیاد پر گرفتاریاں اور مقدمے بازی کوئی خوشگوار طریقہ نہیں ہے لیکن یہ پاکستانی سیاسی کا خاصہ رہا ہے۔ عمران خان بظاہر تبدیلی لانے اور نیا پاکستان بنانے کے لئے اقتدار میں آئے تھے لیکن پونے چار سال تک حکومت میں رہنے کے باوجود وہ اپنے کسی سماجی، معاشی یا سیاسی منصوبہ پر تو عمل درآمد نہیں کرسکے البتہ سیاسی مخالفین کے خلاف ہمہ قسم مقدمے قائم کرنے اور انہیں بہر صورت قید رکھنے کا کام انہوں نے بخوبی سرانجام دیا ۔ اقتدار سے محرومی کے بعد بھی انہوں نے حکومتی جبر کے اس استعمال پر کسی شرمندگی یا پشیمانی کا اظہار نہیں کیا بلکہ اس بات پر بار بار افسوس کیا ہے کہ عدالتوں نے ان کا ساتھ نہیں دیا ورنہ وہ درجن بھر لیڈروں کو تو نشان عبرت بنا چکے ہوتے۔ اب اگر ان کے سیاسی مخالفین اقتدار میں آنے کے بعد وہی ہتھکنڈے تحریک انصاف کے خلاف استعمال کررہے ہیں تو اس پر بہت زیادہ حیران ہونے یا غیر ضروری رد عمل دینے کا جوازموجود نہیں ہے۔ عمران خان تو یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ نیب ان کے زیر اختیار نہیں تھا بلکہ ادارے اسے براہ راست کنٹرول کرتے تھے۔ یعنی وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اگر نیب ان کی دسترس میں ہوتا تو وہ اسے بھی بہرصورت سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کرتے۔ سیاسی لیڈروں میں اگر یہ رویہ موجود رہے گا تو صورت حال کی اصلاح کا امکان بھی نہیں رہے گا۔
تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے محروم ہونے کے بعد عمران خان یہ اندازہ کرنے میں غلطی کرگئے کہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے سیاسی لیڈروں کو دشمنوں کی بجائے زیادہ سے زیادہ دوست بنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہیں ہر منتخب فورم پر اپنی نمائیندگی بھی برقرار رکھنی چاہئے۔ لیکن عمران خان تحریک عدم اعتماد کی کامیابی سے اس قدر مایوس اور غصے میں تھے کہ انہوں نے سوا سو پارٹی ارکان کے ساتھ قومی اسمبلی سے استعفے دینے کا اعلان کردیا۔ اس دوران متعدد ذرائع سے انہیں اسمبلی میں واپس آنے اور سیاسی عمل کا حصہ بننے کی ترغیب دی گئی۔ حتی کہ پنجاب میں تحریک انصاف کو اقتدار تک پہنچانے میں وہ جس چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے ممنون احسان ہیں، انہوں نے بھی نیب آرڈی ننس میں ترامیم کے خلاف پٹیشن کی ابتدائی سماعت میں سوال اٹھایا تھا کہ تحریک انصاف نے یہ اعتراضات اسمبلی میں کیوں نہیں اٹھائے۔ یہ ریمارکس اس بات کا اشارہ تھے کہ جمہوری عمل صرف اقتدار حاصل کر کے اختیار اور پروٹوکول کے مزے لینے کا نام نہیں بلکہ اس میں قانون سازی کے عمل میں ذمہ داری بھی پورا کرنا پڑتی ہے۔ تحریک انصاف اسمبلیوں کی رکنیت کو صرف اقتدار پر براہ راست دسترس سے مشروط سمجھتی ہے، ورنہ وہ سڑکوں پر دھرنا دینے اور سوشل میڈیا پر اودھم مچانے کو ہی جمہوریت اور انسانی حقوق سمجھتے ہیں۔ یہی حکمت عملی اب عمران خان کی سیاسی مشکلات میں اضافہ کا سبب بن رہی ہے۔
موجودہ حکومت یا انتظام پر نکتہ چینی یا حکمران جماعتوں کی کمزوریوں و نقائص کی نشاندہی کوئی غلط طریقہ نہیں ہے لیکن کوئی بھی سیاسی لیڈر اور جماعت اقتدار سے محروم ہونے کے بعد سیاسی قیادت اور اداروں کے ساتھ مواصلت کے ذرائع بند نہیں کرتی۔ تحریک انصاف نے اس کے برعکس دوبارہ اقتدار میں آنے کے لئے اپنی طاقت اور عمران خان کی مقبولیت پر اس قدر بھروسہ کیا کہ اس نے ہر تعلق خراب کیا اور ہر ادارے کو للکارنا شروع کیا۔ یہ بات تو واضح ہوچکی ہے کہ معاشرے کے دیگر شعبوں کی طرح پاک فوج میں بھی تحریک انصاف اور عمران خان کو حمایت حاصل تھی لیکن انہوں نے اس حمایت کو فوج جیسے ادارے کو اپنے تصرف میں لانے کا سنہرا موقع سمجھنے کی غلطی کی۔ عمران خان نے فوج کو بدنام کرنے، اس کے جرنیلوں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلانے اور نیوٹرل ہونے کو ’غیر اخلاقی اور غیر اسلامی‘ طریقہ بتاتے ہوئے مہم جوئی کرنے کا طریقہ اختیار کیا۔ اب وہ بیک فائر کرنے لگا ہے۔ سب سے پہلے تو اس جارحانہ انداز نے ان فوجی افسروں کو بھی خاموش ہونے پر مجبور کردیا جو شاید کسی حد تک تحریک انصاف کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہوں گے۔ کسی سیاسی لیڈر فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ فوجی تربیت کے لحاظ سے چین آف کمان کے تابع ہوتے ہیں۔ وہ کسی سیاسی لیڈر کے لئے اپنے کمانڈر کے خلاف کھڑے نہیں ہوتے۔
حال ہی میں بلوچستان میں ہیلی کاپٹر حادثہ میں چھے اعلیٰ فوجی افسروں کی شہادت کے بعد سوشل میڈیا پر چلائی گئی مہم اور پارٹی قیادت کا غیر واضح رویہ عمران خان اور تحریک انصاف کے لئے مشکلات کے نئے دروازے کھولنے کا باعث بنا ہے۔ پنجاب میں حکومت ملنے کے بعد بظاہر عمران خان کی سیاسی پوزیشن مضبوط ہوئی تھی اور شہباز شریف کا اختیار شدید ضعف کا شکار ہؤا لیکن عمران خان کی غلطیوں کی وجہ سے شہباز حکومت کمزورسیاسی پوزیشن کے باوجود تحریک انصاف کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے اقدامات کر رہی ہے۔ شہباز گل کی گرفتاری اسی طرف ایک اہم پیش رفت ہے۔ خاص طور سے یہ نوٹ کرنے کی ضرورت ہے کہ تحریک انصاف کو ریلیف فراہم کرنے کے لئے چھٹی والے دن اور رات گئے عدالت لگانے والا کوئی جج بھی شہباز گل کی رہائی کا حکم جاری کرنے کے لئے ’دستیاب‘ نہیں تھا۔ عمران خان کو پنجاب میں سیاسی اقتدار دے کر سیاسی توازن قائم کرنے اورمساوی سیاسی امکانات کا اشارہ دیا گیا تھا۔ لیکن عمران خان اس سے استفادہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ حالانکہ انہیں جاننا چاہئے کہ مسلم لیگ (ق) کے جن دس ووٹوں کی بنیاد پر انہیں یہ برتری حاصل ہوئی ہے ، وہ تو بہر صورت اسٹبلشمنٹ کے مدح خواں ہیں اور اسی کی خدمت میں حاضر رہنے والوں میں سے ہیں۔ پرویز الہیٰ اسی وقت تک عمران خان کے لئے شہباز شریف اور آصف زرداری کے خلاف انقلاب برپا کریں گے جب تک ان کے سرپرست اس پر کوئی پریشانی ظاہر نہ کریں۔
شہباز گل کی گرفتاری کے بعد تحریک انصاف کے دیگر اہم لیڈروں کی گرفتاری کا امکان بھی پیدا ہوگیا ہے۔ ہوسکتا ہے ابھی براہ راست عمران خان کو گرفتار نہ کیا جائے لیکن ان کے دست و بازو بنے ہوئے لوگوں کو غیر مؤثر کرکے عمران خان کے جوش سے ابلتی ہانڈی کا دباؤ کم کرنے کی کوشش ضرور کی جا سکتی ہے۔ عمران خان کو اپریل سے لے کر اب تک اس بات کا سیاسی فائدہ حاصل رہا ہے کہ طاقت ور حلقے اب بھی ان کے حامی ہیں۔ شہباز گل کی گرفتاری پر تحریک انصاف کے لیڈروں کی بدحواسی سے یہ واضح ہؤا ہے کہ یہ حمایت غیر مؤثر ہورہی ہے اور عمران خان کو انتشار پھیلانے کے لئے اب کھلی چھٹی نہیں دی جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ شہباز گل کی گرفتاری کے بعد مونس الہیٰ نے بنی گالہ اور عمران خان کی ’حفاظت‘ کے لئے پنجاب پولیس تعینات کرنے کا بیان بھی داغ دیا۔ اور پوری پارٹی قیادت کو شہباز حکومت کے فسطائی ہتھکنڈے بھی دکھائی دینے لگے۔ حالانکہ انہیں جاننا چاہئے کہ تحریک انصاف نے سیاسی مقابلہ کرنے کی بجائے طاقت کے زور پر دباؤ ڈال کر اقتدار واپس حاصل کرنے کی پالیسی اختیار کی تھی۔ یہ مقصد حاصل کرنے کے لئے انہوں نے براہ راست اسٹبلشمنٹ کو چیلنج کیا تھا۔
پنجاب میں ضمنی انتخاب جیتنے اور حکومت حاصل کرنے کے بعد عمران خان کو یہ یقین ہوگیا تھا کہ جنرل باجوہ کی پالیسی جو بھی ہو، فوج اور عدالتوں میں ان کے ہمدرد اب بھی طاقت ور ہیں جو اقتدار میں ان کی واپسی کو یقینی بنانے کی پوزیشن میں ہیں۔ یقین کی اس کیفیت میں ہی شہدا کی بے حرمتی کے علاوہ فوج کو امریکہ کا سہولت کار بتانے والے بیانات تواتر سے جاری ہوئے۔ یہی اشتعال انگیزی تحریک انصاف کو مہنگی پڑ رہی ہے۔ شہباز گل کا بیان سول اختیار اور فوجی تحمل کی اسی حد کو عبور کرنے کا سبب بنا ہے۔ ایسے میں یا تو عمران خان اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کریں اور ملک کی دیگر سیاسی قوتوں کو یقین دلائیں کہ وہ ایک نارمل سیاسی پارٹی کے طور پر کام کرنے اور انتخابات میں مقابلہ کرنے پرتیار ہیں۔
اگر ایسی کوئی افہام و تفہیم پیدا نہیں ہوتی اور عمران خان بدستور فوجی اداروں کی مدد سے اقتدار حاصل کرنے کے خواہاں رہیں گے لیکن انہیں ڈس کریڈٹ کرنے کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے تو قیاس کرنا چاہئے کہ بڑی گرفتاریوں کا سیزن شروع ہؤا چاہتا ہے۔ ایسے میں عمران خان بھی مقدس گائے نہیں رہ سکیں گے۔
- سربراہ مملکت کے کاندھے پر شہیدوں کے جنازے اور ملک کا مستقبل - 18/03/2024
- شہباز شریف کی جی ایچ کیو آمد: ’ایک پیج‘ کی سیاست کا نیا سیزن - 16/03/2024
- شراکت اقتدار کا فارمولا بنایا جائے! - 15/03/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).