بوسنیا کی چشم دید کہانی (8)۔


اب میں ہوں اور سامنے شہر مر مر بلغراد۔ جالب یاد آ گئے،
آج اس شہر میں
کل نئے شہر میں
بس اسی لہر میں
اڑتے پتوں کے پیچھے اڑاتا رہا
شوق آوارگی

بس سٹاپ سے کچھ ہی فاصلے پر شہر کی سب سے خوبصورت گلی کنیز مھیلاوا سٹریٹ واقع تھی۔ اس کی راہ لی اور پھر اسے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ناپنے کے بعد کلے میگدان پارک کا رخ کیا۔ یہ پارک کنیز مھیلاوا سٹریٹ کے ختم ہونے کے بعد سڑک پار کرتے ہی شروع ہو جاتا ہے۔ یہ شہر سے قدرے اونچائی پہ واقع ہے۔ اس کے پہلو میں دونا ( ڈینیوب کا مقامی نام) اور ساوا بہتے ہیں۔ یہاں سے پرانے اور نئے بلغراد کے خطوط کافی دور تک واضح دکھائی دیتے ہیں۔

پارک کے ایک حصہ میں گھنے درخت اتنی بڑی تعداد میں ہیں کی یہاں ہر وقت چھاؤں کا پڑاؤ رہتا ہے۔ ان درختوں کے نیچے موجود بنچ یا تو بوڑھے جوڑوں نے سنبھالے ہوتے ہیں یا پھر نوجوان جوڑوں نے۔ بوڑھا جوڑا بنچ پر اس انداز سے بیٹھا ہوتا ہے کہ بڈھے، بڈھی نے دونوں کونوں کو سنبھالا ہوتا ہے اور درمیانی جگہ پالتو کتے نے۔ نوجوانوں کے معاملے میں درمیانی فاصلہ ناپید ہوتا ہے کیونکہ وہ ایک دوسرے سے چمٹے چوما چاٹی میں ایسے مشغول ہوتے ہیں کہ جیسے امجد اسلام امجد کی طرح یہ راز پا گئے ہوں۔

تخلیے کی باتوں میں گفتگو اضافی ہے۔

پارک میں ایک پہاڑی پر موجود مینار کے اوپر ایک جنگجو کا مجسمہ ہے جو وکٹر کہلاتا ہے۔ اسے ماضی قریب میں ایستادہ کیا گیا۔ یہ مجسمہ بھلے وقتوں میں یوگوسلاویہ کی جدوجہد آزادی کی علامت کے طور پر تیار کیا گیا تھا اور اسے شہر کے وسط میں کسی مقام پر نصب کیا جانا تھا۔ مجسمہ چونکہ مکمل طور پر برہنہ تھا لہٰذا اہل بلغراد کی اکثریت اس علامت کی پذیرائی کی بجائے اس کے برہنہ پن پر سراپا احتجاج بن گئی۔ چنانچہ اس سورما کے لیے مجبوراً کسی اور مقام کا انتخاب کرنا پڑا۔ اہل شہر نے اسے یہاں نصب کرنے پر اس لیے خاموشی اختیار کی کہ ماضی میں یہ مقام ترکوں کی چھاؤنی کا حصہ تھا۔ دشمن سے نسبت رکھنے والی جگہ کی بجائے کوئی اور مقام اس ”شاہکار“ کے لیے بھلا کیونکر موزوں ہونا تھا۔

متحدہ یوگوسلاویہ میں مسلمان عددی اعتبار سے تیسری بڑی قوم تھے۔ یہاں سرکاری طور پر مذہب کا پرچار ممنوعات کے زمرے میں آنے کے باوجود کئی کہنہ سال چرچ آج بھی بڑی اچھی حالت میں موجود تھے جو انسان اور مذہب کی ازلی وابستگی کی گواہی دیتے تھے۔ یہ دیکھ کے حیرت ہوئی کہ بلغراد میں موجود واحد مسجد مقفل اور شکستہ تھی۔ اس کی بدحالی کو چھپانے کے لیے خود رو بیلیں اس کی دیواروں سے نمودار ہو کر اس کے گنبد تک لپٹی چلی گئی تھیں۔

یہ مسجد اس خطے کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی مساجد کی طرح ایک مینار اور ایک گنبد پر مشتمل تھی۔ اسے اس حال میں پا کر یہ خیال آیا کہ عبادت گاہ گو اگر عقیدے سے نسبت کی بجائے معبود کی نسبت سے پہچانا جائے تو کیا یہ عمارتیں ہر ایک کے لیے ویسی ہی حرمت والی نہ ہوں جیسی ایک عقیدے کے ماننے والوں کے لیے ہوتی ہیں۔

کلیمگدان پارک کے بعد اگلا ارادہ بذریعہ بوٹ ساوا کی سیر کا تھا۔ جب بوٹ دریا کے نیلے پانی پہ رواں ہوئی تو ایک عمر رسیدہ خاتون گائڈ نے گرد و نوح کے مقامات کے بارے میں ہمیں اپنی معلومات سے مستفید کرنا شروع کیا۔ نہ معلوم یہ ان کا انداز تھا یا دن بھر یہی کام کرتے رہنے کی وجہ سے بوریت، چنانچہ

ع۔ مدعا عنقا ”تھا ان کے“ عالم تقریر کا

اب ملگجے کا سماں تھا۔ واپسی کا راستہ کنیز مھیلاوا سے ہو کر ہی جاتا تھا۔ اب کے وہاں سماں ہی اور تھا۔ گلی روشنی میں ڈوبی ہوئی تھی۔ ہر تھوڑے کھلے مقام پر ایک سے زائد رنگوں کے مختلف تراش خراش والے لباسوں میں ملبوس چھوٹے چھوٹے بینڈ قدر دانوں کے دائروں میں گھرے اپنے اپنے فن کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ گیتوں کی زبان تو اپنی سمجھ سے بالا تھی لیکن سر تال ایسا کہ اپنے ساتھ بہا لے جائے۔ راستے میں جو بھی بینڈ پڑاؤ پایا اس کے پاس ضرور رکا اور روح کی غذا کے اس اہتمام سے دل و جاں کو تازگی ملتی رہی۔

گلی کی ایک شاخ قریب ہی واقع مشہور ریپبلکا سکوائر کو جاتی ہے جو بس آدھ فرلانگ کے فاصلے پہ ہی ہو گا۔ اس کے بیچوں بیچ زغرب کے سینٹر کی طرح ایک گھوڑے شاہ پایا جاتا ہے۔ اپنی پہلے پہل کی یادوں کو تازہ کرنے کے لیے اس کے نواح میں سجی کیفے باروں میں سے ایک کا انتخاب کیا۔ کافی کی چسکیاں لیتے ہوئے زغرب کو یاد کرتا رہا۔

ع۔ کیا کیا ہمیں یاد آیا جب یاد تیری آئی۔

اگلے دن میں کوچہ سویچہ ( دیار گل) میں مارشل ٹیٹو کی قبر کے پاس کھڑا تھا۔ میرے ذہن میں چپلینا کی ایک لڑکی ادینہ سے ملاقات کے نقوش ابھر رہے تھے جو ایک کیفے بار میں ملی تھی۔ اس نے مجھ سے تلخ لہجے میں کہا تھا کہ تم یو این والے آخر اس خوش فہمی میں کیوں مبتلا ہو کہ سرب، کروایٹ اور مسلمان بوسنیا میں اکٹھے رہ سکتے ہیں۔ اگر انہوں نے باہم مل جل کے رہنا ہوتا تو متحدہ یوگوسلاویہ میں اکٹھے کیوں نہ رہتے۔ انہوں نے جو چار سال تک خون کی ہولی کھیلی، کیا وہ کوئی پتلی تماشا تھا۔

اس کے بعد وہ کچھ دیر خاموش رہی اور پھر بولی دراصل ہمارے المیے کی تہہ تک پہنچنا نہ تم لوگوں کے لیے ممکن ہے اور نہ اس میں تمہاری دلچسپی ہے۔ تم لوگ اس کا ادراک ہی نہیں رکھتے کہ اس جنگ نے ہماری زندگیوں پر کیسے کیسے اثرات مرتب کیے۔ میرا باپ سرب ہے اور میری ماں کروایٹ۔ میں ایک ایسے قصبے میں رہتی ہوں جو کروایٹ اکثریتی قصبہ ہے۔ جنگ کے دوران میرے خاندان کی ہمدردی کروایٹوں کے ساتھ رہی لیکن اس کے باوجود میرے باپ کا سرب ہونا ایسا حوالہ ہے جسے نظر انداز کرنا میرے سماج کے لیے ممکن نہیں۔

میرے والدین ہر لمحہ اس خوف کا شکار رہتے ہیں کہ کہیں ان کی مختلف نسلی نسبت کسی دن کسی آفت ناگہانی کا باعث نہ بن جائے۔ سرب باپ کی بیٹی ہونے کی وجہ سے میں یہاں دوسرے درجے کی شہری ہوں۔ یہ سب کچھ میرے لیے ناقابل برداشت ہے۔ میرا دل یہ چاہتا ہے کہ میں کوچہ سویچہ میں مارشل ٹیٹو کی قبر پر کھڑی ہو کر چیخ چیخ کر پکاروں کہ اٹھو ہم تمہارے بعد رل گئے ہیں۔ یہ زندگی اب بہت مشکل ہو گئی ہے۔ یہاں پینچ کر اس کی آواز گلے میں اٹک گئی اور آنکھیں ڈبڈبانے لگیں۔

مجھے آج مارشل ٹیٹو کی قبر کے پاس کھڑے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے ادینہ میرے پہلو میں کھڑی چلا چلا کر وہ الفاظ دہرا رہی ہے اور یہ الفاظ مقبرے کی عمارت میں کچھ ایسے گونج رہے ہیں جیسے یہ اکیلی آواز کی بجائے بے شمار آوازیں ہوں جو مقبرے کے قریب سے بلند ہو کر بڑے بڑے عدسوں سے مزین تکون نما چھت سے ٹکرائی ہوں اور شور محشر بپا کر دیا ہو۔

میں بوجھل دل کے ساتھ اس کامریڈ کی آخری آرام گاہ سے رخصت ہوا جس کی شخصیت آج کے یوگوسلاویہ اور اس سے علیحدہ ہونے والی ریاستوں میں اسی طرح متنازعہ فیہ تھی جس طرح تاریخ کے ہر دور میں ہر بڑی شخصیت متنازعہ فیہ رہی ہے۔ جدید جمہوری پیمانوں کے معیار پر مارشل ٹیٹو بلا شبہ ایک آمر تھا لیکن اس کی قومی خدمات کا گوشوارہ اس قدر طویل ہے کہ اس کی شخصیت کو مکمل طور پر منفی رنگ میں پیش کرنا کسی مورخ کے لیے کچھ ایسا آسان نہیں ہو گا۔

بلغراد میں اب میری آخری منزل ریلوے سٹیشن کے پہلو میں واقع بس سٹینڈ تھی۔ میں بس کی روانگی سے بمشکل دس منٹ قبل وہاں پہنچا۔ ٹھیک ساڑھے گیارہ بجے میری بس سرائیوو کے لیے روانہ ہو گئی۔ ساوا عبور کرنے کے بعد جب بس ہائی وے پر پہنچی تو رفتار بڑھ گئی۔ اب کی بار مسافروں کی تعداد کچھ زیادہ نہ تھی۔ میرے ساتھ جو لڑکی بیٹھی تھی وہ واجبی سی انگریزی جانتی تھی لیکن مقامی زبان اور انگریزی کے ملاپ سے ہونے والی گفتگو رابطے کا ٹوٹا پھوٹا ذریعہ بن رہی تھی۔

وہ مسلمان تھی اور نام عالیہ تھا۔ وہ جنگ سے قبل تریبینیا میں اپنے خاوند اور پانچ سالہ بچے کے ہمراہ رہتی تھی۔ دوران جنگ وہ سرائیوو اپنی ماں کے پاس چلی آئی تھی۔ وہ پچھلے تین سال سے اس دن کے انتظار میں تھی کہ جب اس کا خاوند بیٹے کے ہمراہ مغربی یورپ کے کسی ملک جانے میں کامیاب ہو جائے اور پھر وہ بھی ان سے جا ملے۔ اتنا کہہ کر وہ چپ ہو گئی اور بس کی سیٹ پی سر ٹکا کر چھت کو گھورنے لگی۔ میں اگرچہ اس علاقے میں تعینات تھا جہاں عالیہ کا خاوند اور بیٹا مقیم تھے لیکن اس کی مدد کرنا میرے بس کی بات نہیں تھی۔ میں نے سوچا کاش میں عالیہ کی مدد کر پاتا اور میرا نصیبہ بلھے شاہ کی یہ دعا بنتی۔

جنہاں نے سہاڈے یار ملائے
جھوک وسے وے انہاں دی)

سراییوو میں ہمیشہ کی طرح اماں عدیلہ کا گھر اپنا ٹھکانہ ٹھہرا۔ وہاں مغرب کے بعد پہنچا۔ غسل کیا، کپڑے بدلے اور اماں عدیلہ کی بنائی ہوئی کافی کی دو ننھی منھی پیالیاں پی کر باش چارشیہ کی راہ لی۔ کچھ وقت اس کی گلیوں میں آوارگی کرتے اور کچھ امپیریل کیفے کے رومانوی ماحول میں گزرا۔ باش چارشیہ سے الیزا کے لیے آخری ٹرام رات ساڑھے نو بجے روانہ ہوتی تھی۔ اس کے بعد واپسی کی صورت میں ٹیکسی لینی پڑتی تھی۔ زیر دستخطی مالی اعتبار سے اب ایک خوشحال شخص تھا اور کھیسے ( جیب ) میں کنگھی ہی نہیں ڈالر، مارک اور کچھ اور بدیسی کرنسیاں بھی رکھتا تھا۔ لیکن ٹیکسی سے اجتناب کا یہاں بھی وہی عالم تھا جو پاکستان میں۔ لہٰذا میں بادل نخواستہ آخری ٹرام سے واپس لوٹ آیا۔ اس آخری ٹرام میں بہت رش ہوتا تھا اور جگہ پانے کے لیے تھوڑی بہت طاقت کا مظاہرہ ناگزیر ہوتا تھا۔

اگلی صبح بولک نے مجھے لینے دس بجے ریجنل ہیڈ کوارٹر آنا تھا۔ میں جب ڈیوٹی افسر کے کمرے میں پہنچا تو بولک وہاں میرا انتظار کر رہا تھا۔ اس نے مجھے دیکھتے ہی ہیلو وحید کہتے ہوئے گرم جوشی سے مجھ سے ہاتھ ملایا اور بولا۔ میرا تو خیال تھا کی بلغراد کی شمشاد قد حسینائیں تمہیں وقت مقررہ پر شاید ہی لوٹنے دیں لیکن مجھے لگتا ہے کہ تمہارے ذوق کے بارے میں مجھے اپنی رائے بدلنا ہو گی۔ میں نے کیا بلغراد ہو سرائیوو یا پھر زغرب وہاں تو قدم قدم پر

ع۔ ساغر کو میرے ہاتھ سے لینا کی چلا میں

والا معاملہ درپیش ہوتا ہے لیکن ہم وہ ہیں جو دو ٹکیوں کی نوکری کی خاطر سہانے ساون میں پکارتی محبوبہ کو نظر انداز کر دیتے ہیں لہذا جب نوکری نوے ڈالر یومیہ والی ہوتو ہم کہاں کوئی رسک لینے والے ہوں گے۔

کچھ ہی دیر بعد میں اور بولک جانب سٹولک روانہ تھے۔

 

 

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments