جب مولانا طارق جمیل کو ٹکر کا آدمی ملا


کہتے ہیں کہ ٹیلنٹڈ آدمی کو ہی حقیقی ٹیلنٹ کی پہچان ہوتی ہے یا ایک تجربہ کار جوہری کو ہی اصلی ہیرے کی پرکھ ہوتی ہے یعنی پرکھ اور جانچ اناڑی یا عطائی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ ٹیلنٹ سے بات شروع کرنے کی وجہ ایک چھوٹا سا حقیقی واقعہ ہے جس کے راوی ایم ٹی جے بزنس امپائر کے سربراہ مولانا طارق جمیل ہیں۔ وہ اکثر اپنی تقاریر میں بڑے بڑے لوگوں سے اپنے ذاتی تعلقات کے قصے جو تبلیغ کے بہانے سے بن جاتے ہیں بڑے بڑے مجمعوں میں لوگوں کی ایکسٹرا توجہ حاصل کرنے کے لیے بیان کرتے رہتے ہیں۔

زندگی کے ان بڑے واقعات میں سے ایک واقعہ ایسا ہے جس نے مولانا صاحب کو بھی لاجواب یا دم بخود کر دیا تھا یا یوں کہہ لیں کہ مولانا کو باندھ کے رکھ دیا تھا۔ مولانا کافی عرصہ سے تبلیغ کے میدان میں اپنی سحر بیانی ”جس میں حوروں کا حدود اربعہ بھی شامل ہے“ کے جوہر دکھا رہے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ جس کو مولانا کے ہاتھ لگ گئے ”بس پھر وہ تو گیا کام سے“ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر تبلیغ کا ہو جاتا ہے، بڑے بڑے اداکار، آرٹسٹ، مہان فنکار، سنگرز، ڈاکٹرز اور انجینئرز اپنے حقیقی ٹیلنٹ یا پروفیشن سے ہاتھ ہاتھ دھو بیٹھے بالکل اسی طرح سے جس طرح سے مولانا صاحب اپنی میڈیکل کی تعلیم بیچ چوراہے چھوڑ کر رائیونڈ کو پیارے ہو گئے تھے اور بعد میں مبلغ بن کر سامنے آئے۔

کہتے ہیں کہ بندہ اسی وقت تک مہان ہوتا ہے جب تک اسے اس کی ”ٹکر“ کا آدمی نہیں مل جاتا اور مولانا کو بھی آخر ایک دن ان کی ٹکر کا آدمی مل ہی گیا۔ مولانا فرماتے ہیں کہ ایک بار حج کے موقع پر مقدس سرزمین پر انہیں پتہ چلا کہ عامر خان بھی اپنی والدہ کے ساتھ حج کرنے آیا ہوا ہے، اس بات کا پتا لگنے کے بعد مولانا کا اندر کا ٹیلنٹ جوش بھرنے لگا اور تہیہ کر لیا کہ جنید جمشید کی طرح عامر خان کا دل بھی تبلیغ کے بہانے اپنی سحر بیانی سے موہ لوں گا اور اس سے بھی اس کا فن چھڑوا کر اپنے حلقہ ادارت میں شامل کر لوں گا۔

ملنے کے لیے بڑی تگ و دو کرتا رہا اور عامر خان ہر بار میری پروفائل دیکھ کر ملنے سے انکار کرتا رہا آخر کار ایک دن بات بن گئی اور صرف دس منٹ ملاقات کی اپوائنٹمنٹ لینے میں کامیاب ہو گیا۔ میرے اندر کے ٹیلنٹ نے مجھے ڈائریکٹ تبلیغ سے اپنی بات کا آغاز کرنے سے منع کیا اور میں نے عامر خان کی بھرپور توجہ حاصل کرنے کے لیے دس منٹ کی ملاقات میں موجودہ طارق جمیل کو ایک سائیڈ پر کر کے کالج کے زمانے والا ڈسکو طارق جمیل کا پرسونا ماسک پہن کر انیس سو ستر کی فلموں اور مقبول ترین گانوں سے اپنی بات کا آغاز کر دیا۔

جب میں نے پوری توجہ حاصل کرلی تو چپکے سے ”تبلیغی ٹچ“ دے دیا اور دس منٹ کی یہ ملاقات ڈیڑھ گھنٹے تک جا پہنچی۔ ملاقات کے اختتام پر عامر خان گلے لگ کر ملتا ہے واٹس ایپ نمبرز کا تبادلہ ہوجاتا ہے۔ مولانا صاحب فرماتے ہیں کہ مجھے یوں لگنے لگا کہ آج کی تبلیغ میری ساری عمر کی تبلیغ پر بھاری ہے کیونکہ میں نے آج ایک ایسے بندے کو ہاتھ لگایا ہے یا کایا پلٹ دی ہے جو ایک طویل عرصہ سے گانے بجانے اور نا محرم لڑکیوں کے ساتھ بوس و کنار میں مصروف رہا۔ اسی خوشی میں نہال ہونے کی وجہ سے ساری رات آنکھ نہ لگی اگلے دن دونوں کی واپسی تھی اور عصر کی نماز کے بعد عامر خان نے واپسی سے پہلے مولانا صاحب سے فون پر کچھ یوں کہا۔

مولانا صاحب میری فلم ”دھوم تھری“ کترینہ کیف کے ساتھ ریلیز ہونے والی ہے اس فلم کی کامیابی کے لیے آپ سے دعاؤں کی درخواست ہے۔

میں آپ سے کل مل کر بہت متاثر ہوا تھا اور میرا یقین ہے کہ آپ کی دعا بہت برا اثر ہوگی۔ مجھے امید ہے کہ آپ کی دعاؤں کے صدقے میری فلم گزشتہ کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے گی۔ آپ سے درخواست ہے کہ ہر نماز کے بعد آپ میری کامیابی کے لیے دعائیں مانگتے رہیں کیونکہ میں نے اس مووی پر بہت محنت کی ہے۔ آپ سے وعدہ ہے کہ اگلی فلم کی اوپننگ پر میں آپ کو بھی مدعو کروں گا اور کم از کم 40 دن تک آپ نے میرے ساتھ رہنا ہے۔ میں آپ کے ٹیلنٹ کا مداح ہو گیا ہوں اور آپ کے لیے ابھی سے میں نے دو تین کریکٹر بھی سوچ لیے ہیں۔ آپ میں بلا کا ٹیلنٹ ہے ہو سکتا ہے آپ کا بھی میری فلموں میں کام کرنے کا ذہن بن جائے۔ نیت آپ ابھی سے کر لیں کیونکہ آپ کا فرمانا تھا کہ نیت اور ارادے پر بھی اجر ملتا ہے۔

یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد مولانا صاحب فرماتے ہیں کہ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ عامر خان کی گفتگو سننے کے بعد میرا کیا حال ہوا ہو گا؟ یہ سارا واقعہ گگلی یوٹیوب چینل پر موجود ہے آپ سن کر محظوظ ہو سکتے ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عامر خان کو یہ کیوں لگا کہ تھیاکریسی یا ملا انسٹیٹیوشن شوبزنس کی طرح کا ہی کا ایک شعبہ ہے؟

اسی نقطے میں اہل نظر و فکر کے لیے نشانیاں موجود ہیں زیادہ سوچ بچار کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی کہ کیا مولانا طارق جمیل کا بیان مخاطب کی حیثیت کے مطابق نہیں ہوتا؟ عمومی اور خاص مجمع میں طرز تکلم مختلف نہیں ہوتا؟ چھوٹے بندے سے ملنے اور مخاطب ہونے کا طریقہ خاص بندوں سے ملنے کے ڈیکورم سے مختلف نہیں ہوتا؟ اگر تھیاکریسی شوبزنس نہیں ہے تو مولوی حضرات اپنی نیچرل آواز میں تقریر کرنے کی بجائے وقتی طور پر خوش الحانی کا بناوٹی سہارا کیوں لیتے ہیں؟

ڈسکو طرز کی نعتوں کو پڑھنے کے دوران آلات موسیقی کیوں استعمال ہو رہے ہیں؟ چمکدار اور دھاری دار سوٹ جو کیمرے کی چکاچوند روشنیوں میں ایک الگ ہی رنگ بھر دیتے ہیں تو اتنا بننا سنورنا کس لیے؟ دین تو سادگی کا درس دیتا ہے تو خود کے لباس کو شو آف کرنے کا اتنا جھنجٹ کس لئے؟ اگر یہ شوبزنس نہیں ہے تو پھر اتنا تکلف کیسا؟ اگر فلمی اداکار اپنی اداکاری کے جوہر دکھانے کا بھاری معاوضہ لیتا ہے تو ہمارے ان معززین مذہب کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا یہ اپنا جلوہ مفت میں کرواتے ہیں؟ کیا حیثیت و حجم کے حساب سے نعت خوانوں کا معاوضہ مقرر نہیں ہے؟ اب عامر خان افریقہ یا ایمازون کے جنگلات میں تو رہتا نہیں کہ وہ اپنے اردگرد کے کلچر سے بے نیاز نیاز ہوتا آخر اسے مسٹر پرفیکشنسٹ یوں ہی تو نہیں کہا جاتا۔ وہ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ

”دیر از نو فری لنچ“ اور کریڈٹ والی بات یہ ہے کہ وہ اپنا معاوضہ اون کرتا ہے جبکہ ہمارے معززین مذہب اپنے معاوضے کو نذرانے یا روحانی تحائف کا لبادہ اوڑھا کر شاہی لائف سٹائل انجوائے کرتے رہتے ہیں اور سادہ لوحوں کو دنیا مردار سے بچنے کا درس دینے میں مصروف رہتے ہیں، ازل سے یہی چلتا آ رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments