فلسفہ، سائنس اور تہذیب


ہمارے ملک میں کتاب دوستی کا جائزہ ڈاکٹر ساجد علی کے اس جملے سے لیا جا سکتا ہے کہ ”اس ملک میں کسی ترجمے کا دوسرا ایڈیشن چھپنا بہرحال ایک واقعہ ہے“ ۔ یہ وہ فقرہ ہے جو انہوں نے کارل پوپر کے چند منتخب کردہ مضامین کا اردو میں ترجمہ کرتے ہوئے ایک کتاب بعنوان ”فلسفہ، سائنس اور تہذیب“ میں تحریر کیا ہے۔ معلوم نہیں 26 سال پہلے مترجم نے ان مضامین کا انتخاب کن بنیادوں پر کیا تھا۔ لیکن یہ مضامین ایسے ہیں کہ ان کو پڑھنے کے بعد ہم سب بیک وقت سائنس، فلسفہ، تحقیق، تہذیب، سیاست اور سماج سے جڑے دیگر اہم موضوعات پر اپنے روایتی خیالات میں واضح اور خوش آئند تبدیلی ضرور محسوس کریں گے۔

یہ کتاب کیا ہے؟ سقراط نے ایتھنز کی عدالت کے روبرو جو کچھ کہا تھا یہ کتاب ہمیں کم و بیش وہی کچھ بتاتی ہے۔ اس میں ایک معقول اور بے خوف شخص کلام کرتا ہے۔ اور یہ ممکن نہیں کہ ایک شخص بیک وقت فکری اعتبار سے بزدل ہو اور صداقت کا متلاشی بھی ہو۔ کارل پوپر ہمیں دعوت دیتے ہیں کہ سچائی کی تلاش کی بہترین صورت صرف یہی ہے کہ ہم اپنے عزیز ترین عقیدوں کا تنقیدی جائزہ لینے سے آغاز کریں۔

کارل پوپر ہمیں یقین دلاتے ہیں کہ تمام مرد اور تمام عورتیں فلسفی ہوتے ہیں۔ اگرچہ ان میں سے کچھ دوسروں سے زیادہ فلسفی ہوتے ہیں۔ اور فلسفی کا اولین مقصد صداقت کی تلاش ہوتا ہے۔

کارل پوپر کے نزدیک علم کے کوئی حتمی ذرائع نہیں ہیں۔ ہر ذریعہ، ہر رائے قابل پذیرائی ہے بشرطیکہ اسے تنقید کی کسوٹی پر پرکھا گیا ہو۔ علمیات کا اصل مسئلہ ذرائع نہیں بلکہ پیش کردہ دعوے کے متعلق یہ جاننا ہے کہ آیا یہ سچ ہے۔ یعنی کیا یہ حقائق سے مطابقت رکھتے ہیں۔

علم کے ذرائع کے حوالے سے برطانوی مکتبہ فکر (بیکن، لاک، برکلے، ہیوم اور مل) کی کلاسیکی تجربیت جن میں ان کا اصرار تھا کہ علم کا حتمی ذریعہ مشاہدہ ہے اور یورپی دبستان (ڈیکارٹ، سپائنوزا اور لائبز) کی کلاسیکی عقلیت جن میں ان کا اصرار تھا کہ عقلی وجدان ہی علم کا قطعی ذریعہ ہے، کے پرانے جھگڑے بارے پوپر کی رائے ہے کہ ان دونوں کے درمیان اختلافات بہت معمولی ہیں اور ان کی مماثلتیں کہیں زیادہ ہیں اور یہ کہ یہ دونوں غلط ہیں۔ پوپر کے مطابق عقل اور مشاہدہ دونوں ہی ان معنوں میں ذریعہ علم نہیں ہوسکتے جس مفہوم میں انہیں آج تک ذریعہ علم قرار دیا جاتا رہا ہے۔

کارل پوپر نے ان دو پرانے سوالوں یعنی ”علم کے ذرائع کیا ہیں؟“ اور ”حکمران کسے ہونا چاہیے؟“ کو بدلنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ یہ سوال کہ ہمارا حکمران کسے ہونا چاہیے؟ بقول افلاطون دانا لوگوں کو حکمران ہونا چاہیے، بے مغز ہجوم کو نہیں بلکہ چند بہترین افراد کو۔ اور بقول کارل مارکس مزدوروں کو نہ کہ سرمایہ داروں کو۔ کارل پوپر کے مطابق یہ سوال اس کے مشابہ ہے کہ ہمارے علم کا حتمی ذریعہ کون سا ہے؟ عقل یا حواس۔ ان دونوں سوالوں کو بدلنے کی ضرورت ہے۔

ہم ایک سوال کو اس طرح بدل سکتے ہیں کہ ”ہم اپنے سیاسی اداروں کو کس انداز میں منظم کر سکتے ہیں تا کہ خراب اور نا اہل حکمران زیادہ نقصان نہ پہنچا سکیں؟“ کارل پوپر کو یقین ہے کہ اس طرح سوال بدلنے سے ہی ہم سیاسی اداروں کے کسی معقول نظریے کی جانب پیش قدمی کر سکتے ہیں۔

کارل پوپر کے خیال میں ہمیں یہ بات قبول کر لینی چاہیے کہ جس طرح مثالی حکمرانوں کا کوئی وجود نہیں اسی طرح علم کے مثالی ذرائع بھی موجود نہیں اور سبھی ذرائع کسی بھی وقت ہمیں غلطی میں مبتلا کر سکتے ہیں۔ اس لیے ذرائع علم کے سوال کو ایک بالکل ہی مختلف سوال سے بدل دینا چاہیے۔ ”کیا ہم غلطی کا سراغ لگانے اور اسے دور کرنے کی امید رکھ سکتے ہیں“ اس تبدیل شدہ سوال کا درست جواب یہ ہو گا : ”دوسروں کے نظریات اور قیاسات پر تنقید کر کے اگر ہم اپنی ایسی تربیت کر سکیں تو اپنے نظریات و قیاسات پر خود بھی تنقید کر سکتے ہیں“ ۔

کارل پوپر کے نزدیک عقلیت پسند وہ شخص ہے جو تشدد کی بجائے استدلال اور بعض صورتوں میں سمجھوتے کے ذریعے فیصلے پر پہنچنے کی سعی کرتا ہے۔ عقلی رویے کا شاید سب سے عمدہ بیان یہ ہو سکتا ہے : ”ممکن ہے آپ درست ہوں، ممکن ہے کہ میں غلطی پر ہوں اور اگر ہماری بحث و تمحیص اس حتمی فیصلے پر پہنچنے میں ہماری مدد نہ بھی کر سکے کہ کون صحیح ہے، تب بھی امید ہے کہ ہم بحث کے بعد معاملات سے زیادہ بہتر طور پر آگاہ ہو چکے ہوں گے۔ ہم ایک دوسرے سے سیکھ سکتے ہیں تاوقتیکہ ہم اس نکتے کو فراموش نہ کریں کہ یہ بات اہم نہیں کہ کون سا فریق درست ہے، بلکہ اہمیت اس بات کی ہے کہ ہم معروضی صداقت سے کس قدر قریب ہوئے ہیں۔ یہ معروضی صداقت ہی ہے جس کی خاطر ہم دونوں کوشاں ہیں“ ۔

کارل پوپر کے مطابق رواداری اس احساس کا لازمی نتیجہ ہے کہ انسان خطا کا پتلا ہے۔ غلطی کرنا انسان کا خاصہ ہے اور ہم ہر آن ان کا ارتکاب کرتے ہیں۔ لہذا ہمیں ایک دوسرے کی غلطیوں سے درگزر کرنا چاہیے۔ لیکن عدم رواداری کے لئے رواداری برتنا ناممکن ہے۔ یعنی برداشت پیدا کرو لیکن عدم رواداری، تشدد اور ظلم کو برداشت نہ کرو۔

کارل پوپر کے نزدیک ہمیں مجرد اچھائیوں کے حصول کی بجائے ٹھوس برائیوں کے خاتمہ کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے۔ ہم زمین کو جنت نہیں بنا سکتے۔ اس کی بجائے ہم یہ کر سکتے ہیں کہ یہ زندگی ہر آنے والی نسل کے لئے کسی قدر کم اذیت ناک اور کم غیر منصفانہ ہو جائے۔

کارل پوپر کے مطابق تمام تر سیاسی عمل کم تر برائی کے انتخاب کا نام ہے۔ سیاست میں آئیڈیل کی خاطر جدوجہد کرنا بچگانہ پن ہے۔ بقول چرچل: جمہوریت بد ترین طرز حکومت ہے سوائے حکومت کے دوسرے ان تمام طریقوں کے جنہیں آج تک آزمایا جاتا رہا ہے۔ ”

”مغرب کا کن باتوں پر اعتقاد ہے؟“ کا جواب یہ ہے کہ ”اہل مغرب متعدد اور مختلف باتوں پر ایمان رکھتے ہیں جن میں کچھ صحیح ہیں کچھ غلط، کچھ باتیں اچھی ہیں اور کچھ بری۔“ لہذا نظریے کی وحدانیت نہیں بلکہ یہ تصورات کا تنوع اور نظریات کی کثرت ہے جس پر مغرب بجا طور پر فخر کر سکتا ہے۔ اور ہم مغرب میں جس قسم کے معاشرے میں زندگی بسر کر رہے ہیں، وہ اپنی تمام کوتاہیوں کے باوصف آج تک وجود میں آنے والے تمام معاشروں میں بہترین ہے۔

اسی طرح سائنس علم کے ڈھیر لگانے یا اضافہ کرنے کے نام نہیں بلکہ سائنسی نظریات میں انقلابی تبدیلیوں کا نام ہے۔ ہم بالکل نئے سرے سے آغاز نہیں کر سکتے۔ ہمارے پیش رو سائنس میں جو کام کر چکے ہیں، ہمیں لازمی طور پر اس سے استفادہ کرنا پڑے گا۔ یہ تحقیق کرنی چاہیے کہ وہ مشکل مقامات کون سے ہیں جن پر اتفاق نہیں۔ یہ جاننے کی کوشش کرنی چاہیے کہ آج کل سائنس کے شعبے میں کون سے امور زیر بحث ہیں۔ ہم سائنس میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو ہمیں پیش روؤں کے کندھوں پر کھڑا ہونا پڑے گا۔

کارل پوپر کے مطابق جہاں صحیح الاعتقادی علم کی موت ہے کیونکہ علم کی ترقی اختلاف رائے کے وجود پر منحصر ہے۔ وہاں اضافیت پسندی یعنی یہ نظریہ کہ کوئی صداقت مطلق اور معروضی نہیں، بلکہ ایک صداقت یونانیوں کے لئے ہے، ایک مصریوں کے لئے، ایک شامیوں کے لئے۔ صداقت کا یہ نظریہ بھی درست نہیں ہے۔ نظریات اہم اور ناگزیر ہیں بشرط یہ کہ ہم کسی مخصوص نظریے پر فریفتہ ہونے کے خطرے سے آگاہ رہیں۔ ہم خود کو ایک ذہنی قید خانے میں اسیر نہ ہونے دیں۔ مکمل فکری آزادی شاید ممکن نہ ہو لیکن ہم اپنے ذہنی قید خانے کو کشادہ کر سکتے ہیں۔

اسی طرح، کارل پوپر کے وہ خیالات جنہوں نے سائنسی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی فکر کو بہت زیادہ متاثر کیا، جاننے کے لئے اس کتاب کا مطالعہ بے حد ضروری ہے۔ اردو قارئین کے لئے یہ کتاب یقینی طور پر آزادی فکر کا ایک قابل قدر تحفہ ہے۔ یہ کتاب ”عکس پبلیکیشنز، ٹیمپل روڈ، لاہور“ نے شائع کی ہے اور بآسانی دستیاب ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).