میرے دوست رزاق مہر میں تمہیں نہیں بھولا


میرے دل کی دھڑکنوں کی طرح میرے پیارے محسن دوست رزاق مہر 15 اگست 2002 ء تیری وفات کا دن ہے مگر میرا دل نہیں مانتا کہ تم ہم میں نہیں۔ تم ہم میں ہو۔ ہماری روح میں بستے ہو۔ سندھی ادب کے دل کی دھڑکنوں میں آج بھی دھڑکتے رہتے ہو۔ تاریخی اوراق میں جدیدی سندھی ادب کے منفرد شاعر، افسانہ نگار اور ڈراما نویس کے روپ میں موجو ہو۔ زندہ ہو تم اپنی تحریروں کے روپ میں۔

جب تمہارا خلوص، دوستانہ روش، مخلصانہ برتاء یاد پڑتا ہے تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ تجھے یاد ہے؟ مگر تم کیسے یاد کر سکتے ہو؟ پر میں تو یاد کر سکتا ہوں ناں؟ کہ جب ہم دونوں پو ٹی وی کراچی سینٹر کے ریجنل ایوارڈ میں دونوں منتخب ہوئے تھے۔ تمہاری خواہش تھی کہ مجھے ایوارڈ ملے اور میری خواہش تھی کہ تمہیں ایوارڈ ملے۔

یہ بھی یاد ہے مجھے کہ ہم جوہی ڈگری کالج میں بحث کرتے تھے۔ یاد ہیں وہ تمھاری پر مغز باتیں۔ ادب با الخصوص ڈرامے کی صنف، ہیئت اور فنی لوازمات پر باتیں اور لمبی بحثیں جن سے میں نے سیکھا۔ پھر تمہارا لاڑکانہ تبادلہ ہوا۔ میں ایک بار دادو سے لاڑکانہ تمہاری پاس آیا تھا اور تم نے گھر کا ممبر سمجھ کے اپنے گھر لے جا کر اپنے ڈرامے دکھائے تھے اور پھر اپنی بیٹھک پر جو ادب پر باتیں کی تھیں میں نہیں بھولا! بھول بھی نہیں سکتا جب تک سانس میں سانس ہے یاد رہیں گی وہ باتیں۔

مجھے یاد ہے؟ میرے سندھی زبان میں ڈرامے پی ٹی وی کراچی سینٹر سے ٹیلیکاسٹ ہوئے تھے تم بہت خوش ہوئے تھے۔ زیادہ خوشی کا اظہار تب کیا تھا جب میرے ڈرامے اردو زبان میں پی ٹی وی کراچی سینٹر سے آن ائر ہوئے تھے۔ اتنا خوش ہوا تھا جیسے آپ کے ہی ڈرامے چلے ہوں۔ اس دجالی دور میں کون کسی کی اتنی ہمت اور حوصلہ افزائی کرتا ہے! یہاں تو لوگ ٹانگیں کھینچنے کے ماہر ہیں وہ کیوں نہ ادیب ہوں۔ مگر تم ان میں سے نہیں تھے۔ سچے ادیب اور دوست تھے۔ دوست کی خوشی اور غمی کو اپنی سمجھتے تھے۔

تم نے بہت جھیلا میرے دوست! اپنے ذاتی مسائل کی نسبت سے اور ڈرامہ سیریل ”جیاپو“ آن ائر ہونے کے بعد بھی مشکلات کا سامنا کیا۔ جاگیردارانہ سماج کے خلاف لکھنا ہمارے جیسے مڈل کلاس کے لوگوں کے لیے کوئی آسان نہیں۔ تمہیں موت کی دھمکیاں ملی تھیں مگر تم بہت بہادر تھے اور دھمکیوں میں نہیں آئے۔ وہ جرات مجھے بھی دے گئے ہیں۔ میں بھی جھیلتا آیا ہوں مگر نڈر ہو گر لکھتا رہا ہوں۔ میرا بے قصور جوان بھائی شہید کیا گیا۔ مجھے موت کی دھمکیاں اب بھی مل رہی ہیں۔

پھر بھی ڈٹ کر لکھ رہا ہوں۔ اور لکھتا رہوں گا۔ یہ ہمت تمہاری دوستی نے دی تھی۔ حرکت قلب رکنے سے تم بچھڑے میرے ذہن میں سے صدمے کا تیر گزرا۔ میری روح لہولہاں ہو گئی۔ میں لاڑکانہ پہنچا تھا مگر کسی نے نہیں پہچانا تھا۔ کیوں کہ شاید سب دکھ میں مبتلا تھے۔ تیرے بچے چھوٹے تھے۔ وہ سب دکھ کی لہر میں گھرے ہوئے تھے۔ میں روتے لوٹا تھا۔ میری طرح سندھ افسردگی میں مبتلا ہو گئی تھی۔ سندھی زبان کا ادب سوگوار ہو گیا تھا۔ کیوں کہ سندھی زبان کی شاعری، افسانے اور ڈرامے کا ایک اہم باب اختتام پذیر ہو گیا تھا۔

تم سندھی زبان کے معروف منفرد جدید اور روشن خیال شاعر، افسانہ نگار اور ڈراما نگار تھے۔ اس سے بڑھ کر تم اچھے انسان تھے۔ سچے دوست تھے۔ تمہارا حلقۂ احباب وسیع تھا۔ اس کا سبب تمہاری شفقتیں، محبتیں اور روشیں تھیں۔ تم نے سندھی زبان کے ادب کو اپنی منفرد تحریروں سے مالا مال کیا تھا۔ اردو میں لکھنے کا ارادہ کیا تھا تم نے مگر اجل نے مہلت نہیں دی اور یہ تمہارا خواب خواب ہی رہ گیا۔ ورنہ تمہاری ادیبانہ صلاحیتیں اردو کو بھی زرخیز بنا سجتی تھیں۔

میرے دوست تمہاری تخلیقیں زندہ جاوید ہیں اور رہیں گی۔ یہ تخلیقیں تمہارے ہونے کا نہ صرف مجھے مگر آنے والی نسلوں کو احساس دلاتی رہیں گی۔ تاریخ بڑی منصف یہ وہ تمہاری منفرد تحریروں کی روشنی میں تمہیں نمایاں جگہ دی ہے اور دیتی رہے گی۔ تمہاری کہانیاں اور ڈرامے آج بھی زندہ ہیں۔ ان کے روپ میں تم بھی زندہ ہو۔ میرے دوست تمہاری مٹھاس بھری باتوں کی میرے کانوں پر اب بھی گونج ہے۔ وہ گونج جس کی آواز احساس دلاتی ہے کہ تم ہم میں موجود ہو اور ہم تجھے سن رہے ہیں۔

تم موجود رہو گے آنے والی نسلوں تک۔ تمہاری کتابیں اور ڈرامے ان کی دلیل ہے کہ تم یاد رکھے جاؤ گے۔ کم سے کم جب تک میں زندہ ہوں۔ جب تک میرے دم میں دم ہے مجھے یاد رہے ہو اور یاد رہو گے۔ میرے پیارے دوست رزاق مہر میں تمہیں نہیں بھولا۔ سانس بھول سکتا ہوں مگر تمہیں نہیں۔ تمہیں بھول ہی نہیں سکتا۔ ایک محسن دوست کو بھولنے والا یا تو بے حس ہو سکتا ہے یا محسن کش اور احسان فراموش جو میں نہیں رہا۔ البتہ رشتوں کی ان روش کا میں ضرور شکار رہا ہوں اور رہتا آیا ہوں مگر میں خود ایسا نہیں جو اپنے محسن دوستوں کو بھول جاؤں۔ جب بھی یاد آتے ہیں آنکھیں آنسووؤں سے نم ہو جاتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments