اگست میں ہونے والے سانحات


بدقسمتی سے اگست مہینہ میں پختونوں پر کئی بار قیامت صغریٰ آیا ہے سب سے بڑا سانحہ بابڑہ تھا جون 1948 کو باچاخان بمع اس کے اس کے بیٹے عبدالولی‌خان، بہادر خیل سے عبدالقیوم خان کى حکومت نے گرفتار کیے اور صوبہ بھر میں ایک ہزار سے زائد اور خدائى‌ خدمتگاروں کى گرفتاریاں ہوئى۔ باچاخان بابا اور دوسرے خدائى‌خدمتگار کے گرفتاریوں کے خلاف ڈاکٹر خان صاحب، قاضى عطاءاللہ اور ارباب عبدالغفور خان کى مشاورت سے ایک پرامن احتجاج کرنے کا فیصلہ ہوا۔

منصوبے کے مطابق احتجاج جلوس کى شکل میں 12 اگست 1948 کے صبح کو چارسدہ میں قاضى فصیح‌الدین کے حجرے سے نکل کر بابڑہ گراؤنڈ میں جلسے کے لئے روانہ کى جائے گى۔ جب جلوس بابڑہ میں جلسہ گاہ کى طرف 12 اگست کے صبح روانہ ہو گئى تو وزیراعلیٰ عبدالقیوم خان کے حکم پر پولیس اور فرنٹیئر ملیشیا نے ان پرامن اور نہتے لوگوں پر گولیوں کی بارش برسانا شروع کى، قریبى گھروں سے خواتین ننگے پاؤں سروں پر قرآن شریف رکھ کر فائرنگ کى روک تھام کے لئے نکلے لیکن پولیس اور فرنٹیئر ملیشیا کے جوانوں نے ان کى پرواہ کیے بغیر فائرنگ جارى رکھى، کئی خواتین قرآن شریفوں کے ساتھ شہید اور زخمى کیے ۔ 45 منٹ کی مسلسل فائرنگ کے بعد جب پولیس اور ملیشیا کے پاس گولہ بارود ختم ہو گئى تو فائرنگ خودبخود ختم ہو گئى۔

فائرنگ کے نتیجے میں چھ سو یا اس زائد معصوم پرامن اور نہتے لوگ جن کے پاس لاٹھى یا پتھر بھى نہیں تھى، اسى جگہ شہید اور بارہ سو سے زائد زخمى کر دیے گئے۔ دو سو پچاس لاشیں اسى وقت چارسدہ دریا میں پولیس اور ملیشیا جوانوں نے پھینک دیے جن کى آج تک کوئى پتہ نہیں چل سکا۔ سارے پولیس والوں میں صرف ایک بندے نے بندوق پھینک کر اپنے مسلمان اور پختون بھائى بہنیں مارنے سے انکار کیا جس کا تعلق بنوں سے تھا۔

سردار عبدالقیوم خان کى حکومت نے گولہ بارود کى ایک ہزار قیمت وصولى کے لئے مارے ہوئے بندے کى سر اس کى خاندان سے پچاس اور زخمى والے سے سو روپے وصول کیے ۔

اس بڑے واقعے کے بعد صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ خان عبدالقیوم خان نے چوک یادگار پشاور میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے بابڑہ میں خدائی خدمت گاروں کو وہ سبق سکھایا جسے وہ زندگی بھر یاد رکھیں گے۔ میں نے بابڑہ میں دفعہ 144 نافذ کر دی تھی، جب لوگ منتشر نہیں ہوئے تو تب ان پر فائرنگ کی گئی۔ وہ خوش قسمت تھے کہ پولیس کے پاس اسلحہ ختم ہو گیا ورنہ وہاں سے ایک بھی آدمی زندہ بچ کر نہ جاتا۔ یہ انگریزوں کی نہیں مسلم لیگ کی حکومت ہے اور اس حکومت کا نام قیوم خان ہے۔ خدائی خدمت گار ملک کے غدار ہیں۔ میں ان کا نام و نشان مٹا دوں گا۔ ’

8 اگست 2016 کو کوئٹہ میں ہونے والے دہشت گردی کے سانحہ نے پاکستان کو دہلا کے رکھ دیا ہے۔ کوئٹہ ہائیکورٹ بار کے صدر بلال انور کاسی کو گھر سے عدالت جاتے ہوئے نشانہ بنایا گیا جو ہسپتال پہنچنے تک جاں بحق ہو چکے تھے۔ ان کی موت کی خبر سنتے ہی عدالتوں میں ایک ہلچل سی مچ گئی اور زیادہ سے زیادہ وکلا ہسپتال کی طرف دوڑے۔ ایمرجنسی سے ان کی لاش وصول کرنے کے لئے جمع تھے کہ ایک بہت بڑا دھماکہ ہو گیا جس میں 97 افراد بشمول 61 وکلا، 1 ڈاکٹر، 3 سکیورٹی اہلکار، دو چینلز کے کیمرہ مین اور 30 دیگر شہری شہید ہو گئے۔ 125 زخمیوں کو کوئٹہ و کراچی کے مختلف ہسپتالوں میں پہنچا دیا گیا۔ وزیراعظم، آرمی چیف و دیگر اکابرین موقع پر پہنچ گئے۔ اور صرف مذمت کی۔

اسی طرح 5 اگست بلوچستان میں کچلاک سے جون میں اغوا ہونے والے عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن ملک عبید اللہ کاسی کی لاش پشین سے برآمد ہوئی ہے۔ پولیس حکام کے مطابق عبید اللہ کاسی کی لاش ضلع پشین کے علاقے سرانان سے بدھ کی شب تین بجے برآمد ہوئی۔ اے این پی کے رہنما عبید اللہ کاسی کو نامعلوم افراد نے کوئٹہ کے نواحی علاقے کچلاک میں کلی کیتر سے 26 جون کو اغوا کیا تھا۔ اور 5 اگست کو تشدد شدہ لاش برآمد ہوئی۔

کراچی میں 14 اگست 2021 ایک منی ٹرک میں ہونے والے بم دھماکے میں مرنے والے فرمان علی اور ان کے بھائی اور جماعت اسلامی کے رہنما معراج خان سواتی کے اہل خانہ تھیں

’دھماکے میں ابتدائی طور پر دس افراد ہلاک ہوئے۔ بعد میں تین زخمی ہسپتال میں دوران علاج جانبر نہ ہو سکے۔ اس طرح مرنے والوں کی کل تعداد 13 ہو گئی، جن میں سات خواتین اور چھ بچے تھیں

19 اگست 2015 پاک فوج کے جیٹ طیاروں کی فضائی حملوں کے نتیجے میں شمالی وزیرستان میں کئی افراد شہید ہو گئے جس میں پانچ چھوٹے بچے تھے اور دو کی عمر دو دو سال تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments