برسوں روپوش رہنے کے بعد سامنے آنے والے مصنف سلمان رشدی کون ہیں؟


Salman Rushdie, outside King's College chapel in Cambridge in 1993
PA Media
مصنف سلمان رشدی، جنھیں امریکی ریاست نیویارک میں ایک تقریب کے دوران سٹیج پر آ کر ایک حملہ آور نے چاقو کے وار کا نشانہ بنایا گیا ہے، کو ان کے پانچ دہائیوں پر محیط ادبی کیرئیر کے باعث متعدد بار جان سے مارنے کی دھمکیاں موصول ہوئی ہیں۔

برطانوی مصنف و ناول نگار کی کئی کتابیں بے حد کامیاب رہی ہیں، ان کے دوسرے ناول مڈ نائٹ چلڈرن نے 1981 میں بکر پرائز جیتا تھا۔

لیکن ان کا چوتھا ناول ‘شیطانی آیات (سیٹانک ورسز) جو سنہ 1988 میں شائع ہوا ان کا سب سے متنازع ناول بن گیا اور جس پر بین الاقوامی سطح پر ایسی ہنگامہ آرائی ہوئی تھی کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔

75 سالہ رشدی کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں، اور وہ اس ناول کی اشاعت کے بعد روپوش ہونے پر مجبور ہو گئے اور برطانوی حکومت نے مصنف کو پولیس حفاظت میں رکھا تھا۔

Copies of Salman Rushdie's novel The Satanic Verses on sale in the UK, circa 1988.

ان کے چوتھی کتاب کی اشاعت اور برطانوی پولیس کی جانب سے حفاظت میں رکھے جانے کے بعد برطانیہ اور ایران نے سفارتی تعلقات منقطع کر لیے تھے لیکن مغربی دنیا کے مصنفین اور دانشوروں نے اس کتاب پر مسلمانوں کے ردعمل کو اظہار رائے کی آزادی کو لاحق خطرہ قرار دیا تھا۔

مصنف سلمان رشدی کی چوتھی کتاب کی اشاعت کے ایک سال بعد سنہ 1989 میں ایران کے رہبر اعلیٰ لیڈر آیت اللہ روح اللہ خمینی نے ناول نگار کے قتل کا فتویٰ یا سرکاری حکم نامہ جاری کیا تھا۔

سلمان رشدی ہندوستان کی برطانیہ سے آزادی سے دو ماہ قبل بمبئی میں پیدا ہوئے تھے۔

14سال کی عمر میں، انھیں انگلینڈ کے رگبی سکول تعلیم کے لیے بھیج دیا گیا تھا ، بعدازاں انھوں نے کیمبرج کے معرفو کنگز کالج میں تاریخ کے مضمون میں آنرز کی ڈگری حاصل کی۔

Salman Rushdie

وہ برطانوی شہری بن گئے اور انھوں نے اپنا مسلم عقیدہ تبدیل کر لیا۔ انھوں نے بطور ایک اداکار مختصر وقت کے لیے کام کیا۔ وہ کیمبرج فوٹ لائٹس میں کام کر چکے ہیں۔ پھر انھوں نے ناول لکھنے کے ساتھ ساتھ ایک ایڈورٹائزنگ کاپی رائٹر کے طور پر بھی کام کیا۔

ان کی پہلی لکھی گئی کتاب گریمس نے اشاعت کے بعد بڑی کامیابی حاصل نہیں کی، لیکن کچھ ناقدین نے انھیں ایک اہم صلاحیت کے حامل مصنف قرار دیا تھا۔

رشدی کو اپنی دوسری کتاب مڈ نائٹ چلڈرن لکھنے میں پانچ سال لگے، اس کتاب نے سنہ 1981 کا بکر پرائز جیتا تھا۔ اس کتاب کو بڑے پیمانے پر سراہا گیا اور اس کی پانچ لاکھ کاپیاں فروخت ہوئیں تھیں۔

جہاں ان کی کتاب مڈ نائٹ چلڈرن انڈیا کے بارے میں تھی، وہیں رشدی کا تیسرا ناول شیم – جو 1983 میں ریلیز ہوا – ایک کم بھیس میں پاکستان کے بارے میں تھا۔ چار سال بعد، رشدی نے دی جیگوار سمائل نامی ناول لکھا، جو نکاراگوا میں ایک سفر نامہ تھا۔

سنہ 1988 میں ان کی وہ کتاب جس نے ان کی زندگی کو خطرے میں ڈال دیا ‘دی سیٹانک ورسز (شیطانی آیات) شائع ہوئی۔ اس کتاب کو دنیا بھر کے مسلمانوں نے مذہبی توہین آمیز قرار دیا۔

اس کتاب پر سب سے پہلے انڈیا نے پابندی لگائی تھی۔ پاکستان نے بھی مختلف دیگر مسلم ممالک اور جنوبی افریقہ کی طرح اس پر پابندی عائد کر دی۔

An Indian Muslim wears a mask of Indian writer Salman Rushdie as he displays a placard condemning Rushdie during a protest in Bombay, 12 January 2004. During the protest against Rushdie's presence in the city, organised by several Muslim organisations, a reward of Rs.100,000 (2,199 USD) to anyone who blackens the face of Rushdie,who in his book The Satanic Verses allegedly made remarks against Islam's holy prophet Mohammed.

اس ناول کو کئی حلقوں میں سراہا گیا اور اس نے ناول نگاری میں وائٹ بریڈ پرائز جیتا۔ لیکن کتاب پر ردعمل بڑھتا گیا، اور دو ماہ بعد، دنیا کے مختلف ممالک میں سڑکوں پر ہونے والے مظاہروں نے زور پکڑ لیا۔

چند مسلم ممالک نے اسے مذہب اسلام کی توہین قرار دیا۔ انھوں نے کتاب میں موجود مواد پر اعتراض کیا۔

جنوری 1989 میں، بریڈ فورڈ میں مسلمانوں نے رسمی طور پر کتاب کی ایک کاپی جلا دی تھی اور نیوز ایجنٹ ادارے ڈبلیو ایچ ایسمتھ کو وہاں اس کتاب کو رکھنے سے منع کیا تھا۔ تاہم سلمان رشدی نے توہین مذہب کے الزامات کو مسترد کیا تھا۔

اس برس فروری میں، برصغیر میں رشدی مخالف فسادات میں کئی افراد مارے گئے، تہران میں برطانوی سفارت خانے پر پتھراؤ کیا گیا، اور مصنف کے سر پر 30 لاکھ ڈالر کا انعام رکھا گیا۔

دریں اثنا، برطانیہ میں، کچھ مسلم رہنماؤں نے اعتدال پسندی پر زور دیا، جبکہ دیگر نے ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ کی حمایت کی۔

امریکہ، فرانس اور دیگر مغربی ممالک نے سلمان رشدی کو دی جانے والی موت کی دھمکی کی مذمت کی تھی۔

سلمان رشدی اس وقت تک پولیس کے پہرے میں اپنی بیوی کے ساتھ روپوش رہے، انھوں نے اپنی کتاب کے ذریعے مسلمانوں کو ہونے والی تکلیف پر گہرے افسوس کا اظہار بھی کیا تھا لیکن ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ خمینی نے مصنف کی موت کے لیے اپنے فتوی کو قائم رکھا۔

وائکنگ پینگوئن کے لندن کے دفاتر سے پبلشرز کو پکڑ لیا گیا اور نیویارک کے دفتر میں عملے کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئی تھیں۔

لیکن اس سب کے باوجود یہ کتاب بحر اوقیانوس کے دونوں کناروں پر واقع ممالک میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب بن گئی تھی۔

مسلم ممالک کے جانب سے اس کتاب کی اشاعت پر شدید ردعمل کے نتیجے میں ای ای سی ممالک نے اس کتاب کی حمایت کی اور ان مظاہروں کے خلاف تمام ممالک نے عارضی طور پر تہران سے اپنے سفیروں کو واپس بلا لیا۔

لیکن مصنف سلمان رشدی وہ واحد شخص نہیں تھے جنھیں کتاب کے مواد پر دھمکیاں دی گئی تھیں۔

اس کتاب ‘شیطانی آیات کا جاپانی مترجم جولائی 1991 میں ٹوکیو کے شمال مشرق میں ایک یونیورسٹی میں مرا ہوا پایا گیا تھا۔

پولیس کا کہنا تھا کہ مترجم، ہیتوشی ایگاراشی، جو تقابلی ثقافت کے اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر کام کرتا تھا، کو کئی بار چاقو مارا گیا تھا اور سوکوبا یونیورسٹی میں ان کے دفتر کے باہر برآمدے میں پھینک دیا گیا تھا۔

اس ماہ کے شروع میں اطالوی مترجم ایٹور کیپری اولو پر بھی ان کے اپارٹمنٹ میں چاقو کے وار کیے گئے تھح تاہم وہ اس حملے میں زندہ بچ گئے تھے۔

سنہ 1998 میں رشدی کے خلاف سزائے موت کو ایرانی حکومت کی باضابطہ حمایت حاصل ہونے سے روک دیا گیا۔

Demonstration Against Salman Rushdie's book The Satanic Verses in Paris, February 26, 1989

یہ بھی پڑھیے

برطانوی مصنف سلمان رشدی پر نیویارک میں حملہ، ’حالت تشویشناک، وینٹی لیٹر پر ہیں اور بول نہیں پا رہے‘: ایجنٹ

’سلمان رشدی نے میری نسل کو بنیاد پرست بنایا‘

پیغمبرِ اسلام کی گستاخی ’آزادیِ اظہار‘ نہیں ہے: یورپی عدالت

رشدی کی بعض کی کتابوں میں بچوں کے لیے ایک ناول، ہارون اینڈ دی سی آف سٹوریز (1990)، مضامین کی ایک کتاب، امیجنری ہوم لینڈز (1991)، اور ناول ایسٹ، ویسٹ (1994)، دی مورز لاسٹ سائی (1995)، دی گراؤنڈ بنیتھ ہر فیٹ (1999)، اور فیوری (2001) شامل ہیں۔

وہ لندن 2003 میں اپنے ناول مڈ نائٹ چلڈرن کی سٹیج کے لیے ماخوذ کردہ پرفارمنس میں بھی شامل رہے۔

پچھلی دو دہائیوں میں اس نے شالیمار دی کلاؤن، دی اینچینٹریس آف فلورنس، ٹو یئرز ایٹ منتھز اینڈ ٹوئنٹی ایٹ نائٹس، دی گولڈن ہاؤس اور کوئچوٹ نامی ناول شائع کیے ہیں۔

سلمان رشدی نے چار بار شادی کی اور ان کے دو بچے ہیں۔ وہ اب امریکہ میں رہتے ہیں، اور ادب کے شعبے میں ان کی خدمات کے لیے 2007 میں انھیں نائٹ کا خطاب دیا گیا۔

انھوں نے سنہ 2012 میں اپنی متنازعہ کتاب ‘شیطانی آیات’ (دی سٹانک ورسرز) کے بعد پیدا ہونے والے تنازعات کے متعلق ایک یادداشت لکھی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32556 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments